نئے نظام سے ملازمت پیشہ افراد کی سماجی زندگی بہتر ہوگئی ،چار روزہ ہفتے سے متعلق تحقیقی فیچر 

ہفتے میں تین دن کی چھٹی سے ملازمین کی کارکردگی،کام کا معیار بہتر ہورہا ہے

اس سے زیادہ نوجوانوں کو ملازمت کے مواقع ملیں گے

 

شبیر سومرو

 

 ’’جب پہلی بار میرے باس نے مجھے کہا کہ ہم اگلے ماہ سے کام کے دن گھٹا رہے ہیں اور اب ہم ہفتے میں صرف چار دن کام کیا کریں گے تو میں بے حد پریشان ہوگئی کیوں کہ مجھے فکر لاحق ہوگئی تھی کہ ہفتے کا ایک دن کم ہوجانے سے ہم اپنی ڈیڈ لائنز کیسے پوری کر پائیں گے؟اس کے علاوہ ہمارے بیشتر کلائنٹس تو ہفتے کے ساتوں دن ہم سے رابطے میں رہنا اور ہمارے حوالے کیے ہوئے اپنے کاموں کی پیش رفت سے متعلق جاننا چاہتے ہیں تو ان کو کیسے مطمئن کیا جاسکے گا کہ ہم نے ورکنگ وِیک کا ایک دن مزید گھٹا دیا ہے!۔وہ تو آسمان سر پہ اٹھا لیں گے اور ہوسکتا ہے کہ ہمارے بجائے کسی اور کمپنی کا رخ کرلیں۔۔۔ مگر یہ سب میرا وہم ثابت ہوا اور یہ نیا تجربہ کمپنی کی پروڈکشن اور ملازموں کی کارکردگی کے حوالے سے بہت عمدہ ثابت ہوا ہے‘‘۔    

ٹفنی شوین آسٹریلیا کے شہر میلبورن میں ایک ڈجیٹل مارکیٹنگ کمپنی میںپروجیکٹ مینجر ہیں۔ وہ کمپنی کی جانب سے کلائنٹس اور ملازمین کے مابین رابطہ کا کے طور پر کام کرتی ہیں اور پروجیکٹس بروقت مکمل کروا کے کسٹمرز کے حوالے کرنا بھی ان کی ذمہ داریوں میں شامل ہے۔ اس لیے وہ 24/7 خود کو کام پر سمجھتی ہیں اور ذہنی طور پر بہت مصروف رہتی ہیں۔ ان حالات میں جب ان کے سی ای او نے پانچ دن کے مرّوج کاروباری ہفتے یعنی ورکنگ ویک میں ایک دن مزید چھٹی کرنے کا اعلان کیا تو ٹفنی شوین بجا طور پر  پریشان ہوگئیں۔ مگر ان کے ساتھی ملازم اس نئے فیصلے سے بہت خوش ہوئے تھے کیوں کہ ہفتے کے چار دن کام کر کے بھی انھیں پانچ دن کی تنخواہ مل رہی تھی۔

