آج جب آپ یہ سطور پڑھ رہے ہیں تو سندھ کی ایک اہم صوبائی نشست پی ایس 11لاڑکانہIIکے ضمنی انتخاب کانتیجہ سامنے آچکا ہوگا،اس نشست پر پورے ملک کے تجزیہ کاروں کی نظریں جمی ہوئی تھیں۔ اس ایک نشست نے25جولائی 2018ء کے عام انتخابات سے جیالوں کی نیندیں حرام کررکھی ہیں۔ یہ پاکستان پیپلز پارٹی سندھ کے صدر نثاراحمد کھوڑوکی روایتی نشست ہے،جو وہ ہمیشہ ’’زندہ ہے بھٹو ،زندہ ہے‘‘کی بنیادپر بہ آسانی جیتتے چلے آئے ہیں،گزشتہ سال عام انتخابات میںنثار کھوڑو اپنی ایک شادی خفیہ رکھنے میںناکام رہے تو انتخابات کے لئے نا اہل قراردے دئیے گئے ،ان کی نااہلی کی پاداش میںاس نشست پر ان کی صاحبزادی ندا کھوڑو کو ٹکٹ دیا گیا لیکن لاڑکانہ کے عوام نے نثار کھوڑو کی صاحبزادی کو مسترد کردیا اور وہ ایک منظم اتحادکے مقابل کامیابی سے ہمکنار نہ ہو سکیں ۔یہ نشست گرینڈ ڈیمو کریٹک الائنس اور تحریک انصاف کے مشترکہ امیدوار معظم علی خان عباسی نے جیت لی تو پیپلزپارٹی کے مخالف حلقوں نے اس جیت کوپیپلزپارٹی کے سیاسی قلعے لاڑکانہ میں پہلی دراڑ قراردیا۔ ندا کھوڑو نے ہار کر بھی ہار نہیں مانی اور معظم علی خان عباسی کواثاثے چھپانے پر عدالت گھسیٹ لے گئیں۔ لاڑکانہ میں پیپلزپارٹی کو کراری شکست کامزہ چکھانے والے معظم علی خان عباسی کی نااہلی کا کیس چھوٹی عدالتوں سے ہوتا ہوا عدالت عظمیٰ جا پہنچا اور بالآخر وہ اس نشست سے محروم قراردے دئیے گئے، عوام کی عدالت میں شکست کھانے والی ندا کھوڑوملک کی بڑی عدالت میں کیس جیت کر بھی ہار گئیں۔عدالت عظمیٰ نے پی ایس 11لاڑکانہIIکا نتیجہ کالعدم قرار دے کر اس نشست پر ازسرنو انتخاب کرانے حکم دیا جس کی پولنگ کے لئے 17 اکتوبر 2019ء کا دن مقرر تھا۔ عدالت نے دوبارہ انتخاب کا فیصلہ دے کر پاکستان پیپلزپارٹی کو بڑی آزمائش میں مبتلا کردیا ہے۔ جیت اور شکست دونوں صورتوں میں لاڑکانہ کے مضبوط سیاسی قلعے میں پڑنے والی دراڑ مستقبل میں ایک گہرے شگاف کی شکل اختیار کرسکتی ہے۔ ضمنی انتخاب کے لئے جب ٹکٹوں کی تقسیم اور کاغذات نامزدگی کا مرحلہ آیا تو جی ڈی اے اور تحریک انصاف کے پاس معظم علی خان عباسی کابہترین آپشن موجود تھا جنہوں نے اپنے خفیہ اثاثے ظاہر کرکے اپنی پوزیشن شفاف کرکے اہل ہوگئے تھے، البتہ پیپلزپارٹی کے لئے ایک چیلنج موجود تھاکہ اس نشست سے کسے میدان میں اتارا جائے کہ جو 2018ء کے انتخابات میں لگنے والا یہ دھبہ مٹا سکے اور اپنے ہی گھر میںمزید شرمندگی کا سامنا نہ کرنا پڑے ۔ اس نشست کے لئے اچانک محترمہ بے نظیر بھٹو شہید کی چھوٹی صاحبزادی آصفہ بھٹو زرداری کا نام سامنے آیا جو چوبیس گھنٹوں میں ہی واپس لے لیا گیا۔