مسلم لیگ کے رہنما شاہد خاقان عباسی کا کہنا ہے کہ نواز شریف نے کوئی کرپشن نہیں کی اس لئے وہ حکومت کو ایک روپیہ بھی واپس نہیں دیں گے چاہے انہیں ساری عمر جیل میں رہنا پڑے۔ یہ بیان انہوں نے شاید وزیر اعظم کے خطاب کے جواب میں دیا۔ وزیر اعظم نے کہا تھا کہ لوٹی ہوئی دولت واپس کریں اور جس ملک میں چاہیں‘ علاج کے لئے چلے جائیں۔ یعنی پلی بارگیننگ۔ یہ تو ایک قسم کا ڈیڈ لاک ہو گیا۔ حکومت پیسہ واپس لینا چاہتی ہے۔ وہ کہتے ہیں ہم نے کرپشن کی ہی نہیں۔ کاہے کا پیسہ ۔ پہلے کرپشن ثابت کرو‘ پھر پیسہ لے لو۔ پلی بارگیننگ کا اصول یہی ہے۔ ملزم کو ثبوت دکھائے جاتے ہیں کہ تمہارا جرم پکڑا گیا ہے‘ پیسے دے دو ورنہ مقدمہ چلے گا‘ پھر مقدمے میں جرم ثابت ہو جائے تو رقم واپس کرنا ہی پڑتی ہے۔ میاں نواز شریف کا دعویٰ ہے کہ ایک روپے کی کرپشن نہیں اور دعوے کو ثابت کرنے کے لئے حکومت کے پاس کچھ نہیں۔ پانامہ کیس کی بھاری بھرکم اور وسیع البنیاد حمایت اور طاقت کے باوجود کوئی ثبوت نہیں مل سکا۔ دس صندوق تھے۔ ان میں بہت کچھ تھا‘ ثبوت نہیں۔ چنانچہ اس مفروضے کی بنیاد پر سات اور دس سال قید کی سزا ہوئی کہ بظاہر اثاثے آمدنی سے زیادہ ہے اور ملزم اپنے دیانتدار ہونے کی رسیدیں نہیں دے سکے۔ ابھی چند دن پہلے قانون کی ایک تشریح سامنے آئی ہے کہ اثاثے ناجائز ہیں تو ثبوت نیب کو دینا ہے۔ دنیا بھر میں یہی اصول ہے کہ ثبوت استغاثے کو دینا ہوتا ہے۔ پاکستان میں بھی ایسا ہی تھا (آئندہ بھی ایسا ہو گا)۔ معیشت کی بحالی کا ایک بڑا دارومدار اس بات پر ہے کہ ثبوت ایک طرف‘ نواز شریف سے جتنی دولت کا تقاضا کیا جا رہا ہے‘ وہ پورا کیا جائے۔ گزشتہ روز وزیر اعظم نے کہا کہ یہ لوگ لوٹی ہوئی دولت کا آدھا حصہ بھی واپس کر دیں تو ڈالر نیچے ‘ روپیہ اوپر جائے گا۔ گویا یہ کہا جا رہا ہے کہ نواز شریف نومن تیل دیں‘ تبھی رادھا ناچے گی اور اگر وہ تیل نہیں دیتے تو ڈالر اور معیشت کا یہی حال رہے گا‘ پھر گنہ گار حکومت نہیں ہو گی‘ معیشت کی بربادی کے تسلسل کی وجہ نواز شریف کا انکار ہو گا۔ شاہد خاقان کا کہنا ہے کہ نواز شریف عمر بھر کے لئے جیل میں رہنے کو تیار ہیں لیکن حکومت ایسے کسی موڈ میں نہیں ہے۔ لمبی سہولیات سے انکار‘ایسے مریض کو جو کئی پیچیدہ اور امکانی طور پر مہلک بیماریوں کا شکار ہو‘ اور کیا معنی رکھتا ہے۔ پچھلے دنوں ایک حکومتی ذمہ دار کا بند کمرے میں کہا گیا یہ فقرہ شاہد خاقان تک پہنچ چکا ہو گا کہ جیل میں کسی کو کچھ ہوتا ہے تو ہمیں کوئی پروا نہیں۔ ٭٭٭٭٭ ملکی تاریخ کے سب سے زیادہ قرضے لینے کے باوجود ماہرین کسی بہتری کی اطلاع نہیں دے رہے۔ آئی ایم ایف کے قرضے کی منظوری کے بعد قرضے کا حجم ’’ناقابل تسخیر‘‘ کی حد بھی عبور کر گیا ہے۔ بہرحال ‘ وزیر اعظم نے ایک اچھی اطلاع دی ہے۔ فرمایا ہے کہ بجلی کی مد میں ریکوری 75فیصد بڑھی ہے جو بجلی چوری کے خلاف ہماری مہم کی کامیابی کا نتیجہ ہے۔ خوشی کی بات ہے لیکن یاد آیا‘ حکومت بجلی کی قیمت میں 105فیصد اضافہ کر چکی ہے ریکوری میں اضافہ تو صرف اسی مد میں 105فیصد ہونا چاہیے۔ بجلی چوروں کے خلاف مہم گویا زیرو نتیجہ دے رہی ہے اور ساتھ ہی 33فیصد کی کمی آ گئی۔ کیا فرماتے ہیں اس کارکردگی پر ؟ ٭٭٭٭٭ جہانگیر ترین نے کہا ہے کہ چینی مہنگی ہونے سے انہیں کوئی فائدہ نہیں ہوا کیونکہ ٹیکس کی رقم حکومت کو جائے گی۔ بجا فرمایا‘ ٹیکس ساڑھے تین روپے فی کلو لگا ہے لیکن حکومت نے پچھلے گیارہ مہینوں میں چینی 25روپے فی کلو مہنگی کی ہے۔ یہ محض مارکیٹ رپورٹ ہی نہیں‘ حماد اظہر کا بیان بھی ہے کہ چینی ٹیکس لگنے سے پہلے ہی 25روپے کلو مہنگی ہو چکی تھی(گویا اب ساڑھے اٹھائیس روپے مہنگی ملے گی) یہ بتا دیا کہ ساڑھے تین روپے کا ٹیکس حکومت کو جائے گا‘ یہ نہیں بتایا کہ 25روپے کا ’’ٹیکس‘‘کس نے وصول کیا اور کرتا رہے گا اور کرتا ہی چلا جائے گا۔ ایک اشارہ تو ’’معزول‘‘ وزیر خزانہ اسد عمر بھی ترین صاحب کی طرف قومی اسمبلی میں کر چکے۔ لیکن اشارہ سے کیا ہوتا ہے۔ وصولی کرنیوالے ہاتھ دکھا چکے۔ ٭٭٭٭٭ ورلڈ کپ کے سیمی فائنل میں جس نے پہنچنا تھا‘ پہنچ گیا۔ لیکن آسٹریلیا پر انگلینڈ کی نامطلوب فتح پر ہی پاکستان کے امکانات نقطہ صفر پر آ گئے تھے۔ میچ کے فوراً بعد ایک ٹی وی پروگرام میں کرکٹر محمد یوسف نے دلچسپ امید ظاہر کی۔ فرمایا‘ بہت مشکل ہو گئی لیکن خدا چاہے تو ہم بنگلہ دیش کو 416 رنز سے ہرا بھی سکتے ہیں اور کیا پتہ کچھ اور بھی ہو جائے۔ یہ بات انہوں نے طنزاً کی نہ مزاجاً‘ بلکہ سنجیداً کی۔ اس کا کیا مطلب ہوا؟ یہ کہ ہم خدا کی طرف سے کھیلتے ہیں؟ اور دوسرے اس کے برخلاف؟ کھیلوں کو حق اور باطل کی جنگ سمجھ لینا ہماری قومی سوچ ہے اور یوسف بھی اس سوچ کا حصہ ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ ہم میچ میں بھی نعرہ تکبیر لگاتے ہیں۔ بھلے سے مقابلے میں بنگلہ دیش یا افغانستان ہو۔ یہ دونوں ملک بھی اتنے ہی مسلمان ہیں جتنے کہ ہم ۔ البتہ یہ ملک خدا کی طرف سے کھیلنے کا دعویٰ نہیں کرتے۔