آج سے تقریباً ایک صدی قبل 1926 ء میں فورڈ موٹرز کے بانی ہنری فورڈ نے اپنے ملازموں کو ہفتہ وار چھٹی دینے کی ابتدا کی تھی۔ یہ دیکھ کر اس زمانے کے معروف اقتصادی ماہر جاہن مینارڈ کینز نے  پیشنگوئی کی تھی کہ آگے چل کر اکثر کاروباری ادارے اور کمپنیاں اپنے کارکنوں سے ہفتے میں محض 16 گھنٹے کام لیا کریں گی یعنی روزانہ کے اوقاتِ کار بڑھا کے، ہفتے میں کام کے دن کم کر دیے جائیں گے تا کہ کارکن تازہ دم اور چاق و چوبند رہیں۔آج ایک سو سال بعد مختلف ملکوں کے تجارتی اور خدماتی ادارے اور کمپنیاں جاہن مینارڈ کینز کی پیشنگوئی کے مطابق دفتری اوقاتِ کار کوازسرِ نو ایڈجسٹ کر رہے ہیں اور چھ اور پانچ دنوں پر محیط ورکنگ ویک کو سکیڑ کر چار دن تک محدود کرتی جا رہی ہیں۔اس سلسلے میں آسٹریلیا اور نیوزی لینڈکے بعد برطانیہ، اسکاٹ لینڈ، آئرلینڈ، سوئیڈن، ڈینمارک،میکسیکو اور کچھ آمریکی ریاستوں نے آمادگی ظاہر کی ہے کہ وہ دفتری کام کے حوالے سے ہفتے کو چار دن تک سکیڑنے پر غور کر سکتے ہیں۔امریکا میں فاسٹ فوڈ کی کئی چین ز اپنے ملازمین کو سہولت دینے کے چار دن کے ہفتے کی ابتدا کر چکی ہیں۔اس کے لیے مذکورہ بالا ملکوں میںٹریڈ یونین تنظیمیں زیادہ سرگرم ہیں، جن میںبرطانیہ کی ٹریڈ یونین کانگریس(ٹی یو سی)، آئرلینڈ کی فورسا،اسکاٹ لینڈ کی نیشنل پارٹی کے ساتھ ساتھ برطانیہ ہی کی سیاسی جماعت لیبر پارٹی بھی اس خیال سے اتفاق کر چکی ہیں۔ٹی یو سی (The Trades Union Congress) برطانیہ بھر کی ٹریڈ یونینز کی فیڈریشن ہے، جس نے حکومت سے مطالبہ کیا ہے کہ تجارتی اور خدمات کی فراہمی والے اداروں کو مجبور کیا جائے کہ وہ اپنی افرادی قوت کے ساتھ نئی ٹیکنالوجی سے استفادہ کریں تو ہفتے میں چار دن کام کا نظام لاگو کرناممکن ہو سکتا ہے۔یونینز کا موقف ہے کہ فوری طور پر ایسے اقدامات کیے جائیں کہ ملازموں کو چار دن کام  کرنے پر پانچ دن کی ادائیگی کرنے میں مدد کی جا سکے۔ ویلز میں ایک فرم کے اسٹاف کو پہلے ہی چار دن فی ہفتہ کام کر کے پوری تنخواہ مل رہی ہے۔ مغربی افریقہ کے ملک گیمبیا کی حکومت نے بھی سال بھر پہلے سرکاری دفاتر میں کام کرنے والے کارکنوں کے لیے چار دن پر مشتمل ہفتے کا اعلان کرکے، اس پر عمل درآمد شروع کیا ہوا ہے۔

میکسیکو میں ماضی میں نجی اور سرکاری دفاتر میں ہفتے میں ایک چھٹی ہوا کرتی تھی۔اب اس سے بھی دو قدم آگے بڑھا دیے گئے ہیں، جہاں ملک کے امیر ترین کاروباری شخصیت کارلس سلم نے اپنے ملازمین کو ہفتے میں تین چھٹیاں دینے کی منظوری دی ہے۔ کارلس سلم نے تجرباتی طور پر اپنی ٹیل میکس کمپنی میںگذشتہ ایک سال سے ملازمین کو ہفتہ وار تین چھٹیاں دے رکھی ہیں اور انھیں تنخواہ بھی پوری دی جا رہی ہے۔ اس کے ساتھ ملازمین کی ریٹائرمنٹ کی عمر میں اضافہ کر دیا گیا ہے۔اس نئے فیصلے کے متعلق کارلس سلم کا کہنا ہے:

 ’’میں آگے چل کر پورے میکسیکو میں پھیلی اپنی کمپنیوں اور اداروںمیں’تین دن کام کا ہفتہ‘ متعارف کروانا چاہتا ہوں۔ جب لوگ ہفتے میں تین دن کام اور چاردن چھٹی کریں گے تو اس فرق کو متوازن کرنے کے لیے ان کی ریٹائرمنٹ کی عمر میں مزید اضافہ کر دیا جائے گا‘‘۔

کارلس سلم لاطینی امریکا کی سب سے بڑی موبائل فون کمپنی امریکہ موول (América Móvil ) اور ٹیل میکس سمیت کئی کمپنیوں کا مالک ہے۔اس نے 2004ء سے ہفتے میں تین دن کام کے متعلق بات کرنا شروع کی تھی۔ اس کا موقف ہے کہ ہفتے میں چار چھٹیاں کرنے سے جہاں زیادہ سے زیادہ نوجوانوں کو نوکریوں کے مواقع ملیں گے، وہیں ریٹائرمنٹ کی عمر بڑھا دینے سے ان نئے نوجوانوں کو عمررسیدہ، تجربہ کار افراد کے تجربے سے مستفید ہونے کا موقع بھی ملے گا۔اس طرح سے ان کی صلاحیتوں میں نکھار آئے گا اور پیداوار کے معیار اور مقدار میں اضافہ ہو گا۔جب کارلس نے ٹیل میکس کے ملازمین کو تین دن چھٹیوں کی پیشکش دی تو کمپنی کے چالیس فیصد سٹاف نے اسے قبول کر لیا۔ یہ لوگ تب سے ہفتے میں چار دن آفس آتے ہیں اور تین چھٹیاں کرتے ہیں۔

