پیپلز پارٹی سندھ میں تیسری مرتبہ اقتدار کی مسند پر براجمان تو ہے مگر سندھ کی حکمران پارٹی کے حلقوں میں خوشی کی وہ لہر اٹھتی نظر نہیں آ رہی جو گذشتہ دو بار دکھائی دی تھی۔ اس بار پیپلز پارٹی کی پریشانی کی ایک وجہ تو آصف زرداری اور فریال تالپور کے خلاف منی لانڈرنگ کا وہ مقدمہ ہے جس میں انور مجید اپنے بیٹے کے ساتھ گرفتار ہو چکے ہیں۔ اس سچائی کا پتہ صرف سندھ کو نہیں بلکہ پورے پاکستان کو ہے کہ انور مجید آصف زرداری کے لیے ڈاکٹر عاصم سے کہیں زیادہ اہم ہیں۔ جب نواز شریف کی حکومت میں ڈاکٹر عاصم گرفتار ہوئے تھے تب پیپلز پارٹی کے رہنماؤں نے صرف ٹی وی چینلوں پر چلانے کے ساتھ ساتھ راستوں پر بھی نعرے لگائے تھے۔ مگر اب پیپلز پارٹی کی قیادت اس انور مجید کی گرفتاری پر چپ ہے؛ جو انور مجید اب بھی جیل میں قانون نافذ کرنے والوں کو ڈانٹتے ہیں۔ یہ وہ انور مجید تھے جس نے سندھ کے سابق آئی جی اے ڈی خواجہ کو اس وقت خطرناک نتائج کی دھمکیاں دی تھیں جب سندھ پولیس نے کلفٹن کے ایک گھر پر چھاپہ مار کر غیر قانونی اسلحہ اپنی تحویل میں لیا تھا۔ پیپلز پارٹی اور سندھ پولیس کے قریبی ذرائع کا کہنا ہے کہ آصف زرداری اور اے ڈی خواجہ کے اختلافات کی ابتدا وہ واقعہ تھا۔ یہ ان دنوں کی بات ہے جب سندھ کے وزیر داخلہ سہیل انور سیال تھے۔ سہیل انور سیال اے ڈی خواجہ کو قابو میں لانے کی کوشش میں ناکام ہونے کے بعد پریس کانفرس کے دوران یہ کہتے ہوئے سنے گئے کہ ’’اوپر اﷲ اور نیچے اﷲ ڈتہ ہے‘‘ یہ وہ دور تھا جب کراچی کے امن و امان کے لیے ہونے والی میٹنگز میں سندھ کے انسپکٹر جنرل آف پولیس کو شریک نہیں کیا جاتا تھا۔ اس دور میں اے ڈے خواجہ کا ساتھ اگر سندھ ہائی کورٹ اور اس کے بعد سپریم کورٹ نہ دیتی تو وہ اے ڈی خواجہ کے لیے ملازمت کرنا ممکن نہیں رہا تھا۔ ان دنوں کے دوران سندھ سے تعلق رکھنے والے اے ڈی خواجہ میڈیا کے ساتھ آف دی ریکارڈ گفتگو کرتے ہوئے اس بات کا برملا اظہار کرتے تھے کہ سندھ حکومت ان سے اس لیے ناراض ہے کیوں کہ وہ انور مجید کے احکامات پر عمل نہیں کرتے۔ وہ انور مجید حوالات میں ہے ۔پیپلز پارٹی کے ہونٹ مجبوری کے دھاگوں سے سلے ہوئے ہیں۔ آصف زرداری نے تو اس وقت بھی سخت الفاظ میںاحتجاج کیا تھا جب لاڑکانہ کے جلسے سے واپس آتے ہوئے قانون نافذ کرنے والے اداروں نے غلام قادر مری نامی اس شخص کو گرفتار کیا تھا جو آصف زرداری کے زرعی فارم کا انچارج ہے۔ اگر غلام قادر مری آصف زرداری کے لیے اس قدر اہم ہوسکتے ہیں تو پھر اس انور مجید کی گرفتاری پر آصف زرداری کی پریشانی کا اندازہ لگانا مشکل نہیں ہے جو انور مجید آصف زرداری کی بزنس امپائر کا انچارج ہے۔ کس کو نہیں معلوم کہ اومنی گروپ کس کی ملکیت ہے؟ جب اومنی گروپ نے سندھ میں نجی پاور پلانٹ قائم کیا تھا اور نواز شریف کی حکومت اس پاور پلانٹ کو گیس دینے کے لیے راضی نہیں تھی تب دھرنے دینے والوں میں اس وقت کے چیف منسٹر سید مراد علی شاہ بھی تھے۔ مگراب آصف زرداری سے لیکر مراد علی شاہ سے تک سب چپ ہیں۔ کیا پیپلز پارٹی تیسری بار اقتدار ملنے کے باوجود اس لیے خوش نہیں کہ انور مجید اسیر ہیں؟ پیپلز پارٹی کی پریشانی کا سب سے اہم سبب یہ ہے کہ گذشتہ دس برسوں کے دوراں پیپلز پارٹی نے جس طرح سندھ کے سرکاری خزانے کو بے دردی سے لوٹا ہے اور جس طرح سرکاری محکموں میں کرپشن کے بہت بڑے ریکارڈ قائم کیے ہیں؛ اس دور میں ان سارے وزراء پر احتساب کا سایہ لہرا رہا ہے۔ اس بار سندھ حکومت میں سابق وزیر قانون ضیاء لنجار؛ سابق وزیر داخلہ سہیل انور سیال اور آصف زرداری کے بعد سندھ کی سرکاری سیاست میں سب سے زیادہ طاقتور سمجھی جانے والی خاتون فریال تالپور کے سپرد کوئی قلمدان نہیں کیا گیا مگر سندھ کے جس سابق وزیر ثقافت سردار شاہ کو اس بار ثقافت کے ساتھ وزیر تعلیم بھی بنایا گیا ہے اس کے محکمے پر نیب نے انکوائری شروع کردی ہے۔ سندھ کے محکمہ ثقافت کے سارے افسران بوکھلائے ہوئے ہیں۔ سندھ کے سیکریٹری ثقافت اکبر لغاری سے لیکر ڈی جی ثقافت منظور کناسرو سب پریشان ہیں کہ وہ نیب کی تحقیقات کا سامنا کس طرح کریں گے؟کلچر ڈیپارٹمنٹ میں کروڑوں کی خرد برد اس وزیر کے لیے بھی پریشانی کا باعث ہے جو فریال تالپور کا دایاں ہاتھ سمجھا جاتا ہے۔سندھ میں پیپلزپارٹی کی پریشانی پی ٹی آئی کی اس حکومت کی وجہ سے ہے؛ جو پاکستان کی لوٹی ہوئی دولت سے پاکستان کو بیرونی قرضوں سے نجات دلانے کا اعلان کر چکی ہے۔ عمران خان نے جس طرح سرکاری سادگی اور حکومتی امور میں ایمانداری کا اعلان کیا ہے ؛ اس کی وجہ سے پورے پاکستان کی افسر شاہی میں پریشانی کی شدید لہر پیدا ہوگئی ہے۔ ہم سب اس حقیقت کو بخوبی جانتے ہیں کہ حکمران پارٹی بیوروکریسی کے تعاون کے بغیر ایک کوڑی کی کرپشن نہیں کرسکتی۔ جس وقت پاکستان پر نواز شریف کا راج تھا ؛ اس وقت افسر شاہی کو معلوم تھا کہ اوپر سے نیچے تک کرپشن کی گنگا بہہ رہی ہے۔ مگر اب پاکستان کے وزیر اعظم عمران خان ہیں۔ وہ عمران خان جنہوں نے قومی اسمبلی میں اپنی پہلی تقریر کرتے ہوئے کہا ہے کہ وہ کسی ڈاکو سے این آر او نہیں کرینگے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ اٹھارویں ترمیم کے بعد صوبے کافی حد تک آزاد ہیں مگر یہ آزادی اتنی بھی نہیں کہ سارے چور اور ڈاکو قانون کی گرفت سے بچ جائیں۔ سب کو معلوم ہے کہ افسرشاہی صوبے کی ہو یا وفاق کی، ان کا ایک الگ قبیلہ ہے۔ آج کل وہ قبیلہ اپنا قبلہ درست کرنے کی کوشش میں مصروف ہے۔اس قبیلے کے سارے سردار احتساب سے خوفزدہ ہیں۔ اس لیے سندھ کے چیف سیکریٹری سے لیکر ایک کلرک تک سب سیاسی آقاؤں کے غیر قانونی احکامات ردی کی ٹوکری کے حوالے کرتے جا رہے ہیں۔ سندھ کے وہ افسران جن کے ڈرائیور بھی فائیو اسٹار ہوٹلوں میں لنچ کرتے تھے، اب ان کے باس مہمانوں کے سامنے سادہ سی چائے پیش کرنے پر مجبور ہیں۔ سندھ کے وہ سینئر بیوروکریٹ جنہوں نے کئی حکومتوں کو آتے جاتے دیکھا ہے، وہ اپنے حلقوں میں یہ کہہ تو رہے ہیں کہ ہر نئی حکومت ابتدا میں بڑے اعلانات کرتی ہے مگر جب پاور کی چکی چلتی تب سارے قوانین پس جاتے ہیں۔ ایسی باتیں کرتے ہوئے وہ سینئر بیوروکریٹ گھبرا بھی رہے ہیں۔ کیوں کہ اس وقت پاکستان کا حکمران وہ عمران خان ہے ؛ جو صرف خوابوں جیسی باتیں نہیں کرتا بلکہ ان خوابوں کی تعبیروں کے لیے جدوجہد بھی کرتا ہے۔ پاکستان کی بیوروکریسی اس انتظار میں ہے کہ عمران خان ’’نئے پاکستان‘‘ کی جدوجہد میں کب تھک کر سرکاری سطح پر سرنڈر کرتے ہیں مگر انہیں اس بات کا خوف بھی ہے کہ اگر پاکستان کا کپتان آخری گیند تک کھیلنے کا حوصلہ نہیں ہارا تو پھر کیا ہوگا؟ عمران خان کی وجہ سے پاکستان کی بیوروکریسی بے بس ہوتی نظر آ رہی ہے۔ بیوروکریسی کی اس بے بسی کو دیکھتے ہوئے پیپلز پارٹی کو سندھ میں یہ بات شدت سے محسوس ہونے لگی ہے کہ اس بار ان کے لیے حکومت پھولوں کی سیج نہیں بلکہ کانٹوں کا تاج ہے۔ پیپلز پارٹی سندھ میں حکومت کرنے کے لیے اپنی کابینہ کا اعلان بھی کرچکی ہے مگر وہ کابینہ ایک دوسرے کی طرف پریشان نظروں سے دیکھ رہی ہے۔ اس وقت سندھ میں سوشل میڈیا کی بجلی پہلے سے زیادہ شدت سے چمک رہی ہے۔ تحریک انصاف کا سوشل میڈیا بہت سرگرم ہے۔ عمران خان اس بات کا اعلان کر چکے ہیں کہ وہ سندھ حکومت میں مداخلت نہیں کریں گے مگر پیپلز پارٹی کے لیے یہ بات سخت تشویش کا باعث ہے کہ وزارت داخلہ کا قلمدان عمران خان نے اپنے پاس رکھا ہے۔ اس لیے نیب سے لیکر ایف آئی اے تک سارے ادارے اپنے کپتان کے احتسابی ایجنڈے کو کامیاب کرنے کے لیے کمر بستہ ہیں۔ اس وقت سندھ وہ جاگیر نہیںجس کو وفاق نے کبھی پیپلز پارٹی کے حوالے کر رکھا تھا۔ اس وقت سندھ میں عمران خان کے انقلابی اعلانات کا سورج چمک رہا ہے۔ اس دور میں عمران خان کی یہ بات عمل میں آ رہی ہے کہ ’’اگر اوپر کرپشن نہیں ہوگی تو نیچے کرپشن نہیں آ سکتی‘‘ عمران خان کی اصولی حکومت سندھ میں پیپلز پارٹی کے لیے پریشانی کا باعث ہے۔ اس پریشانی کا پیپلز پارٹی کے پاس کوئی حل نہیں ہے۔ سندھ کے غریب اور مظلوم عوام عمران خان کے معرفت ایک نئے دو سورج طلوع ہونے کے منتظر ہیں۔ عمران خان سے پرامن انقلاب کی آس اہلیان سندھ کی دیرینہ پیاس ہے۔سندھ کے عوام کی انصاف اور احتساب کی اس پیاس کی وجہ سے پیپلز پارٹی پریشان ہے۔ پیپلز پارٹی کی یہ پریشانی اہلیان سندھ کے لیے اطمینان کی آس ہے۔