ایسا نہیں کہ پاکستان دہشت گردی سے بالکل ہی محفوظ ہو گیا ہو۔ بارڈر پر فینسنگ اور درجنوں قانون نافذ کرنے والے اداروں کے ہوتے ہوئے بھی بلوچستان میں آئے دن ایف سی کے سپاہی اور افسران شہید ہو رہے ہیں۔ کبھی لگتا ہے کہ شہادت بھی پاکستان کو ورثے میں ملی ہے۔ اسلام آباد کے حالیہ دورے میں یہ بھی معلوم ہوا کہ فوجی فاونڈیشن کی ترقی اور امسال بجٹ میں ادارے کو ہر قسم کے ٹیکس سے مستثنیٰ کرنے کی وجہ بھی یہ تھی کہ فاونڈیشن کی کمائی کا ایک کثیر حصہ شہدا کے لواحقین کی فلاح و بہبود پر خرچ ہوتا ہے۔ قطع نظر اس کے کہ فاونڈیشن مختلف انڈسٹریز کی سرپرست ہے جس میں بینک بھی شامل ہیں اور اب تو حلال گوشت کی انڈسٹری کا بھی اضافہ ہو گیا ہے۔ شہادت کچھ حلقوںکے لیے مسلسل سپورٹ سسٹم کے طور پر کام کر رہی ہے۔ جیسے کہ پیپلز پارٹی۔ چونکہ شہید زندہ ہے اس لیے بھٹو بھی زندہ۔ یہ الگ بات ہے کہ سندھ میں نہ ترقی ، نہ احساس زیاں، نہ شہریوں کے بودوباش کی فکر، بس ایک انداز قلندری ہے جس میں زرداری اور ان کے حواریوں کو ہر نسبت سے مالیاتی آسودگی میسر ہے۔ کہتے ہیں کہ پاکستان میں اقتدار بانٹا جاتا ہے اور پیپلز پارٹی کو سندھ پر براجمان رہنے کی گارنٹی بھی حاصل ہے۔ شائد کیانی دور میں اس باضابطہ معاہدے کی شروعات ہوئی تھی۔ بہر حال خوش آئند بات یہ ہے کہ پاکستان میں اب اس تواتر سے دہشت گردی کے واقعات نہیں ہوتے جوپشاور کے آرمی پبلک سکول پر حملے سے پہلے ہوا کرتے تھے۔ ضرب عضب اور کراچی آپریشن نے اس معاملے میں ملک کو بہت حد تک محفوظ بنا دیا ہے۔ لاہور میں حالیہ دہشت گردی کے واقعے کی تفتیش مکمل بھی ہو گئی اور اس میں ملوث سہولت کار بھی پکڑے گئے۔ اس میں کیا شک ہے کہ بھارت پاکستان کا بدترین مخالف ہے۔ لیکن اس بات کا ادراک بھی ضروری ہے کہ بھارت ہی ہمارا دشمن نہیں ہم نے بھی ملک دشمنی میں کوئی کسر نہیں چھوڑی۔ پاکستان کی سب سے بڑی بد قسمتی یہ ہے کہ اس کے شہریوں کو اپنے پاکستانی ہونے پر فخر نہیں۔ پاکستان کے پاس شائد فخر کرنے کے لیے مواد بھی کم ہے۔ ہمارے پاس ہیروز کم ہیں ، اگر کوئی آگے بڑھنے کی کوشش بھی کرے تو ہم اسے مار ڈالتے ہیں۔ چونکہ ہم خود ہیروز بنانے میں نالائق ہیں اس لیے مغرب نے اس کام کا بیڑا بھی اٹھا رکھا ہے۔ ملالہ اس کی بہت بڑی مثال ہے۔ ہم تو نقل پسند نسل بنا رہے ہیں۔ سندھ میں میٹرک کے امتحانات میں جو کچھ ہو رہاہے وہ کوئی پہلی بار تو نہیں۔ فرق صرف اتنا ہے کہ اس بار سندھ اسمبلی میں پی ٹی آئی کی بھی اچھی خاصی شمولیت ہے۔ پی ٹی آئی بھی مزے کی پارٹی ہے۔ تمام اپوزیشن پارٹیوں کی پشت پناہی بھی حاصل ہے اور بظاہر ان سب کے خلاف بھی ہے۔ بجٹ بھی ہر سال آسانی سے پاس ہو جاتا ہے اور کوئی رکن پارلیمان شرمندگی کے ناطے ہی سہی اسمبلی سے استعفی نہیں دیتا کہ احتجاج ہی ریکارڈ کروا دے کہ پارلیمان کا مقصد آرڈیننس جاری کرنا نہیں۔ جب اقتدار بانٹنے سے ملتا ہو تو کون اس تردد میں سر کھپائی کرے۔ ویسے بھی کسی نے درست کہا تھا کہ مسلم لیگ نون اس لیے شور نہیں مچا رہی کہ ان کے ساتھ الیکشن میں دھاندلی ہوئی ہے بلکہ انہیں اس بات کی تشویش ہے کہ دھاندلی ان کے حق میں کیوں نہیں ہوئی۔ پاکستان کو دہشت گردی سے زیادہ انتہا پسندی جیسے چیلنج کا سامنا ہے۔ مخالفت میں حد سے گزر جانا اور اپنی مرضی کے دین کی ترویج کا ایک بھونڈا نظام وضع ہے جس کی طرف ریاست کو غور کرنے کی ضرورت ہے۔ اس ضمن میں کام ہو بھی رہا ہے۔ مسلم لیگ ن کے دورمیں پیغام پاکستان کے نام سے اسلامی انٹرنیشنل یونیورسٹی کے ادارہ برائے تحقیق نے پیغام پاکستان کے نام سے ایک مسودہ تیار کیا۔ اس مسودے کی تکمیل میں وفاق المدارس عربیہ، وفاق المدارس الشیعہ، وفاق المدارس سلفی، وفاق المدارس پاکستان اور تنظیم المدارس اہل سنت کی معاونت شامل تھی۔ 1829 سکالرز نے مسودے کی توثیق کرتے ہوئے ہر قسم کی دہشت گردی اور انتہا پسندی کو غیر اسلامی قرار دیا اور یہ بھی واضح کر دیا کہ جہاد کو شروع کرنے کا اختیار صرف ریاست کے پاس ہے۔ ایک عرصہ اس ضمن میں کوئی خاص پیش رفت نہیں ہوئی تھی۔ موجودہ حکومت نے پیغام پاکستان کو دوبارہ زندہ کرنے کی کوشش شروع کی ہے جس کے لیے نمائندہ خصوصی وزیر اعظم پاکستان برائے بین المذاہب ہم آہنگی و مشرق وسطیٰ حافظ محمد طاہر محمو داشرفی سرگرم ہیں۔ بین المذاہب و بین المسالک ہم آہنگی کے حوالے سے مولانا کا کہنا ہے کہ پچھلے آٹھ ماہ کے دوران پاکستان میں مذہب کی بنیاد پر کوئی قتل نہیں ہوا۔ پیغام پاکستان چودہ نکات کا مجموعہ ہے جسے آئین پاکستان کے بعد دوسرا اہم مسودہ بنانے کی بات کی جارہی ہے تاکہ اس کے تحت دیے گئے ضابطہ اخلاق پر عمل کر کے پاکستان کو ایک پر سکون معاشرہ بنایا جاسکے جہاں نہ تو ریاست اور نہ ہی اس کے شہری تشدد کی زبان بولتے ہوں۔ وزیر اعظم کی طرف سے انتہا پسندی کے خاتمے کے لیے کی جانے والی یہ کوشش قابل ستائش ہے۔ اسلامو فوبیا کے حوالے سے بھی وزیر اعظم عالمی سطح پر ایک خاص موقف رکھتے ہیں۔ ان سب باتوں کے باوجود تشویش اسامر کی ہے کہ ہم نے آئین پاکستان پر ابھی شاید ایک فیصد ہی عمل کیا ہو، ایسے میں مسودوں کی اہمیت کاغذی کارروائی بن کر رہ جاتی ہے۔ ضروی ہے کہ ہم رواداری کو مذہب کی بندش سے آزاد کر کے ایک عمومی مسئلہ کے طور پر ڈیل کریں کیونکہ انسان بذات خود قابل تعظیم ہے۔ خوش قسمتی سے پاکستان علماء کونسل کے تحت پیغام پاکستان کی ترویج بھی اسی نہج پر استوار کی گئی ہے۔ یقین محکم کے لیے اگر ان تمام بے قصور افراد کو جیلوں سے بری کر دیا جائے جن پر توہیں رسالت کے جھوٹے مقدمات چل رہے ہیں ۔قطع نظر اس کے کہ ان کا تعلق کس مذہب سے ہے، تو پیغام پاکستان کی سمت متعین ہو جائے گی۔