خوابِ کمخواب کا احساس کہاں رکھیں گے اے گلِ صبح تری باس کہاں رکھیں گی پیلے پھولوں سے لدے رہتے ہیں جوراہوں میں ہم وہ چاہت کے املتاس کہاں رکھیں گے سعدیہ قریشی نے اپنے کالم میں ’’املتاس کا زرد جادو‘‘ بیان کیا تو غرفۂ خیال سے یادیں جھانکنے لگیں کہ یہ پیڑ مجھے بھی بہت ہانٹ کرتے ہیں۔ اس پر لدے ہوئے اور لٹکے ہوئے پیلے پھولوں کے گہنے کس قدر مسحور کن ہوتے ہیں۔ میں تو اکثر گلشن اقبال انہیں دیکھنے جایا کرتا تھا اور واقعتاً وہ راہ میں ایستادہ جیسے میرے انتظار میں ہوتے تھے۔ انہیں دیکھتا تو ایسے جیسے آنکھیں سونے سے بھر جائیں، بالکل ایسے جیسے آپ سرسوں کی فصل کو دیکھتے ہیں اور ایک خوشگوار دھوپ کا رنگ آنکھوں سے ہوتا ہوا حرزجاں بن جاتا ہے۔ میں فطرت سے ورڈزورتھ کی طرح پیار کرتا ہوں کہ مجھے پورا چاند قوس قزاح برف پوش پہاڑ اور دوسرے سوتے جاگتے مناظر بہت کھینچتے ہیں۔ شاعر تو وہی ہے جو انہیں سخن آشنا کر دے۔ مجھے یاد ہے جب میں اقبال ٹاؤن میں رہا کرتا تھا۔ ہماری مسجد کے عین سامنے پارک میں ایک پیڑ تھا جس پر سے نیلے رنگ کے پھول گرا کرتے تھے، ایسے کہ جیسے بارش ہو۔ نیچے نیلے رنگ کا قالین سا بچھ جاتا تھا۔ میں فجر کی نماز کے بعد وہاں بیٹھ جاتا اور یہ منظر دیکھتا جیسے میرے اندر نیلے رنگ کی بارش ہو رہی ہو۔ نیلا رنگ ویسے بھی مجھے پسند ہے کہ وسعتوں کا استعارہ ہے۔ یہ آسمان اور سمندر کا رنگ ہے۔ شاید یہ آنکھیں بھی نیلی کر دیتا ہے۔ خیر میں نہیں جانتا تھا کہ اس پیڑ کا نام کیا ہے جو میری توجہ کا منظر بنا ہوا ہے۔ میں نے ایک روز وہاں بیٹھ کر ایک نظم کہی ’’نیلے پھولوں کی بارش‘‘ اور بعد میں یہی میرے ایک شعری مجموعے کا نام ٹھہرا۔ اس میں، میں نے اپنے عجز کا اظہار کیا کہ مجھے اس پیڑ کے بارے میں معلومات نہیں! نام میں رکھا بھی کیا ہے کام دیکھا چاہیے حسن ہے تو حسن کو بے نام دیکھا چاہیے آپ یقین مانیے کہ شعری مجموعہ کے بعد لوگوں نے خواہش ظاہر کرنا شروع کی کہ وہ اس پیڑ کو دیکھنا چاہتے ہیں۔ خاص طور پر سعدیہ سیٹھی نے نوٹنگھم سے مجھے لکھا کہ وہاں بھی پہاڑی کی سلوپ پر ایک ایسا ہی درخت ہے جس پر سے پرپل پھول گرتے ہیں۔ یورپ میں تو ایسے پودے اور بھی زیادہ اہتمام سے لگائے جاتے ہیں۔ یہ شوق کی بات ہے کہ جب احمد فراز، انور مسعود، خالد شریف، شعیب بن عزیز اور راقم ناروے گئے تو میں نے انہیں وہاں کے ووڈز جنگلات دکھانے کی فرمائش کی اور پھر میں اندر تک انہیں دیکھتا گیا۔ وہاں تو ٹریک بھی بنے ہوئے تھے اور لڑکے لڑکیاں سائیکلنگ بھی کرتے تھے۔ ویسے بھی وہاں خالی قطعات زمیں کم ہی نظر آتے ہیں۔ وہاں سبزہ لگا دیا جاتا ہے، بارشیں تو وہاں ہوتی ہی رہتی ہیں۔ املتاس کے پھول ہی کیا، ہر پھول قدرت نے فطرت میں ہمارے لئے ہی ٹانکا ہے۔ حتیٰ کہ آسمان کو ستاروں سے ہمارے لئے مزین کیا ہے۔ بس اس آنکھ کی ضرورت ہے جو پھولوں کے ’’اودھے اودھے نیلے نیلے پیرہن‘‘ دیکھ سکے۔ پھول کیا پھل تک کا عمل شاعرانہ ہے اور خوبصورتیوں سے بھر ا ہوا ہے۔ کوئی دیکھنے والا تو ہو: جب پھول چپ ہوئے تو ثمر بولنے لگے پھر اس کے بعد سارے شجر بولنے لگے میں نے تو اپنے مکان کے خالی قطع میں پھلدار پیڑ لگا رکھے ہیں۔ پہلے گھر میں تو پانچ مرلہ کا پورا قطعہ ان کے لئے وقف تھا۔ وہاں گلہریاں بھی آتی تھیں اور یہ پیارا سا پھدکتا جانور مجھے بہت اچھا لگتا ہے۔ اس کی ہر ادامجھے بھاتی ہے۔اقبال بھی تو گلہری سے متاثر ہوئے تھے۔ تب تو اس نے چھالیہ توڑ کر دکھایا تھا۔ شاعر تو فطرت کی پہنائیوں اور وسعتوں میں کھو جاتا ہے۔ ایک دن ہمارے انگریزی کے استاد ابراہیم اعوان مجھے بتانے لگے کہ انہوں نے میرا ایک شعر (Negative Capibilty) کے ضمن میں لکھوایا ہے۔ یہ کیفیت Keats کے ہاں پائی جاتی ہے کہ وہ فطرت کے مناظر دیکھتے ہوئے خود بھی ان میں ڈھل جاتا ہے یعنی خود کو منہا کر دیتا ہے۔ وہ شعر جو اعوان صاحب نے لکھوایا، یہ تھا: اڑتارہا میں دیر تلک پنچھیوں کے ساتھ اے سعد مجھ سے جال بچھایا تک نہیں گیا کبھی میں سوچتا ہوں وہ کیسا منظر ہو گا کہ جب Keats گھاس پر لیٹ کر ککو کی آواز سنا کرتا تھا۔ یہ ککو کوئل ہی تو ہے۔ یہ آواز معروف شاعر حلیم قریشی نے اس وقت سنوائی جب وہ بھی بارش میں ’’منال ‘‘ لے کر گئے۔ اسلام آباد میں بلندی پر یہ مقام دیکھنے کے لائق ہے۔ مصیبت یہ ہے کہ کوئل کی آواز سنائی دیتی ہے۔ یہ پرندہ خود نظر نہیں آتا۔ اگر نظر آتا ہے تو چڑیا گھر میں۔ ہائے ہائے انسان کتنا ظالم ہے۔ اب یہ کوئل چڑیا گھر میں کب کوکے گی۔ آپ کبھی فطرت کا ایک اور منظر دیکھیں جب دھوپ میں بارش ہو رہی ہوتی ہے۔ ظاہر ہے اس منظر نے ہمیں بھی چھیڑا اور ہماری یادداشت کا حصہ بن گیا۔ لب پر ہے انکار کسی کے بعد ہے دل میں خواہش بھی ان کی آنکھوں میں دیکھو تو دھوپ بھی ہے اور بارش بھی میرے پیارے معزز قارئین! آج تو میںآپ کو ادب رنگ میں لے آیا۔ اصل میں فطرت کے رنگ اور خوشبو سب شاعری کی طرح ہے۔ اگر میں فطرت کو تجسم کروں تو کہہ سکتا ہوں! یہ میرے شعر نہیں ہیں ترا سراپا ہے کہ خوبصورتی اپنی نمود ڈھونڈتی ہے یہ سب کچھ اپنے خالق کی صناعی بیان کرتا ہے۔ آپ اور میں تو درخت کے پتے ہی کو دیکھتے ہیں اس میں پھیلی ہوئی رگوں کو دیکھئے۔ کہاں سے خوراک چلتی ہے اور کہاں کہاں کیسے پہنچتی ہے۔ آپ ایک ہی درخت پر گرین کے کتنے ہی شیڈ دیکھتے ہیں اور پھر سب کچھ اللہ کی تسبیح بیان کرتا ہے۔ میں نے بھی اس کو بیان کرکے گویا عبادت ہی کی ہے۔ یہ سب کچھ ہمارے لئے پیدا کیا گیا اور ہمیںاللہ کی عبادت کیلئے۔ بات چلی تو املتاس سے۔ واقعتاً اس کے پیلے پھولوں کے گچھے لٹکتے ہوئے کتنے بھلے لگتے ہیں۔ اس کی پھلیاں جو لمبی لمبی ہوتی ہیں، جن میں بیج ہوتا ہے دوائی میں استعمال ہوتی ہیں۔ مگر ہمیں تو پھولوں ہی نے آگے دیکھنے نہ دیا۔ منیر نیازی کے ایک خوبصورت شعر کے ساتھ اجازت: نکلا جو چاند آئی مہک تیز سی منیر میرے سوا بھی باغ میں کوئی ضرور تھا ٹھہریے میر کا لازوال شعر بھی تو پڑھ لیجئے گلشن میں آگ لگ رہی تھی رنگ گل سے میر بلبل پکاری دیکھیے صاحب پرے پرے