کارلس کہتے ہیں:

’’کافی عرصے سے ورکنگ ویک اڑتالیس گھنٹے کا کیا جا چکا ہے لیکن میں سمجھتا ہوںکہ ہمیں ہفتے میں صرف تین دن کام کرنا چاہیے تاکہ بے روزگار لوگوں کو بھی روزگار مہیا ہو سکے ‘‘ ۔

گوتھنبرگ کے ٹویوٹا سنٹر نے تیرہ سال قبل یہ اقدام اٹھایا تھا۔ ادارے کی رپورٹ کے مطابق اس  کے بعد اس کے ملازمین کی دفتری اور نجی زندگیاں بہت آسان اور متوازن ہو چکی ہیں اور کمپنی کا منافع بھی بڑھ گیاہے ۔

اس سلسلے میںکارڈف میں قائم انڈی کیوب کے بانی مارک ہوپر کا کہنا ہے:

’’ گزشتہ 18 ماہ میں کام کے نئے انتظامات کی تبدیلی آسان نہیں تھی۔ ہم نے محسوس کیا کہ ہمارے پاس ایک موقع ہے کہ یہ ثابت کر سکیں کہ ہم پانچ دن فی ہفتہ کی طرح صرف چار دن کام کر کے بھی وہی پیداوار دینے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔اب کمپنی زیادہ پیداوار دے رہی ہے اور بزنس کو ویلز سے باہر بھی توسیع دی جا رہی ہے‘‘۔

آجر اور ملازمین دونوں ہی کام کے چار روزہ ہفتے سے فائدہ اٹھا سکتے ہیں۔اس وقت امریکیوں کے لیے معیاری کل وقتی ہفتہ، کام کے پانچ دن اور روزانہ آٹھ گھنٹے کام پر محیط ہے۔ جب کوئی ادارہ، کمپنی چار روزہ ہفتہ نافذ کرتی ہے تو پھر بھی کارکن 40 گھنٹے ہی کام کرتے ہیں لیکن انھیںروزانہ 10 گھنٹے کام کرنا پڑتا ہے۔کچھ کمپنیاں اور کارخانے اس نظام کو لاگو کر کے کارکنوں کو ان کی ترجیح کے مطابق مختلف دنوں میں کام پر بلاتی ہیں،اس لیے ضروری نہیں ہوتا کہ تمام کے تمام ملازمین مخصوص چار دنوں ہی میں آئیں۔ ملازمین کی خواہشات اورکاروبار کی ضروریات کی بنیاد پر فیصلہ کیا جاسکتاہے۔ امریکہ کے بیشتر حصوں میں ، اگر ملازم ایک ہفتے میں 40 گھنٹے سے زیادہ کام کرتا ہے تو وہ اوور ٹائم حاصل کرنے کا حقدار ہوجاتاہے۔ یوںپانچ دن میںآٹھ گھنٹے روزانہ کام کرنے والے ملازم کی تنخواہ ایک ایسے ملازم کی تنخواہ کے برابر ہوجاتی ہے جو چاردن میں دس گھنٹے روزانہ کام کرتا ہے۔ دس گھنٹے کام کرنے والے شخص کو لچکدار نظام کے مطابق مہینے میںمجموعی طور پردو ہفتوں کی چھٹی مل جاتی ہے۔

چار روزہ ہفتے کے فائدے اور نقصانات

چھوٹے ہفتے کے فوائد واضح ہیں، جس میں ملازمین چھٹیوں کے پورے تین دن ،ذاتی کام کاج، سیر و تفریح یا دیگر مقاصد کے لیے صرف کرنے کے لیے آزادہوتے ہیں۔اس کے علاوہ ہفتہ وار اضافی چھٹیوں کے باعث وہ کام کے دبائو اور تناؤ میں کم مبتلا ہوتے ہیں۔دوسری جانب تازہ دم ورک فورس کی وجہ سے ادارے کی پیداوار میں اضافہ ممکن ہوتا ہے۔ ماہرین یہ بھی کہتے ہیں کہ چار روزہ ہفتہ، ہر کاروباری ادارے، خاص طور پر کارخانوں اور مینیوفیکچرنگ شعبے کے لیے مفید نہیں ہوسکتامگر اس کے لیے یہ کیا جاسکتا ہے کہ ملازمین یا کارکنوں کو دو یا تین گروہوں میں تقسیم کر کے، انھیںمختلف دنوں میںکام پر بلایا جاسکتا ہے۔

