ثقافتی ادارے کسی قوم کی نظریاتی شناخت اور فنون لطیفہ میں رابطے کا کام کرتے ہیں۔ یوں سمجھ لیں جو بات فلسفیوں اور عالموں کی ثقیل گفتگو سے آپ کو بیزار کردے وہی کسی نغمے‘ ڈرامے اور فلم میں ایسے سمودی جاتی ہے کہ ہم سب اس کا اثر قبول کرلیتے ہیں۔ ذوالفقار علی بھٹو نے ملک میں سینما انڈسٹری کو فروغ دیا‘ بڑے شہروں میں آرٹس کونسلیں قائم کیں‘ ثقافتی اور علمی اداروں کواپنی عمارات دیں۔ ٹی وی اور ریڈیو کو اس طرح چلایا کہ نسلی‘ لسانی اور علاقائی تعصبات کمزور ہوں اور قومی اتحاد مستحکم ہو۔ امین اقبال نجی شعبے کے نامور ڈرامہ ڈائریکٹر ہیں۔ گزشتہ چھ سات سال میں انہوں نے کئی ہٹ سیریلز دیئے۔ ان سے ڈرامہ اور فلم کے حوالے سے گزشتہ دنوں رات گئے تک نشست رہی۔ ہم کئی برس بعد ملے تھے لہٰذا کہنے کو بہت کچھ تھا۔ امین صرف ایک ڈرامہ رائٹر اور ڈائریکٹر نہیں بلکہ پرفارمنگ آرٹ کے دانشور ہو چکے ہیں۔ ملاقات میں میرے دوست آصف موسیٰ بھی شریک تھے۔ آصف ایک ڈرامہ بنانا چاہتے تھے‘ میں امین کے پاس لے آیا۔ بات ڈرامے کے معیار‘ پی ٹی وی کے ڈراموں اور ڈرامے کی نمائش سے حاصل ہونے والی آمدن سے شروع ہوئی۔ امین کا خیال ہے کہ پرائیویٹ پروڈکشن میں ڈرامہ انڈسٹری نے خوب عروج پایا ہے لیکن اس کے کچھ مسائل ہیں جو حوصلہ شکنی کا باعث بن رہے ہیں۔ امین کا کہنا ہے کہ فلم انڈسٹری پر سرمایہ کاری زیادہ منافع دے سکتی ہے۔ آصف نے سوال اٹھایا کہ سینما تو ختم ہورہے ہیں‘ فلم کی نمائش کہاں ہو گی۔ امین اقبال نے اس تاثر کو غلط قرار دیا۔ بتایا کہ ملک میں چار سو سینما گھر ہیں۔ اکثر نئے سینما گھر ملٹی سکرین ہیں۔ ان سینما گھروں کا کاروبار پہلے بھارتی فلموں سے چلتا تھا۔ اب بھارتی فلموں کو نمائش کی اجازت نہیں اسی لیے سینما والے مقبول ڈرامے دکھانے لگے ہیں۔ پی ٹی وی کسی دور میں جنوبی ایشیا میں ڈرامے کا سب سے مضبوط ادارہ تھا۔ہمارے بچپن میں جو ملی نغمے تیار ہوئے ان کے معیار کو آج کوئی گیت چھو نہیں سکتا۔ ذوالفقار علی بھٹو کے بعد جنرل ضیاء کا زمانہ اگرچہ سیاسی گھٹن کا تھا لیکن اس دور میں جو تاریخی موضوعات پر ڈرامے بنے وہ آج بھی دلچسپی سے دیکھے جاتے ہیں۔ ملک میں جمہوریت بحال ہوئی تو موضوعات کو ایک بار پھر آزادی ملی۔ اس پورے زمانے کو اشفاق احمد‘ مستنصر حسین تارڑ‘ نثار حسین‘ یاور حیات‘ نصرت ٹھاکر‘ قنبر علی شاہ اور امجد اسلام امجد کا زمانہ کہا جا سکتا ہے۔ ان کے بعد بھی لوگ آئے لیکن پھر پی ٹی وی پر سیاسی تجربات بڑھ گئے۔ پیشہ ور ماہرین کی جگہ سیاستدانوں نے اپنے اپنے پرویز رشید اور ڈاکٹر شاہد مسعود مسلط کردیئے۔ یوسف بیگ مرزا آ گئے۔ نیا راستہ بتایا گیا‘ پالیسی میں بچت پر زور دیا گیا مگر مضحکہ خیز پہلو یہ کہ پی ٹی وی کو کما کر دینے والا ڈرامہ بند کردیا گیا۔ صرف نیوز اینڈ کرنٹ افیئرز سے بھلا کیا آمدن ہو سکتی ہے۔ پاکستان کے شہریوں سے ناجائز طور پر اگر پی ٹی وی فیس نہ لی جائے تو یہ ادارہ ایک دن نہ چل سکے۔ اچھے بھلے کمائو ادارے کو محتاج بنا کر رکھ دیا گیا۔ جو ثقافتی دانشور پی ٹی وی کے ذریعے معاشرے میں تعمیری کردار ادا کر رہے تھے انہیں بے کار کردیا گیا۔ تحریک انصاف کی حکومت آنے کے بعد توقع کی جا رہی تھی کہ بچت کے نام پر پی ٹی وی کو دیوالیہ بنانے کی پالیسی ختم کردی جائے گی۔ اس وقت حالت یہ ہے کہ ڈرامہ پروڈکشن بند ہے۔ کئی ملازم بے کار بیٹھے ہیں۔ ڈرامہ پروڈکشن کے لیے پی ٹی وی کی مشینری اور سامان زنگ آلود ہورہا ہے۔ نجی شعبے سے پرانے اور پہلے سے چلے ہوئے ڈرامے خرید کر نشر کئے جا رہے ہیں۔ بچت کا نیا طریقہ یہ ڈھونڈا گیا ہے کہ ملازمین کی ریٹائرمنٹ 60 کی بجائے 58 سال کی عمر پر کردی گئی ہے۔ دوسری طرف بڑے بڑے معاوضوں پر نئے لوگ رکھے جا رہے ہیں۔ نجی چینلز ڈسٹری بیوشن منیجر رکھتے ہیں تاکہ کیبل آپریٹرز کو اپنا نمبر آگے رکھنے پر آمادہ کر سکیں۔ پی ٹی وی دکھانا ہر کیبل آپریٹر کی قانونی ذمہ داری ہے جو کیبل آپریٹر ایسا نہ کرے اس کے خلاف قانونی چارہ جوئی ہو سکتی ہے۔ اس صورت میں ڈسٹری بیوشن منیجر رکھنے کی ضرورت کیا ہے؟ پی ٹی وی میں ملازمین کے ریکارڈ اور دیگر تفصیلات کے لیے پورا ایک شعبہ ایڈمن اینڈ پرسونل ڈیپارٹمنٹ موجود ہے لیکن چیف ہیومن آفیسر رکھ لیا گیا ہے۔ بزنس لانے کے لیے مارکیٹنگ ڈائریکٹر رکھا گیا ہے مگر پچھلے ایک سال میں چند ہزار کے اشتہار تک نہ لائے جا سکے۔ پی ٹی وی نے ایک کمپنی کی خدمات حاصل کی ہیں جو ملازمین سے پرفارمے بھروا رہی ہے۔ ان پرفارموں کی بنیاد پر کمپنی ملازمین کی اہلیت کے نمبر لگائے گی۔ یہ بتانے کی ضرورت نہیں کہ اس کام کے بدلے کمپنی کو جو معاوضہ ادا کیا گیا ہے وہ کئی ملین میں ہوگا۔ پی ٹی وی اور ریڈیو کو فضول اور سرکاری خزانے پر بوجھ قرار دینے والے لوگ دراصل پاکستان کی بنیادیں کھوکھلا کرنے کی سازش میں دانستہ یا نادانستہ طور پر شریک ہیں۔ ہم ترکی کا ڈرامہ دکھا رہے ہیں لیکن یہ سمجھنے کو تیار نہیں کہ ہم بھی اچھے ڈرامے سرکاری طور پر بنا کر دوست ممالک کی مارکیٹ میں چلا سکتے ہیں۔پبلک پرائیویٹ اشتراک کا تصور پی ٹی وی کے لئے ممنوع کیوں ؟ ملائیشیا‘ چین‘ عرب ممالک‘ ترکی اور کچھ اور منڈیاں مل سکتی ہیں۔ پاکستان کے جس ڈرامے نے بھارت کو متاثر کیا ہے وہ پی ٹی وی کا کام ہے۔ اس قدر اہم ادارے اور ہم کام کو نظر انداز کرنا گویا پاکستان کی ثقافتی پہچان کو دائو پر لگانا ہے۔