انتخابی نتائج آنے کے بعد تحریک انصاف کے سربراہ عمران خان نے اگلی متوقع حکومت کی ترجیحات سے آگاہ کیا ہے۔ ان کی تقریر میں قومی وسائل کے تحفظ، عوام کی بہبود، گورننس میں بہتری، ٹیکس اصلاحات، بھارت و امریکہ سے تعلقات اور افغانستان میں قیام امن سے متعلق فکر مندی جھلک رہی تھی۔ انہوں نے بلاامتیاز سب کے احتساب اور قانون کی بالادستی کے بارے میں اپنی سوچ پیش کی۔ حالیہ انتخابات میں دھاندلی یا بدنظمی کا واویلہ کرنے والوں کو انہوں نے شکایت والے حلقے کھولنے کی پیش کش کی ہے۔ عمران خان نے کردار کشی اور سیاسی الزامات سے ماورا ہو کر تمام سیاسی قوتوں کو مل کر قومی ترقی کے لئے کردار ادا کرنے کی دعوت دی۔ انہوں نے کہا کہ ان کی جماعت سیاسی انتقام پر یقین نہیں رکھتی۔ ایک ایسا سیاسی رہنما جس نے بائیس برس تک ایک مقصد کو پیش نظر رکھ کر جدوجہد کی ہو، جسے سیاسی مخالفت کی وجہ سے ہر قسم کے رکیک اور افسوسناک حملوں کا نشانہ بنایا جاتا رہا ہو۔ اس کا اپنی جیت کے موقع پر تلخی سے پاک اور متوازن گفتگو کرنا پاکستان کی روایات میں ایک خوش کن اضافہ ہے۔ عمران خان نے قومی مسائل کی نبض پر ہاتھ رکھا ہے۔ سیاسی جدوجہد کا آغاز 1996ء میں نامساعد حالات میں کیا۔ انہوں نے جب سیاسی جماعت بنانے کا اعلان کیا تو اس وقت ملک میں پیپلزپارٹی اور مسلم لیگ(ن) بڑی جماعتوں کے طور پر موجود تھیں۔ بے نظیر بھٹو، نواز شریف، قاضی حسین احمد، مولانا فضل الرحمن، نوابزادہ نصراللہ خان، مولانا شاہ احمد نورانی اور اکبر بگٹی جیسے رہنما قومی منظر نامے پر نمایاں تھے۔ عمران خان کرکٹ کے میدانوں میں کامیاب رہے۔ شوکت خانم کینسر ہسپتال جیسے منصوبے کو پایہ تکمیل تک پہنچایا، نمل کالج کی بنیاد رکھی اور ساتھ سیاست کو ایک مقدس فریضہ سمجھ کر انجام دیا۔ عمران خان نے تحریک انصاف کی بنیاد ’’اقتدار میں عوام، بلا امتیاز احتساب‘‘ کے نعرے پر رکھی۔ انہوں نے اس تاثر کو بہت جلد زائل کر دیا کہ تحریک انصاف چند فیشن ایبل اور پڑھے لکھے لوگوں کا سوشل کلب ہے۔ عمران خان نے پہلے دن سے اس بات کو اہمیت دی کہ پاکستانی معاشرے سے بدعنوانی ختم کئے بغیر قوم کو خوشحالی کی منزل تک نہیں پہنچایا جا سکتا۔ 2002ء کے انتخابات میں ان کی جماعت کو صرف ایک نشست ملی۔ عمران خان قومی اسمبلی کے رکن منتخب ہوئے۔ 2008ء کے انتخابات کا تحریک انصاف نے اس وجہ سے بائیکاٹ کر دیا کہ اس وقت کے صدر جنرل پرویز مشرف نے پیپلزپارٹی اور ن لیگ کی قیادت سمیت ان لوگوں کو این آر او دیدیا جن پر بدعنوانی کے مقدمات درج تھے۔ انہوں نے پرویز مشرف کی طرف سے وزیر اعظم بننے کی پیش کش کو ٹھکرا کر اپنی راہیں جمہوری نظام کے ساتھ جوڑے رکھیں۔ اکتوبر 2011ء میں تحریک انصاف نے مینار پاکستان کے وسیع سبزہ زار میں جلسہ کیا۔ اس جلسے میں نوجوان خواتین و حضرات کی کثیر تعداد نے شرکت کی۔ شرکاء کی تعداد کے لحاظ سے یہ پاکستان کے بڑے جلسوں میں سے ایک سمجھا جاتا ہے۔ اس جلسے نے توانائی کا کام کیا اور پھر دیکھتے ہی دیکھتے علاقائی انتخابئے(الیکٹ ایبلز) پی ٹی آئی کا حصہ بننے لگے۔ تحریک انصاف کے پرانے نظریاتی کارکنوں کے لئے یہ ایک مشکل مرحلہ تھا۔ کچھ عرصے بعد عمران خان نے اپنے کچھ رفقاء کی رائے مسترد کر کے پارٹی انتخابات کا فیصلہ کیا۔ پاکستان میں بڑی سیاسی جماعتیں انتخابات کی بجائے نامزدگی کی ثقافت پسند کرتی ہیں۔ عمران خان کو بتایا گیا کہ پارٹی کے اندر اختلافات اور گروہ بندیاں پیدا ہو سکتی ہیں۔ بعد میں ایسا ہوا بھی، مگر انہوں نے جمہوری اقدار کو ہر خطرے سے مقدم قرار دیا۔ 2013ء کے انتخابات میں دھاندلی کی شکایات موصول ہوئیں تو تحریک انصاف نے تحقیقات کا مطالبہ کر دیا۔ جب نواز شریف حکومت نے مطالبات تسلیم کرنے سے انکار کیا تو انہوں نے پارلیمنٹ کے سامنے 126 دن تک دھرنا دیا۔ اس دھرنے کے اختتام پر جب عمران خان اور ان کے ساتھی ارکان اسمبلی ایوان میں واپس گئے تو حکومت کے وزراء نے تہذیب اور شائستگی کو خوب رسوا کیا۔ سپیکر ایاز صادق اور اس وقت کے وزیر اعظم نواز شریف اپنے پارٹی ارکان کی حوصلہ افزائی کرتے رہے کہ وہ عمران خان کو برا بھلا کہیں۔ عمران خان نے اس وقت برداشت سے کام لیا۔ انہوں نے جمہوری نظام کو مفلوج نہیں ہونے دیا۔ 2016ء میں پانامہ لیکس سکینڈل منظرعام پر آیا۔ پاکستان کی تمام جماعتوں نے اس پر زبانی کلامی بیانات جاری کئے لیکن تحریک انصاف نے ایک طویل اور کڑی عدالتی جنگ لڑنے کا فیصلہ کیا۔ آخر کار جولائی 2017ء میں نواز شریف نا اہل قرار پائے۔ عدالتی احکامات پر ان کے خلاف نیب نے تحقیقات کیں اور ریفرنس دائر کئے۔ احتساب عدالت نے نواز شریف اور ان کی صاحبزادی کو 10سال اور 7سال کی قید با مشقت سنائی۔ عمران خان نے 1996ء میں بدعنوانی کے خلاف جو جنگ شروع کی تھی یہ اس کا حوصلہ افزا نتیجہ تھا۔ عمران خان جانتے تھے کہ انہوں نے جو راستہ اختیار کیا ہے وہ طویل بھی ہے اور کٹھن بھی لیکن 2018ء کے انتخابات میں ان کے پیغام کو پورے پاکستان میں پذیرائی ملی۔ ان کے کئی سیاسی حریف ان کی جدوجہد اور انتھک کوششوں کے معترف نظر آئے۔ کے پی کے میں ان کی کارکردگی پر عوام نے اعتماد کا اظہار کیا ۔ صوبے میں مسلسل دوسری بار پی ٹی آئی کی حکومت کا بننا ایک خوشگوار تبدیلی ہے۔ عمران خان کے سامنے اب ایسی ٹیم منتخب کرنے کا مرحلہ درپیش ہے جو ان چیلنجز سے نبردآزما ہونے کی صلاحیت رکھتی ہو جن کا ذکر انہوں نے اپنی تقریر میں کیا ہے۔ پاکستان میں حکمران طبقات نے ریاستی وسائل کو بیدردی سے لوٹا ہے۔ حکمران خاندانوں نے میرٹ اور قانون کا مذاق بنائے رکھا۔ ملک کے مختلف حصوں میں ایسے واقعات سامنے آتے رہے جن میں طاقتوروں نے انصاف کا قتل کیا۔ تھانے میں بے سہارا اور مزدور افراد کی تذلیل کی جاتی۔ پولیس افسران حکمران اشرافیہ کے کہنے پر سیاسی مخالفوں کو پولیس مقابلوں میں قتل کرتے رہے۔ عمران خان مرکز، کے پی کے اور پنجاب میں حکومت سازی کے لئے تیار ہیں۔ وہ فطری جنگجو اور کپتان ہیں۔ ان سے توقع کی جاتی ہے کہ پاکستانی معاشرے کو لاحق ان امراض سے نجات دلائیں گے جو صرف بد انتظامی اور میرٹ کی خلاف ورزی کے باعث پیدا ہو رہے ہیں۔ عمران خان دوسرے حکمرانو ںسے مختلف ثابت ہو سکتے ہیں۔ اس کا پہلا ثبوت انہوں نے اپنے سیاسی مخالفین کے اعتراض پر انتخابی حلقے کھولنے اور ووٹوں کی پڑتال کی پیش کش کر کے دیدیا ہے۔ وہ سیاستدان جنہیں عوام نے مسترد کر دیا ہے ان کی طرف سے دھاندلی یا گڑ بڑ کے اعتراضات دراصل اپنی عوام بیزار پالیسیوں سے چمٹے رہنے کی خو ہے۔ ان کے لئے مشورہ ہے کہ وہ قوم کو آگے بڑھنے دیں اور عوام کا اعتماد جیتنے کے لئے نئے سرے سے کوشش کریں۔