کیاہر کاروباری ادارے کو چار روزہ ہفتہ نافذ کرنا چاہیے؟اس کا جواب اس کاروبار کی ضروریات ، ترجیحات اور اس کے ملازمین کی مرضی پر منحصر ہے۔لیکن اس سے پہلے کہ کمپنی کا شیڈول تبدیل کیا جائے، پہلے اس بات کو یقینی بنایاجائے کہ اس تبدیلی سے کاروبارپر مثبت اثرات ہونگے اورملازمین کو بھی آسانی میسر ہو گی۔امریکی ریاست یوٹاہ میں 2008 ء سے سرکاری ملازمین نے پیر سے جمعرات تک دس گھنٹے کام کرنا شروع کیا۔ جمعے کے روز تمام سرکاری دفاتر بند ہونے سے بجلی ، ہیٹنگ کے نظام ، ایئر کنڈیشنگ اور  گاڑیوں کے ایندھن کے اخراجات میں بچت ہورہی ہے۔مگر یوٹاہ کے گورنر گیری ہربرٹ نے 2011ء میں پانچ روزہ ہفتے کی قانون سازی کو ویٹو کر کے پرانا نظام الاوقات بحال کر دیا۔اس کے باوجود کئی امریکی ریاستوں نے دیہی علاقوں کے اسکولوں کا شیڈیول چار روزہ ہفتے میں تبدیل کردیاہے۔ وہاں اسکولوں،کالجوں کی ٹائمنگ میں روزانہ ایک گھنٹے کی توسیع بھی کر دی گئی ہے۔

 رومانیہ کی ایک آئی ٹی کمپنی نے  2016 ء میںہفتے اور اتوار کے ساتھ پیر کو بھی مستقل چھٹی کا دن قرار دیا۔اس طرح کام کے ہفتے کی طوالت میں 20 فیصد کمی کرنے کے نتیجے میں جمعے کا دن کام مکمل کرنے کے حوالے سے بہت زیادہ مثبت ہوگیا۔

سافٹ ویئر کمپنی مونوگراف کے سان فرانسسکو کے دفاتر میں بدھ کے دن کوپیار سے مڈویک اینڈ(Midweek End) کے نام سے جانا جاتا ہے۔تین سال پہلے کمپنی کے مالک مو امایا اور اس کے شریک بانیوں ایلیکس ڈکسن اور رابرٹ یوین نے جب اس کمپنی کی بنیاد رکھی تھی تو ان کا خیال تھا کہ ہفتے کے ساتوں دن کام ہونا چاہیے اور ایک بھی چھٹی نہیں کی جانا چاہیے۔ اس کے لیے انھوں نے ملازمین کی دو ٹیمیں بنا کر، ان کے مختلف دنوں میں کام پر آنے کے لیے شیڈیول طے کیا تھا لیکن جلد ہی انھیں اپنی غلطی کا احساس ہوگیا اور وہ چار روزہ ہفتے پر آگئے۔ یعنی جو مالکان صدیوں سے رائج ہفتے کی روایتی ایک چھٹی بھی کرنے کو تیار نہیں تھے، وہ تین چھٹیاں کرنے پر راضی ہوگئے۔انھوں نے بھی بدھ کے دن کو مڈ ویک بریک قرار دیا ہے۔

ہفتے میں تین دن کام کر کے سات دن کی دیہاڑیاں وصول کرنا کس کو برا لگے گا؟اس کے باوجود دنیا میںکام کرنے والا ہر آدمی اس سہولت کافائدہ اٹھانے کے لیے ابھی تیار نہیں ہے۔ حالاںکہ اس میں اور پانچ دن والے ہفتے میں کچھ فرق نہیں۔ مرّوِج پانچ روزہ ہفتے میں روزانہ 8گھنٹے کام ہوتا ہے اور ہفتے بھر کے گھنٹے40 بنتے ہیں۔روز کے اتنے ہی گھنٹے چار دن والے ہفتے میں بھی بنتے ہیںکیوں کہ اس میں روزانہ 10 گھنٹے کی ٹائمنگ ہوتی ہے۔اس لیے تکنیکی طور پر دونوں میں کوئی فرق نہیں البتہ ملازمین کو ایک اضافی چھٹی جو مل جاتی ہے، وہ ان کے لیے بہت ہی کام کی ہوتی ہے۔اس دن کو وہ کئی ذاتی کام نمٹانے ، خاندان کے ساتھ سیر و تفریح کرنے یا پھر فری لانس میں صرف کر کے کچھ اضافی کمائی کر سکتے ہیں۔ 

