بلاول بھٹو زرداری ، مسند ارشاد جنہیں میراث میں آئی ہے، کس تجاہل عارفانہ سے فرماتے ہیں : پیپلز پارٹی نے کبھی یو ٹرن نہیں لیا۔ قائم علی شاہ صاحب کے زمانوں کے بیان کا تو شاید محل نہ ہو جب ڈکٹیٹر ڈیڈی ہوا کرتا تھا اور قائد عوام صدارتی انتخابات میں مادر ملت محترمہ فاطمہ جناح کے مقابل ایک ڈکٹیٹر کے چیف پولنگ ایجنٹ کے منصب جلیلہ پر فائز ہوا کرتے تھے لیکن یہ دیکھ لینے میں تو کوئی مضائقہ نہیں ہو گا کہ پیپلز پارٹی دور جدید میں کوئی یو ٹرن لیے بغیرسیاست کے صراط مستقیم پر کس استقامت سے گامزن ہے۔ بے نظیر بھٹو شہید ہوئیں تو تیسرے ہی روز جناب آصف زرداری نے کہ دیا کہ الیکشن میں فتح کی صورت میں مخدوم امین فہیم وزیر اعظم ہوں گے۔لیکن پھر ایک روز زرداری صاحب نے مخدوم صاحب کو یاد فرمایا۔ معتبر راوی روایت کرتے ہیں کہ زرداری صاحب کے لیے مخدوم امین فہیم کا سامنا کرنا اس روز مشکل ہو رہا تھا ۔انہوں نے ملاقات میں اپنی ہمشیرہ فریال تالپور کو بھی بٹھا لیا اور امین فہیم سے کہا کہ وہ انہیں وزارت عظمیٰ کے لیے نامزد نہیں کر سکتے اس لیے بہتر ہے وہ خود ہی دستبردار ہو جائیں۔امین فہیم نے یہ حکم ماننے سے انکار کر دیا اور کہا آصف زرداری خود وزارت عظمیٰ کے امیدوار بننا چاہتے ہیں تو ابھی دستبردار ہونے کو تیار ہوں لیکن کسی اور کو بنانا چاہتے ہیں تو دستبرادری ممکن نہیں۔ بلاول بھٹو صاحب کیا فرماتے ہیں بیچ اس مسئلے کے ، یہ یو ٹرن نہیں تھا؟ ہاںیو ٹرن نہیں ، شاید یہ ابائوٹ ٹرن تھا جو اتنی تیزی سے لیا گیا کہ کہنی امین فہیم کی پسلیوں میں جا لگی۔ اس فیصلے کی شان نزول بھی کمال کی تھی۔مخدوم صاحب سے کہا گیا ہم تو آپ کو وزیر اعظم بنانا چاہتے ہیں لیکن نواز شریف اس کے لیے راضی نہیں ۔امین فہیم نے وجہ پوچھی تو بتایا گیا آپ پرویز مشرف کے ساتھ رابطے میں رہے۔ اس لیے میاں صاحب کو آپ پر بھروسہ نہیں۔امین فہیم نے کہا آپ خوب جانتے ہیں میں پرویز مشرف سے کس کے کہنے پر ملا اور کیوں ملا؟ مجھے تو محترمہ بے نظیر بھٹو نے ہدایت کی تھی اور آپ اس حقیقت سے آگاہ ہیں۔کیا میں نے کوئی ذاتی مفاد لیا؟ کیا مجھ پر کوئی مقدمہ تھا جو میں نے ختم کروایا؟این آر او ہوا تو اس کا فائدہ بھی آپ ہی کو ہوا۔لیکن قیادت جب یوٹرن لینے پر تُل چکی ہو تو دلائل کا پہاڑ بھی بے کار ثابت ہوتا ہے۔ اب راز کی یہ بات بلاول بھٹو ہی بتائیں کہ قیادت پہلے ایک آدمی کے ذمے ایک کام لگائے اور کام ہو جانے پر اسی آدمی کو مورد الزام ٹھہرا تے ہوئے منصب کے لیے نا اہل قرار دے ڈالے تو یہ ناک کی سیدھ میں اصولوں کا سفر ہو گا یا ڈی چوک سے آگے شاہراہ دستور پر لیا گیا ’ یو ٹرن ‘ کہلائے گا؟ آصف زرداری نے نواز شریف کو مخلوط حکومت میںشامل کرنا چاہا تو نواز شریف نے عدلیہ کی بحالی کی شرط رکھی۔ آصف زرداری نے اسے تسلیم کر لیا اور ایک مشترکہ پریس کانفرنس کر کے اس بات کا اعلان کیا گیا۔ لیکن پھر کیا ہوا۔ آصف زرداری اپنے وعدے سے مکر گئے۔ کسی نے انہیں وعدہ یاد دلایا تو صاحب نے جواب دیا: وعدے قرآن و حدیث نہیں ہوتے۔