اس نشست پرضمنی انتخاب میں بی بی شہید کی صاحبزادی کو جھونکنا پیپلز پارٹی کی سیاسی خودکشی کے مترادف تھا۔ آصفہ بی بی کی لاڑکانہ سے کامیابی کے امکانات روشن تھے،ا گر وہ خدانخواستہ ضمنی انتخاب ہار جاتیں تو یہ پارٹی اور نئی قیادت کے لئے بہت گہرا زخم ہوتا اور اس سے تحریک انصاف سمیت پیپلز پارٹی کے مخالف حلقوں کے اس بیانیے کو تقویت ملتی کہ سندھ پیپلز پارٹی کے پیروں تلے سے کھسک رہا ہے اور سندھ کے عوام متبادل قیادت کی راہیں دیکھ رہے ہیں۔ بلاول بھٹو زرداری نے اس بار ٹکٹ کے لئے پارٹی اور لاڑکانہ کے عوام کو سرپرائز دیا اور ایک طویل مدت بعد اس نشست سے کھوڑو آئوٹ ہو گئے اور چیئرمین نے اپنے ہی سیاسی مشیرجمیل احمدسومرو کو میدان میں لاکھڑا کیا۔ نثار احمد کھوڑو اس فیصلے سے بجھے بجھے سے دکھائی دئیے لیکن بادل نخواستہ انہیں جمیل احمدسومرو کے لئے کشکول اٹھانا پڑا۔بلاول بھٹو زرداری خود بھی اس حلقے میں آئے اور ایک فقیدالمثال ریلی کی قیادت کی جس پر انہیں اور متعدد صوبائی وزرا کو الیکشن کمیشن نے ضابطہ اخلاق کی خلاف ورزی پر انتباہی پروانے بھی جاری کئے۔ اس سے قبل بی بی کی بیٹی آصفہ بی بی بھی جمیل احمد سومرو کے لئے حلقے میں آئیں تو جیالوں کی انتخابی مہم میں جان پڑ گئی۔ اس نشست پر یوں تو درجن بھر امیدوار میدان میں تھے لیکن اصل مقابلہ 2018ء کے فاتح معظم علی خان عباسی اور انتخابی سیاست میں نووارد بلاول بھٹو زرداری کے سیاسی مشیر جمیل احمد سومروکے مابین تھا۔جمیل احمد سومرو کو اپنی پہلی انتخابی مہم میں لاڑکانہ کے عوام سے بہت کچھ کہنا سننا پڑا،وہ گھر گھر انتخابی مہم پر نکلے تو کئی مقامات پر انہیں کڑوی کسیلی سہنا پڑیں۔ اب وہ دن گئے کہ جب لاڑکانہ میں لوگ آنکھیں بند کر کے تیر کے نشان پر مہر ثبت کردیا کرتے تھے۔ اب لوگوں کوزبان لگ گئی ہے، اب لوگ سوال کرنے لگے ہیں۔ اب تک کہاں تھے، ہمارے لئے کیا کچھ کیا؟ٹوٹی ہوئی سڑکوں، گندگی سے بھری گلیوں اور کچر ے سے اٹے راستوں نے لوگوں کو احتجاج کرنے کے آداب سکھا دئیے ہیں ۔ البتہ لوگوں کے دلوں میں اب بھی سیاسی شہیدوں کے مزارات کا لحاظ ہے، بی بی کا بیٹا بلاول اور بی بی کی بیٹی آصفہ اس بار لاڑکانہ آئے تو ان کے نانا کے شہر کے باسی بسروچشم ان کے منتظر تھے۔ اگر میدان پیپلزپارٹی کے ہاتھ رہا تو اس کا کریڈٹ بھی پارٹی کو نہیں بی بی کے بیٹے اور بیٹی کو جائے گا۔ پیپلزپارٹی کے بڑوں کو اب بڑے فیصلے کرنے پڑیں گے، لوگ جاگ گئے ہیں تو انہیں بھی جاگنا ہوگا،اب نعروں سے نہیں ،کام سے دل جیتنے کا موسم آگیا ہے۔ اگر پارٹی عوام کے زخموں پر مرہم نہیں رکھے گی،ان کے مسائل حل نہیں کرے گی تو پیپلزپارٹی کا یہ آخری قلعہ بھی اس کے ہاتھ سے جاتا رہے گا۔