چھوٹے ہفتے کے اصل فوائد

چار دن کے ورک ویک سے متعلق کئی برسوں سے ریسرچ کی جا رہی ہے۔ اس کے فائدے اور نقصانات پر بحث بھی بہت پرانی ہے۔ سب سے بڑا فائدہ یہ بتایا جاتا ہے کہ اس سے پیداوار بڑھتی ہے اور ملازمین کسی قسم کے ذہنی دبائو اور تنائو سے بھی بچے رہتے ہیں۔دفتری ماحول کو بہتراور ریلیکس رکھنے کے لیے بھی یہ نظام بہت اچھا ہے۔اس سے دفتر ، کمپنی، کارخانے یا ادارے کے اخراجات بھی کم ہوجاتے ہیں۔ ہفتے میں تین دن اگر کوئی دفتر بند رہتا ہے تو ان دنوں میںوہاں بجلی، گیس، پانی کا استعمال نہیں ہوتا۔اسٹاف یا کارکنان کو لانے لے جانے کے لیے گاڑیوں کا استعمال نہیں ہوگا، جس سے ایندھن کی بھی بچت ہوگی۔

اس آئیڈیا پر ابتدا میں نیوزی لینڈ کی ایک مالیاتی فرم Perpetual Guardianمیں عمل کیاگیا،جس سے فرم کے منافع اور کلائنٹس میں بہت تیزی سے اضافہ ہوا ۔ اس کمپنیPerpetual Guardianکے مالک Andrew Barnesکہتے ہیں کہ شروع شروع میں ہمیں خوف تھا کہ اس سے کاروبار میں نقصان ہوگا مگر چند ماہ کے اندر ہی ہمارے اندیشے غلط ثابت ہوگئے اور نقصان کے بجائے نفع کی شرح بڑھنے لگی۔اینڈریو بتاتے ہیں:

’’جب دو ہفتے کی ابتدائی مشق کے نتائج حوصلہ افزا نکلے تو ہم نے یہی نظام اپنے مزید نصف درجن دفتروں میں بھی متعارف کرادیا،جن میں سیکڑوں ملازمین کام کرتے ہیں۔ان سب کو موجودہ تنخواہ کے ساتھ ہفتے میںایک اضافی چھٹی ملنے لگی تو ان کی کارکردگی اور کلائنٹس کے ساتھ روّیہ بہتر سے بہترین ہوگیا اور دفترکے ماحول پر بھی خوشگوار اثرات نظر آنے لگے۔یہ ہمارے وہی ملازمین تھے جو پہلے بیزار بیزار رہتے تھے۔ جب انھیں پہلی بار بتایاگیا کہ کمپنی نے ہفتے میں دو کے بجائے تین چھٹیاں کرنے کا فیصلہ کیا ہے تو بیشتر کارکنوں نے اس پر تحفظات اور خدشات کا اظہار کیا کہ ہم لوگ پہلے ہی کسٹمرز کی توقعات پر پورے اترنے میں اور ان کو مناسب وقت، توجہ دے کر مطمئن کرنے میںکچھ زیادہ کامیاب نہیں ہورہے ہیں۔جب اس صورتحال میں جب ہفتے کا ایک دن اور دفتر بند رہے گا تو کمپنی کا بھٹہ بیٹھ جائے گا۔مگر اس نظام کو متعارف کرانے کے دو ماہ کے اندر سب خدشات ہوا ہوگئے اور آج ہم پہلے سے زیادہ کامیاب ہیں اور ہمارے کارکنان بھی پہلے سے زیادہ خوش، مطمئن اور ریلیکس ہیںکیوں کہ ان کی زندگی متوازن ہوچکی ہے۔وہ گھر اور دوستوں کو زیادہ وقت دے رہے ہیں‘‘۔

نیوزی لینڈ کی آک لینڈ یونیورسٹی آف ٹیکنالوجی میں چار دن کے ورک ویک پر وجیکٹ پر ریسرچ کرنے والے پروفیسرJarrod Haarکا کہنا ہے کہ اب کمپنی کے کارکنان اپنے گھر اوربچوں کے علاوہ اپنے والدین، بہن بھائیوں کے ساتھ بھی وقت گذارتے ہیں ۔اس طرح ان کی سماجی زندگی بہتر ہوگئی ہے۔ میرا بیٹا بھی اس طرح کے ایک ادارے میں کام کرتا ہے، جو ہفتے میں تین دن چھٹی دینے لگا ہے۔ پہلے میرا بیٹا ہمارے ہاں مہینوں بعد کبھی چکر لگاتا تھا۔ اب وہ ہر ہفتے آتا ہے اور میرے ساتھ پارک میں واک کرنے بھی جاتا ہے‘‘۔

