اَمریکی ایوان نمائندگان کی سپیکر نینسی پیلوسی نے جو امریکی صدر کے بعد قیادت میں دوسرے نمبر پر ہیں، چین کی دھمکیوں کے باوجود کہ یہ دورہ امریکہ کے لیے قیمت لے کر آئے گا، 3 اگست کو تائیوان کا دورہ کیا ہے۔ چین نے نینسی پیلوسی اور ان کے قریبی خاندان پر غیر متعینہ پابندیوں کا اعلان کیا ہے جبکہ ان پابندیوں کے بارے میں کوئی تفصیلات نہیں ہیں۔ تاہم، یہ پابندیاں عام طور پر علامتی نوعیت کی ہوتی ہیں۔ چین نے آبنائے تائیوان میں اب تک کی سب سے بڑی فوجی مشقوں کا آغاز کر دیا ہے جسے "لائیو فائر ڈرلز" کہا گیا ہے۔ جمعرات کو شروع ہونے والی مشقیں اتوار کو ختم ہوگئیں۔ اِن مشقوں میں بیلسٹک میزائل داغنا اور لڑاکا طیاروں کی تعیناتی شامل تھی۔ چینی وزارت دفاع کے مطابق اِس دوران متعدد جنگی جہازوں اور لڑاکا طیاروں نے آبنائے تائیوان کی درمیانی لائن کو بھی عبور کیا۔ میڈیا کی رپورٹ کے مطابق، اتوار کے روز چینی اور تائیوان کے جنگی جہازوں کے مابین گہرے سمندر میں "بلی اور چوہے کا کھیل" جاری رہا، جبکہ بیجنگ نے آبنائے تائیوان میں چار دن کی بے مثال فوجی مشقیں سمیٹ لیں۔ امریکی وزیر خارجہ انٹونی بلنکن نے فوجی مشقوں کو "اہم اضافہ" قرار دیا اور 5 اگست کو کمبوڈیا کے دارالحکومت نوم پنہہ میں جنوب مشرقی ایشیا کے وزرائے خارجہ کے اجلاس کے بعد ایک نیوز کانفرنس میں کہا کہ " سپیکر پیلوسی کے دورے کو بہانہ بناتے ہوئے چین نے آبنائے تائیوان میں اور اس کے آس پاس اشتعال انگیز فوجی سرگرمیاں بڑھانے کے لیے سپیکر پیلوسی کے دورے کو استعمال کرنے اور زیادہ رد عمل دینے کا انتخاب کیا ہے۔ تائیوان کا یہ متنازعہ دورہ 1997 کے بعد سے کسی بھی اعلیٰ سطحی امریکی اہلکار کا پہلا دورہ ہے۔ پلوسی کے تائیوان کے دورے نے چین اور امریکہ کے تعلقات کو ایک نئی نچلی سطح پر پہنچا دیا ہے۔ گزشتہ 40 سالوں میں دونوں فریقوں کے درمیان جو اِعتماد پیدا ہوا ہے، امریکہ اور چین کے درمیان بڑھتی ہوئی کشیدگی کی موجودگی میں اِس اِعتماد کے تقریباً بکھر جانے کا خدشہ ہے۔ چین کا اصرار ہے کہ تائیوان اس کا علاقہ ہے اور اِسے اَپنے کنٹرول میں لانے کے لیے طاقت کے استعمال کا اِظہار بھی کرتا رہا ہے۔ بین الاقوامی تعلقات کے ماہرین کے مطابق، 1949 میں خانہ جنگی اور فریقین کی تقسیم کے بعد اور 73 سالوں سے چین کی حکمران کمیونسٹ پارٹی کے پروپیگنڈے، نظام تعلیم اور مکمل طور پر ریاست کے زیر کنٹرول میڈیا کی بدولت اب تائیوان کو کنٹرول میں لانے کے لیے طاقت کے استعمال کا خطرہ بڑھ گیا ہے۔ تائیوان اصل میں آزادی کی موجودہ کیفیت کو برقرار رکھنے کا حامی ہے اور چین کے ان مطالبات کو مسترد کرتا ہے کہ تائیوان کمیونسٹ کنٹرول کے تحت چین کے ساتھ متحد ہو جائے۔تاہم، حالیہ تصادم کا نتیجہ ممکنہ طور پر آبنائے تائیوان میں بڑے پیمانے پر بحران کا باعث نہیں بنے گا۔ بلکہ، بیجنگ غالباً امریکی بحریہ کی طرف فوجی پوزیشن اور تائیوان کی زرعی اور مینوفیکچرنگ مصنوعات پر اقتصادی پابندیوں کے امتزاج پر مشتمل پالیسی اِختیار کرے گا تاکہ اعلیٰ سطحی مغربی سیاسی شخصیات کے مستقبل میں کسی بھی ممکنہ دوروں کو روکنے کا واضح پیغام دیا جا سکے۔ خیال رہے کہ صدر بائیڈن نے امریکی صدر بننے کے بعد ایشیا کے اَپنے پہلے دورے کے موقع پر 23 مئی کو ٹوکیو میں جاپانی وزیر اعظم کشیدا فومیو کے ساتھ پریس کانفرنس کرتے ہوئے کہا تھا کہ اگر چین نے تائیوان پر فوجی حملہ کیا ، تو وہ ردِعمل میں طاقت کے ذریعے تائیوان کا دفاع کرے گا۔ اِس تبصرے نے عوامی بحث کو جنم دیا کہ آیا امریکہ نے تائیوان کے بارے میں اپنی "اسٹرٹیجک ابہام" کی پالیسی تبدیل کر دی ہے؟ جو کہ دراصل 1979 سے امریکہ کی طرف سے اختیار کی جانے والی روایتی حکمت عملی ہے جو تبدیل نہیں ہوئی اور اَمریکہ بظاہر اَب بھی "ایک چین پالیسی" پر قائم ہے۔ خود صدر بائیڈن نے (جاپانی وزیرِاَعظم کے ساتھ کی گئی پریس کانفرنس کے چوبیس گھنٹے سے بھی کم وقت میں) جاپان، بھارت اور آسٹریلیا کے رہنماؤں کے ساتھ کہا کہ تائیوان کے بارے میں امریکی حکمت عملی تبدیل نہیں ہوئی ہے۔ اَگر بیجنگ نے پیپلز لبریشن آرمی کی طاقت کے ذریعے تائیوان پر حملہ کیا تو بھی اِسے آبنائے تائیوان کے پار بڑے پیمانے پر لینڈنگ کرنی ہوگی اور پھر اِسے مغربی طرز کی آزادانہ زندگی گزارنے کے مقصد کے لیے لڑنے والے ایک پرعزم دشمن کا سامنا کرنا پڑے گا۔ اِس طرح یہ جنگ طویل ہو سکتی ہے، جس کی وجہ سے چین کو طویل عرصے کے لیے سفارتی تنہائی کا سامنا ہوسکتا ہے اور طویل جنگ کی صورت میں چینی معیشت کو شدید نقصان پہنچ سکتا ہے۔ یہاں تک کہ اگر PLA جیت جاتی ہے، تو یہ لاکھوں لوگوں کی آبادی والے ایک بہت بڑے جزیرے پر قبضے کا باعث بنے گی جو ممکنہ طور پر بیجنگ کے طرزِ حکمرانی سے ناراض ہو جائیں گے اور یہ چین کے لیے بدقسمتی ہوگی۔ اس کے علاوہ، چین اور امریکہ کے درمیان تائیوان، یا جنوبی بحیرہ چین کے مزید جنوب میں فوجی تصادم کے علاقائی اور عالمی تجارت پر بڑے اثرات مرتب ہوں گے۔ ایک اندازے کے مطابق ہر ماہ 300 بلین ڈالر مالیت کی تجارت اِس سمندری گزرگاہ سے ہوتی ہے۔ جاپان اور جنوبی کوریا کا بہت زیادہ انحصار سمندر کے ذریعے تیل اور گیس کی ترسیل پر ہے۔ ویتنام، ملائیشیا، اِنڈونیشیا اور فلپائن کی برآمدات بھی شپنگ میں رکاوٹوں، بیمہ کی قیمتوں میں اضافے اور خام مال کی آمدورفت میں رکاوٹوں سے بہت زیادہ متاثر ہوں گی جس کا عالمی معیشت پر واضح اثر پڑے گا جو پہلے ہی یوکرائن کی جنگ اور COVID-19 کے طویل اثرات کی وجہ سے بڑے خلل کا شکار ہے۔ اِس ضمن میں توقع کی جاتی ہے کہ چین اور امریکہ عقلی طرزِعمل اپنائیں گے اور کسی بھی غلط تخمینے سے گریز کریں گے جس سے اَیسی جنگ چھڑ جائے جو سب کے لیے نقصان دہ ہو سکتی ہے۔