اب جناب بلاول ہی رہنمائی فرمائیں تو معلوم ہو کہ معلوم انسانی تاریخ میں کسی اور نے بھی اتنا خوفناک یوٹرن لیا تھا یا یہ اعزاز ان کے ابا حضورہی کے حصے میں آیا تھا؟ کیا بلاول بھٹو کو معلوم ہے کہ مسلم لیگ (ن) اس مخلوط حکومت سے الگ کیوں ہوئی تھی؟ وہ اگر بھول چکے ہوں تو انہیں معلوم ہونا چاہیے اس کی وجہ ان کے والد بزرگوار کا یہی یوٹرن تھا۔ خود محترمہ بے نظیر بھٹو پاکستان آئیں تو جسٹس کالونی کی دہلیز پر کھڑے ہو کہا کہ ہم اقتدار میں آ کر ججوں کو بحال کریں گے لیکن ان کے لہو کے صدقے اقتدار حاصل کرنے والے اس وعدے سے مکر گئے۔ بلاول ہی اب قوم کی رہنمائی فرمائیں کہ وہ یوٹرن نہیں تھا تو کیا تھا؟ پھر جب لاہور سے ایک لانگ مارچ چلا تو مرد حُر کا حرف انکار جھاگ کی طرح تحلیل ہو گیا اور لانگ مارچ ابھی جہلم کے پُل پر نہیں پہنچا تھا کہ ججوں کو بحال کر دیا گیا۔ اب کیا فرماتے ہیں بلاول بھٹو اوپر تلے دو یوٹرن لے لیے جائیں تو کیا اسے سیدھے راستے کی مسافت کہا جائے گا؟ ابھی کل ہی کی بات ہے ، عمران خان الیکشن جیتے تو ن لیگ اور مولانا فضل الرحمن نے کہا اسمبلیوں کا مکمل بائیکاٹ کیا جائے۔پیپلز پارٹی نے ایک فارمولا دیتے ہوئے کہا کہ ا نہیں اسمبلیوں میں جانا چاہیے۔ اس فارمولے کے تحت وزیر اعظم کے لیے ن لیگ نے امیدوار دینا تھا ۔لیکن وزارت عظمی کی باری آئی تو پیپلز پارٹی نے شہباز شریف کو ووٹ دینے سے انکار کر دیا۔ کیا فرماتے ہیں بلاول بھٹو زرداری صاحب یہ ناک کی سیدھ کا سفر تھا یا اچانک ہی ایک یوٹرن لے لیا گیا تھا؟اسمبلی میں عمران کو’ سیلیکٹڈ‘ وزیر اعظم کہا مگر چیئر مین سینیٹ کے الیکشن میں یو ٹرن لیا اور سلیکٹڈ وزیر اعظم کے پورچ میں گاڑی کھڑی کر دی۔ نواز شریف کا دور اقتدار ختم ہونے کے قریب پہنچا تو اپوزیشن کا تاثر دینے کے لیے بلاول نے چار شرائط پیش کرتے ہوئے کہا یہ پوری نہ ہوئیں تو لانگ مارچ ہو گا۔ کیا وہ ہماری رہنمائی فرمائیں گے وہ شرائط کیا ہوئیں اور وہ لانگ مارچ کس یوٹرن سے واپس چلا گیا؟خود ہی سب سے پہلے بھارت کو پسندیدہ ملک قرار دینے کی بات کی اور خود ہی یو ٹرن لیتے ہوئے سینیٹ میں اس کے خلاف قرارداد پیش کروادی۔ پیپلز پارٹی کا 2008ء کا انتخابی منشور دیکھیے اور پھر پانچ سالوں کی کارکردگی پر نگاہ ڈالیے۔کتنے ہی اقوال زریں تھے جو یو ٹرن پر کچلے گئے۔کہا قانون کی حکمرانی قائم کریں گے، پھر وزیر اعظم قربان کر دیا مگر سوئس حکام کو خط لکھنے کے لیے دیے گئے سپریم کورٹ کے حکم پر عمل نہ کیا۔کہا افراط زر پر قابو پائیں گے اور پھر1947ء سے تب تک تاریخ کا دوسرا بدترین افراط زر انہی کے دور میں ہوا۔کہا گیا جی ڈی پی بہتر کریں گے لیکن پاکستان کی تاریخ میں بد ترین شرح کا ریکارڈ قائم کر دیا گیا۔جس وقت بھارت میں سات اعشاریہ آٹھ فیصد اور بنگلہ دیش میں چھ اعشاریہ آٹھ فیصد تھی ہمارے ہاں محض دو اعشاریہ نو فیصد تھی۔بجٹ خسارہ تاریخ میں سب سے زیادہ تھا۔ بس کر دیجیے صاحب ، اس سے پہلے کہ ہاتھ کی لکیروں سے زائچے نکل آئیں۔