پروفیسرJarrod Haarکے ساتھ اس ریسرچ پوجیکٹ میںDr. Helen Delaneyبھی شامل تھے۔

مانچسٹر برطانیہ میں کام کرنے والی فرم Qui Recruitmentکی ڈائرکٹر لائیشا ہومز چار دن کے کام کے عیوض پانچ دن کی تنخواہ دینے کے معاملے پر کہتی ہیں:

’’یہ نظام کمپنیوں اور ان کے ملازمین کے لیے یکساں مفید ثابت ہو رہا ہے۔یہ نظام ملازمین فراہم کرنے والی کمپنیوں کے لیے بھی نفع بخش ثابت ہورہا ہے کہ وہ بیروزگاروں کو ملازمت کی شرائط میںہفتے میں چار دن کام کرنے اور پانچ دن کا معاوضہ وصول کرنے کی ترغیب دے کر مائل کرتی ہیں‘‘۔

کیتھرین اولیور دو کمپنیوں Bluebell Partnershipاور Parents@Skyکی بانی ہیں۔ان کا خیال ہے:

’’چھوٹا ہفتہ کئی طرح سے آجر اور ملازم، دونوں کے لیے فائدہ مند ثابت ہوا ہے۔ملازم کو اس نظام میں پتا ہوتا ہے کہ اس کے پاس ہفتے میں صرف چار دن ہیں اور اسے انھی چار دنوں میں نہ صرف کام نمٹالینا ہے بلکہ اچھا کام کر کے اپنے کلائنٹس اور باس کو بھی خوش کرنا ہے۔اس کے لیے وہ پہلے سے کام کی ترجیحات طے کرلیتا ہے اور انھی کے تحت کام مکمل کرتا ہے۔ اس کے بعد ہی اسے اضافی چھٹی یعنی تیسرے دن کی تعطیل انجوائے کرنے کا حق ملتا ہے۔چار دن کام کرنے والے کارکنان کا مقابلہ پانچ اور چھ دن کام کرنے والے ’فل ٹائمرز‘سے ہوتا ہے اور اِنھیں اُن کے مقابلے میں اپنی اہلیت اور تیز  رفتار کارکردگی ثابت کرنا پڑتی ہے۔اس لیے ہم کہہ سکتے ہیں کہ جو ادارے چار دن والا ہفتہ نافذ کر رہے ہیں، انھیں مارکیٹ سے نہایت باصلاحیت اور برق رفتار کارکن ہی منتخب کرنا پڑتے ہیں‘‘۔

برطانیہ میں کارکنوں کے سرگرم اوقاتِ کار سے متعلق کیے گئے ایک سروے میں بتایا گیا ہے کہ برطانوی دفتری ملازمین دن بھر میں صرف دو گھنٹے اور 53 منٹ تک شوق سے کام کر پاتے ہیںاور سنجیدگی سے پیداواری ہدف کی تکمیل کے لیے سرگرم رہتے ہیں۔اس مختصر وقت کے دوران ملازمین اپنی ٹیبل یا میز پر کام میں منہمک رہتے ہیںاور وہ ڈسٹرب کیا جانا پسند نہیں کرتے۔ اس کے لیے وہ اپنے ڈیسک یا ورک ایریا میں چھوٹے تنبیہی فلیگ بھی آویزاں کیے رکھتے ہیں جو اس بات کا اشارہ ہوتا ہے کہ انھیں کام کے دوران غیر ضروری طور پر مخاطب یا ڈسٹرب نہ کیا جائے۔چار روزہ ہفتے کے دوران ملازمین انٹرنیٹ چیٹنگ یا سوشل میڈیا کا ذاتی استعمال بھی نہ کرنے کے برابر کرنے لگے ہیں۔ یعنی ان کا پورا دھیان دفتر کے کام میں لگا رہتا ہے۔ان چار دنوں میں ضروری میٹنگوں کو بھی ممکنہ حد تک مختصر رکھنے اور کام کی باتوں تک محدود رکھنے کی کوشش کی جاتی ہے۔یا پھر روایتی لنچ بریک کے دوران ہی آپس کی میٹنگ نمٹا لی جاتی ہے۔ یہ سب کارکنان اپنی مرضی سے کرتے ہیں تا کہ کام کو بروقت مکمل کیا جاسکے تاکہ چھٹی انجوائے کرنے کا جواز پیدا ہوسکے۔اس ریسرچ کا ایک حصہ کئی معروف ماہرینِِ نفسیات سے مکمل کروایا گیا تھا، جن کی رپورٹ سے ظاہر ہوتا ہے کہ چار روزہ ہفتے کے نفاذ کے بعد ملازمین کا دفتر میں ساتھیوں اور کلائنٹس کے ساتھ روّیہ 75فیصد بہتر ہوا ہے جو کہ پہلے 50فیصد تھا۔ اس کے علاوہ کام کے دبائو میں7فیصد کمی آئی ہے۔ 

