پیپلز پارٹی کی قیادت کو پتہ تھا کہ اس کی جڑ پنجاب کی دھرتی سے اکھڑ چکی ہے مگر پیپلز پارٹی کو یہ معلوم نہ تھا کہ اسے سندھ میں سخت حالات کا مقابلہ کرنا پڑے گا۔ اس وقت سندھ میں ٹکٹوں پر پیدا ہونے والے اختلافات کے باعث پیپلز پارٹی اس طرح ٹوٹ رہی ہے جس طرح تیز بارش میں کچے مکانوں کی کمزور دیواریں ٹوٹ کر گرتی رہتی ہیں۔ ایک طرف گھوٹکی کے علی گوہر مہر پیپلز پارٹی کو الوداع کرنے کے بعد جی ڈی اے میں شامل ہوچکے ہیں اور دوسری طرف خیرپور ناتھن شاہ کے طلعت مہیسر اپنے تمام تر حامیوں کے ساتھ سندھ کے سابق وزیر اعلی لیاقت جتوئی سے ملاقات کرنے کے بعد تحریک انصاف میں شامل ہونے کا اعلان کر چکے ہیں۔ جب کہ سندھ کے ہر دوسرے شہر میں ٹکٹ نہ ملنے کی صورت میں پیپلز پارٹی کے سابق ایم پی ایز اور ایم این ایز آزاد امیدواروں کی حیثیت سے اپنی پارٹی کا مقابلہ کرنے کے لیے میدان میں اتر چکے ہیں۔ کس نے سوچا تھا کہ پیپلز پارٹی کے وہ سابق ممبران جنہیں آصف علی زرداری کے سامنے ہونٹ ہلانے کی ہمت نہ ہوا کرتی تھی وہ اب ان کی منتوں کو ٹھکرا کر آزاد امیدوار کی حیثیت سے اپنے حلقوں سے ہاتھ اٹھانے سے انکار کردیں گے۔وہ عید کا تیسرا دن تھا جب نوشہروفیروز سے آزاد امیدوار کی حیثیت سے انتخابات میں حصہ لینے والے عبدالحق بھرٹ کو منانے کے لیے آصف زرداری خود چل کر ان کے پاس گئے مگر بھرٹ نے انہیں صاف الفاظ میں اس طرح انکار کردیا جس طرح پی پی کے سابق ممبر عزیز جتوئی کو منانے کے لیے نثار کھوڑو خود چل کر گئے مگر اس نے پیپلز پارٹی میں واپس آنے سے دوٹوک جواب دے دیا۔سکھر کے اسلم شیخ نے اپنے بھائی کو ٹکٹ نہ ملنے پر شہر کی چیئرمین شپ سے مستعفی ہونے کا اعلان کر دیا اور اس نے سابق قائد حزب اختلاف خورشید شاہ کو میڈیا کے سامنے سخت تنقید کا نشانہ بنایا۔ پیپلز پارٹی کی حکومت جانے اور نگران سیٹ اپ آنے کے بعد اس پارٹی کے خلاف سندھ میں اس طرح بغاوتیں منظرعام پر آ رہی ہیں جس طرح مون سون کی بارش کے بعد تھر کے ریگستان میں کھمبیاں ابھر آتی ہیں۔ وہ تھر اس بار پیپلز پارٹی کے لیے ریت کا قلعہ ثابت ہو رہا ہے جہاں شیر محمد بالانی سابق چیف منسٹر اور پیپلز پارٹی کی طرف سے سیاسی تشدد کا نشانہ بننے والے ارباب رحیم اور پیپلز پارٹی کے سابق رہنما اور تحریک انصاف کے لیڈر شاہ محمود قریشی سے مل کر جی ڈی اے میں شامل ہونے کی باتیں کر رہا ہے۔ پیپلز پارٹی یوں ٹوٹنے اور بکھرنے کا منظر دیکھ کر سندھ کے دیہات میں بھی عام لوگ اس پارٹی کے خلاف باتیں کرتے سنے جاتے ہیں جن لوگوں نے ہمیشہ وڈیروں کے دباؤ کو مسترد کرکے پیپلز پارٹی کے حق میں ووٹ دیا۔وہ سندھ پیپلزپارٹی کے خلاف بغاوت بھری باتیں کر رہا ہے جس سندھ کے بارے میں کہا جاتا تھا کہ وہ پیپلز پارٹی سے غیرمشروط محبت کرتا ہے۔ سندھ کی پیپلز پارٹی کی محبت اختتام کو پہنچی اور اس بار پیپلز پارٹی کے بچے کھچے دانشور اپنی پارٹی کی اس حالت زار کا الزام ایجنسیوں پر نہیں لگا سکتے۔ کیوں کہ پیپلز پارٹی کی موجودہ قیادت نے اس پارٹی کو سیاسی قبرستان تک پہنچانے میں بنیادی کردار ادا کیا جس پارٹی کو کوئی بھی آمر ختم نہیں کرسکا۔ پیپلز پارٹی کی قیادت نے چالاکی کا مظاہرہ کرتے ہوئے سندھ میں ہر سیاسی شخصیت کو پارٹی میں شامل کرنے کی جو حکمت عملی بنائی تھی اب وہی حکمت عملی پیپلز پارٹی کے لیے مشکل صورتحال پیدا کر رہی ہے۔ آصف زرداری نے ایک سادہ سا فارمولہ بنایا تھا کہ سندھ میں متبادل قوت بننے نہ دو۔ اس نسخے پر عمل کرتے ہوئے ہر شخص کے لیے نہ صرف پارٹی کے دروازے کھولے گئے بلکہ ان سے سیٹوں کے وعدے بھی کیے گئے اور جب ٹکٹ بانٹنے کا وقت آیا تب سندھ کے وہ سیاسی خاندان ٹکٹ نہ ملنے پر سراپا احتجاج ہوگئے جو گزشتہ پچاس سالوں سے پیپلز پارٹی سے وابستہ ہیں۔ اس وقت لیاری سے لیکر لاڑکانہ تک پیپلز پارٹی کے پرانے عہدیدار پارٹی کو چھوڑتے جا رہے ہیں۔وہ پیپلز پارٹی جس کو ایک ماہ قبل تک اس بات کا یقین تھا کہ ’’تیسری باری بھی زرداری‘‘ وہ اب تیزی سے مایوس ہو رہے ہیں۔ اب انہیں محسوس ہونے لگا ہے کہ پیپلز پارٹی سندھ میں اقتداری ہیٹرک کرنے کی پوزیشن کھو رہی ہے۔ پیپلز پارٹی میں پیدا ہونے والی یہ مایوسی عوام میں منتقل ہورہی ہے۔ سندھ کے دیہاتوں میں لوگ اب اس پارٹی کو زرداری کی پارٹی کہنے لگے ہیں جس پارٹی کو وہ ہمیشہ بھٹو خاندان کی امانت قرار دیتے ہیں۔ اب سندھ کے عام لوگ بھی کہتے ہیں کہ اس جماعت سے ہمارا کیا تعلق؟ جو پارٹی بھٹو خاندان سے مکمل طور پر اپنے رشتے کاٹ چکی ہے۔ کیا یہ بات عجیب نہیں ہے کہ اس بار سندھ میں جن افراد کو پارٹی کے ٹکٹ الاٹ ہوئے ہیں ان میں ایک بھی بھٹو نہیں ۔ جب کہ زرداری خاندان کے چھ افراد انتخابات میں حصہ لے رہے ہیں۔ پیپلز پارٹی کی وہ قیادت جو سیاسی رموز سے آگاہ نہ تھی؛ ان کا خیال تھا کہ ان کے لوگ جی بھر کر کرپشن کرینگے اور جب انتخابات کا وقت آئے گا تب وہ جلسے جلوس نکانے اور کارنر میٹنگس میں وقت برباد کرنے سے بہتر ہے کہ پیسوں سے ووٹ خرید کر جیت جائیں گے مگر اس بار یہ طریقہ بھی کام نہ آئے۔ اس بار سندھ کے عام لوگ پیپلز پارٹی کو سیاسی سزا دینے کا سوچ رہے ہیں۔ اگر پیپلز پارٹی نے اچانک کوئی چال چلی اور اس نے بازی کو الٹ دیا تو دوسری بات ہے ورنہ اس پارٹی کے خلاف جو عوامی سطح پر ٹیمپو بنتا جا رہا ہے ؛ اس کو دیکھ کر پیپلز پارٹی کے ٹکٹ یافتہ امیدوار دیہاتوں میں تو شاید رسم تقریر ادا کرنے کے لیے جائیںگے مگر انہیں شہروں کا رخ کرنے کی ہمت نہ ہوگی۔ کیوں کہ کراچی میں جب سپریم کورٹ کے سامنے اساتذہ مستقل ہونے کا مطالبہ کرتے ہوئے احتجاج کر رہے تھے تب عوام کی ہمدردی حاصل کرنے کے لیے اس جگہ پر عوامی اسٹائل میں بولنے والا سندھ کا سابق وزیر اطلاعات مولا بخش چانڈیو وہاں میڈیا سے بات کرنے کے لیے پہنچ گیا مگر اس کو وہاں پر موجود احتجاجی اساتذہ نے کھڑے ہوکر بات کرنے نہیں دی۔ ان سب نے مل کر زور زور سے نعرے لگانے شروع کیے کہ ’’گو زرداری گو۔۔۔۔گو زرداری گو‘‘ اور ان نعروں کو سن کر مولا بخش وہاں سے چلے گئے۔ یہ وڈیو کلپ سندھ کے سوشل میڈیا پر وائرل ہوچکی ہے۔ اس وڈیو کلپ کو اپلوڈ کرکے سندھی مڈل کلاس ایک دوسرے سے کہتے ہیں کہ اگر انتخابات میں پیپلز پارٹی کے امیدوار آپ کے حلقوں میں کارنر میٹنگ کریں تو ان کا حشر بھی ایسا ہونا چاہئیے ؛ جیسا حشر مولا بخش چانڈیو کا کیا گیا ہے۔ پیپلز پارٹی نے سندھ میں میڈیا کو اپنی مٹھی میں قید کرنے کے لیے ہر ممکن کوشش کی مگر آصف زرداری کو اس بات کا احساس تک نہیں تھا کہ سوشل میڈیا کی صورت میں پیپلز پارٹی کے لیے ایک آفت جنم لے رہی ہے۔ سوشل میڈیا پر پیپلز پارٹی نے بلاول بھٹو زرداری کی تصاویر اپلوڈ کرنے کے علاوہ اور کچھ نہیں کیا جب کہ سوشل میڈیا میں موجود پیپلز پارٹی کے مخالفین یا اس پارٹی کی کارکردگی کے باعث اس سے خفا ہونے والے افراد ایسے قصے بھی اپلوڈ کر رہے ہیں جن میں کوئی صداقت نہیں مگر وہ لوگوں کے دلوں کی ترجمانی کرتے ہیں اس لیے انہیں اچھے لگتے ہیں۔ چند دن پہلے کی بات ہے کہ جب سندھ میں انتخابی فارم جمع ہونے کا سلسلہ جاری تھا اس وقت بلاول بھٹو زرداری لاڑکانہ میں ریٹرننگ آفس پہنچے اور پھر ان کے بارے میں یہ بات مشہور کی گئی کہ ریٹرنگ افسر نے ان سے پوچھا کہ ’’آپ کون ہیں؟ بھٹو یا زرداری؟‘‘ تب بلاول نے جواب دیا کہ ’’میں بھٹو زرداری ہوں‘‘ اس پر ریٹرننگ افسر نے کہا کہ’’ تمہارے شناختی کارڈ پر تو زرداری لکھا ہوا ہے۔ کیا بیوقوف بنانے کے لیے عوام کافی نہیں کہ تم وہ چال چلنے کے لیے یہاں بھی آگئے ہو۔ بہتری اس میں ہے کہ تم اپنے فارم سے بھٹو کالفظ ہٹادو ورنہ تمہارا فارم قبول نہیں کیا جائے گا‘‘ یہ بات سن کر بلاول نے اپنے نام کے آگے لکھا ہوا ’’بھٹو‘‘ کا لفظ مٹا دیا۔ یہ بات حقیقت نہیں افسانہ ہے مگر ایسے افسانے سوشل میڈیا پر وائرل ہو رہے ہیں اور ان افسانوں کو حقیقت سمجھنے والے لوگ پیپلز پارٹی سے الگ ہوتے جا رہے ہیں۔ پیپلزپارٹی کے ٹکڑے کرنے کی حسرت اپنے دل میں سما کر کئی آمر اقتدار سے الگ ہوگئے۔ ان آمروں نے بہت سارے ہتھکنڈے آزمائے مگر ان کی ہر کوشش کا حشر مرزا غالب کے اس شعر جیسا ہوا: سنا تھا ہم نے کہ غالب کے اڑیں گے پرزے دیکھنے ہم بھی گئے پہ تماشہ نہ ہوا مگر اس پر اور صوبوں میں تو کیا پیپلز پارٹی کی جنم بھومی سندھ میں بھی اس پارٹی کے پرزے اڑتے نظر آ رہے ہیں۔ ایک سنجیدہ اور عوامی طاقت سے سرشار پارٹی تاریخ کے اس دور میں ایک تماشہ بن گئی ہے۔ عروج اور زوال کی اس کہانی کو رقم کرنے والے مورخ کا دل بھی بہت بھاری ہے۔