اپوزیشن کے بزرگان بقلم خود کی آنیوں جانیوں سے نہیں ، عمران خان کو کوئی خطرہ ہے تو اپنی صف میں کھڑے جنگجوئوں سے ہے۔ بزرگان بقلم خود کا معاملہ یہ ہے کہ وہ بدحواس ہو چکے ہیں۔ تہتر کے آئین کے تناظر میں مینڈیٹ کے احترام کے دیوان پڑھنے والے عمران خان کی حکومت کے چار ماہ برداشت نہیں کر پائے اور صف بندی کو بے تاب ہو رہے ہیں۔ حکومت اچھے کام بھی کرتی ہے اور اس سے غلطیاں بھی سرزد ہوتی ہیں لیکن حکومت کے خلاف دوسرے ہی مہینے میں بلا وجہ تحریکیں نہیں چلائی جاتیں۔ سوال یہ ہے کہ حکومت سے آخر ایسی کون سی عظیم غلطی سرزد ہوئی ہے کہ بزرگان بقلم خود کو میدان میں اترنا پڑا ہے۔ بزرگان بقلم خو دعمران کی مخالفت میں اکٹھے تو ہو گئے ۔کیا وہ رہنمائی فرمائیں گے ،کون سا بلند مقصد ہے جس نے ان نابغوں کو اکٹھا کر دیا؟کیا یہ جمہوریت کے تقدس میںاکٹھے ہوئے ہیں؟ بزرگان کی ملاقات کی جو تصویر جاری ہوئی ہے اس پر ایک نگاہ ڈال لیجیے ، سوال کا جواب مل جائے گا۔خود پارٹی پر مسلط ہو جانے اور وصیت کے ذریعے سیاسی جماعت کی قیادت ہتھیانے والوں کی جانے بلا جمہوریت کیا ہوتی ہے۔ قبلہ آصف زرداری کے ساتھ عالی جاہ بلاول زرداری تو تشریف فرما تھے ہی ، اسلام کے علماء کی جمعیت کے سربراہ بھی اپنے چھوٹے حضرت صاحب سمیت محفل میں براجمان تھے۔ کیاعلماء کی جمعیت میں بڑے حضرت صاحب کے بعد کوئی رجل رشید نہ تھا جو اس محفل میں ان کے ساتھ آتا یا مولانا ابھی تک جے یو آئی نظریاتی والے صدمے کی کیفیت سے باہر نہیں نکل پائے اور وہ سمجھتے ہیں کہ کہ جے یو آئی کے نام پر جتنے لوگ اسمبلی میں تشریف فرما ہیں ان میں ’’ غیر نظریاتی‘‘ صرف ان کا اپنا صاحبزادہ ہے۔کالم میں یہ ساری کہانی لکھنا ظاہر ہے ممکن نہیں۔ اس قصے سے جو آگاہ ہیں وہ جانتے ہیں معاملہ کیا ہے اور نفسیاتی گرہ اتنی شدید کیوں ہوتی جا رہی ہے۔انتخابات میں عمران خان کی کامیابی پر سوال اٹھانا مولانا کا حق ہے لیکن اتنا تو بتا دیں یہ انتخابات جے یو آئی کے امیر کے انتخابات سے بھی زیادہ غیر شفاف تھے؟ تو کیا یہ اعلی اصولوں کی خاطر اکٹھے ہوئے ہیں اور یہ سمجھتے ہیں کہ سیاست میں سے اسٹیبلشمنٹ کا کردار ختم کر دیا جائے؟ چلیںشیر بنیں اور کچھ کفارہ تو ادا کر دیں۔ اللہ کا دیا بہت کچھ ہے اور بڑی آف شور کمپنیاں بن چکی ہیں۔ یہ بھلے نہ بتائیے کہ پچھلے انتخابات کے بعد چار حلقے کھولنے سے آپ کیوں خوفزدہ تھے اور چیئر مین نادرا کے آپ دشمن کیوں ہو گئے تھے لیکن وہ پیسے تو قومی خزانے میں جمع کروا دیجیے جو آئی جے آئی کے سہانے زمانوں میں آپ پر لٹائے گئے۔اسامہ بن لادن والے پیسے بے شک واپس نہ کریں لیکن مہران بنک والے تو کرد یں۔ ناقابل تردید حقیقت ہے کہ رات کی تاریکی میں سب سے زیادہ جی ایچ کیو کی سڑکوں کو بوسے ن لیگ کی قیادت نے دیے ہیں۔تازہ ارشاد یہ ہے کہ عمران خان نہیں یہ آرمی چیف ہیں جن کی وجہ سے پیسے باہر سے آ رہے ہیں۔ جمہوری قدریں ، اعلی اصول ، اور اینٹی اسٹیبلشمنٹ ہونے کا تاثر محض زیب حکایت ہے۔ فسانہ کچھ اور ہے اور فسانہ یہ ہے کہ قومی وسائل اب ان کا مال غنیمت نہیں رہے۔ریاست اب ان کی چراگاہ نہیں رہی۔جن کا دعوی تھا زرداری کو گلیوں میں نہ گھسیٹا تو نام بدل دینا، وہ اب زرداری سے بغل گیر ہیں۔عام آدمی یہ سب دیکھتا ہے اور سوچتا ہے: ’’ کوئی شرم ہوتی ہے ، کوئی حیا ہوتی ہے‘‘۔پیشہ ور اپوزیشن عمران خان کے لیے کوئی خطرہ نہیں۔ یہ سب وہ صفریں ہیں جو ساری رات ایک دوسرے سے ضرب کھاتی رہیں اور جمع ہوتی رہیں نتیجہ صفر ہی نکلتا ہے۔عمران کی حکومت کو خطرہ اندر سے ہے۔کسی حکومت کے بارے میں چار ماہ میں فیصلہ نہیں دیا جا سکتالیکن اس کے باوجود مایوسی پھیل رہی ہو تو سوچنا ہو گا کہ اس کی وجہ کیا ہے۔اس کی دو بڑی وجوہات ہیں: ناتجربہ کار ٹیم کے آتشیں، ناتراشیدہ اور تکلیف دہ حد تک غیر ذمہ دار لہجے اور سوشل میڈیا پروموشن ٹیم کی بچگانہ وارفتگی۔عمران خان اگر دو مسائل پر قابو پانے کی کوئی تدبیر نہیں کرتے تو پھر انہیں کسی اپوزیشن کی حاجت نہیں۔ عمران خان کے حلف اٹھاتے ہی ، روایت یہ ہے کہ، ایک سوشل میڈیا ٹیم تیار کی گئی تا کہ بطور حکمران عمران خان کی امیج بلڈنگ کی جا سکے۔چند صحافیوں سے بھی اس میں شامل ہونے کا کہا گیا۔ جنہیں عزت عزیز تھی انہوں نے معذرت کر لی۔ حکومت کو کچھ معاملہ فہم لوگوں نے مشورہ دیا کہ موجودہ حالات میں حکمرانی بہت پیچیدہ معاملہ ہے۔ایسی ٹیم مزید قباحتیں پیدا کرے گی۔اسے امیج بلڈنگ کے لیے روز نیا مواد چاہیے ہو گا اور حکومت کے لیے روز چھکا مارنا مشکل ہو گا۔یہ مشورہ نہیں مانا گیا اور نتیجہ ہمارے سامنے ہے۔ٹیم ناتجربہ کار ہے۔ معاملات اس کی گرفت میں نہیں آ رہے۔کامیابی کے جھنڈے گاڑنا تو دور کی بات ہے وزرائے کرام ابھی تک کوئی سمت اور کوئی ٹھوس حکمت عملی تک وضع نہیں کر پائے۔لیکن اپنے لب و لہجے پر انہیں قابو نہیں۔کارکردگی ہے نہیں،اب خود فصیل شہر پر خود ساختہ کامیابیوں کا جشن ہوتا ہے۔چنانچہ کبھی بتایا جاتا ہے کپتان کی قمیض میں سوراخ ہیں تو کبھی یہ کہہ کر داد طلب کی جاتی ہے کہ زلزلہ آیا تو سب بھاگ گئے کپتان نہیں بھاگا۔کبھی ایوان صدر اور گورنر ہائوس کھول کر کارروائی ڈالی جاتی ہے اور کبھی کسی وزیر بجلی کے بلوں سے تنگ آ کر گھر کے گیزر بند کروا دینے کی خبر پر بغلیں بجائی جاتی ہیں۔کبھی بتایا جاتا ہے عمران کے فلیٹ والی بلڈنگ زیر بحث آ ئی تو عمران نے کابینہ کے اجلاس کی صدارت کرنے سے انکار کر دیا تو کبھی خبر آتی ہے تو کبھی گورنر سندھ چالان پر نادم ہونے کی بجائے تصویر شیئر کرتے ہیں کہ اہل وطن میں نے چالان کروا لیا اب تم تالی بجائو۔میرا کل بھی یہی خیال تھا اور آج بھی کہ یہ مصنوعی امیج بلڈنگ بہت جلد تفنن طبع کا عنوان بن جائے گی۔ یاد رکھیے حکومتیں جب تفنن طبع کا عنوان بن جائیں تو انہیں کسی اپوزیشن کی ضرورت نہیںرہتی۔