جن اداروں اور کمپنیوں نے چار دن کے ہفتہ نافذ کیا ہوا ہے، اب دوسری کثیرالقومی کمپنیاں ان کے تجربے سے فائدہ اٹھاتے ہوئے اپنے ہیومن ریسورسز شعبے کے ماہرین کو ان سے تربیت دلوا رہی ہیں تاکہ اپنے کارکنوں کے لیے بھی وہی نظام الاوقات متعارف کروسکیں۔ ان میںWellcome Trust U.Kبھی ہے، جہاں 8سو سے زیادہ ملازم کام کرتے ہیں۔ اس کمپنی نے تجرباتی بنیادوں پر چار دن کا ہفتہ شروع کروا دیا ہے۔اس کمپنی کے سربراہ سڈ لقمان کا کہنا ہے کہ اگر ہمارے ملک میں معیشت اور اقتصادیات کے حوالے سے بہادرانہ فیصلے لینے کی روایت موجود ہوتی تو میں سمجھتا ہوں کہ یہاں نجی شعبے کی کمپنیوںسے پہلے یہ کام سرکاری اداروں میںکردیا جاتااور ہفتے میں چار دن کام ، تین دن چھٹی ہوتی اور پھر اس تبدیلی کے ثمرات سمیٹے جاتے‘‘۔

یہ آئیڈیا جیسا کہ پہلے ہم کہہ چکے ہیں کہ بیسویں صدی کے تیسرے عشرے میں سامنے آ یا تھا مگر اس وقت اس کے نفاذ میں حائل رکاوٹیں دور نہیں ہوسکی تھیں۔ ربع صدی بعد1956ء میں امریکی نائب صدر رچرڈ نکسن نے بھی یہ پیشنگوئی کی تھی کہ وہ وقت دور نہیں، جب دفتروں میںہفتے میںچار دن کام اور تین دن چھٹی ہوا کرے گی۔اس کے باوجود’ وہ وقت‘ دور ہی رہا اور بیسویں صدی کے آخری برسوں یعنی 1998ء میں فرانس نے اپنے قوانین میں ترمیم کر کے دفتری اورقات کو 39گھنٹوں سے کم کر کے 35 گھنٹے فی ہفتہ کردیا اور قرار دیا کہ اگر کوئی ملازم اس سے اضافی وقت کام کرتا ہے تو اسے اوور ٹائم دیا جائے گا۔

اس کے بعد برطانیہ کے معروف بزنس مین رچرڈ برینسن نے کہا کہ آخریہ کیوں نہیں ہوسکتا کہ ملازمین کم وقت کام کر کے بھی اچھے نتائج دے سکیں اور پورے ہفتے کی دیہاڑیاںوصول کر کے، بقیہ وقت اپنے کنبے کے ساتھ سیر و تفریح میں گذاریں۔رچرڈ برینسن نے اپنے بلاگ میں مزید لکھا تھاکہ میں تو سمجھتا ہوں کہ ہمیں ہر جگہ چار دن کے ورک ویک کی حمایت کرتے ہوئے، اسے لاگو کرنے کے اقدامات اٹھانا چاہییں۔اس سے ہر سطح پر بہتری آئے گی۔

ان کے علاوہ دنیا کے درجنوں کامیاب سی ای اوز نے بھی اس کی حمایت کی ہے ۔

معرف بزنس Two Guys Creativeکے سی ای او Stephen Titchener کہتے ہیں:

’’اس نظام سے دفتری اور نجی زندگی میں مثالی توازن قائم ہوتا ہے۔۔۔ورنہ ہر ملازم کو نجی زندگی میں آئے دن یہ سننے کو ملتاہے کہ’ تم تو دفتر ہی کے ہو کر رہ گئے ہو!‘۔تین چھٹیاں ایک اچھے کارکن کو مزید اچھا کام کرنے اور بہتر کارکردگی کا مظاہرہ کرنے کی ترغیب دیتی ہیں‘‘۔

ایک اور کامیاب بزنس پرسن کیٹی ہنری جوArt in Officesکی ڈائرکٹر ہیں، وہ کہتی ہیں:

’’میں کچھ عرصہ پہلے اپنی نجی زندگی کے معاملات میں اتنی الجھی رہتی تھی کہ مجھے دفتر میں اچھی کارکردگی دکھانے کا موقع ہی نہیں ملتا تھا۔ ایک جانب مجھے اپنے بیمار والدین کی دیکھ بھال کرنا پڑتی تھی، دوسری طرف مجھے اپنے نوزائیدہ بیٹے کو اور شوہر کو دیکھنا پڑتا تھا۔اس صورتحال میں جب چار دن کے ہفتے کا آئیڈیا ہماری کمپنی میں تجرباتی طور پر اختیار کیاگیا تو مجھے بہت سکون ہوگیا۔ اس سے اندازہ لگائیں کہ  تین دن کی ہفتہ وار چھٹیوں میں ،میں گھر کے سارے کام نمٹا کر تازہ دم دفتر پہنچتی تھی اور پھر میری کارکردگی کا معیار یہاں تک پہنچا کہ آج میں اسی کمپنی کی سی ای او ہوں۔۔۔بھلا مجھے اور کیا چاہیے؟۔اس لیے اگر آپ کو بھی کم وقت میں معیاری کام چاہیے تو اسٹاف کو چھٹیاں اور سہولیات دینے میں بخل سے کام نہ لیں‘‘۔ایک اور سی ای او روشیل وائیٹ کی پی آر ایجنسی نے اسی سال چار دن کا ورک ویک شروع کیا ہے۔وہ کہتی ہیں:

’’اس سے ہمارے ہاں صرف وقت ہی کو پر نہیں لگ گئے بلکہ یہاں کام کرنے والے ہر فرد کو بھی جیسے پر لگ چکے ہیں اور وہ کام کرتے ہوئے اُڑتا پھرتا ہے۔گذشتہ سال تک ہم دیکھتے تھے کہ ہمارے ہاں پیر ،منگل اور بدھ کے تین دن ہی پیداوار کے لحاظ سے بہتر ہوتے تھے۔ہم سب ہفتے کی ابتدا پر ہی اپنی توجہ مرکوز رکھتے تھے۔ اس لیے پھر ہم نے سوچا کہ کیوں نا ہفتے کے ہر دوسرے دن کو پہلا دن بنا کر کام کیا جائے۔دو دن کام، ایک دن چھٹی۔۔۔پھر دو دن کام اور دو دن چھٹی۔اس سسٹم سے بڑے اچھے کاروباری نتائج ملے ہیں‘‘۔

اجیت نَولکھادو کمپنیوں Evercoach اورMindvalleyکے بانی اور سربراہ ہیں۔ان کا کہنا ہے کہ وہ جب سے عملی زندگی میں آئے ہیں، تب سے مقدار پر معیار کو ہمیشہ ترجیح دیتے آئے ہیں:

’’جب وقت کم اور مقابلہ سخت ہو تو پھر آپ کے پاس ایک ہی optionرہ جاتا ہے کہ اپنی تمام تر صلاحیتوں کو برق رفتاری سے استعمال کرتے چلے جائیں اور اپنے اسٹاف کو بہتر سے بہتر سہولتیں، زیادہ چھٹیاں دے کر ان سے بھی ایسا ہی کام لیا جائے۔ چار دن کے ہفتے کے تصّور کے پیچھے جہاںوقت کے حوالے سے لچک دکھانے کا معاملہ ہے، وہاں وقت کی قدر اور اس کے ہر لمحے کے بہترین استعمال کی شرط بھی ہے۔آپ کی کامیابی کے لیے یہ ایک بات ہی کافی ہے‘‘۔

مڈ ویک بریک یا بدھ کی چھٹی

چار دن کا م کے نظام کے تحت ہفتے کودو، دو دنوںمیں تقسیم کیا جارہا ہے ۔یعنی کام کے یہ چار دن مسلسل نہیں ہیں،ان کے درمیان ایک چھٹی ہوتی ہے۔ جیسے پیر منگل ورکنگ ڈیز ہوتے ہیں اور بدھ کی تعطیل ہوتی ہے۔ اس کے بعد جمعرات اور جمعہ کام کے دن ہونگے اور ہفتہ، اتوار معمول کے مطابق چھٹی کے دن ہوتے ہیں۔