14سال پیشتر کا 8اکتوبر اور اس سے جڑی دلخراش یادیں ہر برس اکتوبر کے مہینے میں مجھے یاد آتی ہیں اور اس برس تو کشمیر کی وادی اور اس کے کچھ شہر پھر اس قدرتی آفات کے ہاتھوں اجڑ چکے ہیں۔ اس سے بڑا المیہ کیا ہو گا کہ 14برس پیشتر آنے والے قیامت خیز زلزلے سے جو تباہی ہوئی، جو انفراسٹرکچر زمین بوس ہوا، جو عمارتیں منہدم ہوئیں، ان میں کچھ تو ابھی بھی مکمل بحالی کے مرحلے سے نہیں گزریں،ایک طرف ایرا پر فنڈز کی سنگین کرپشن کے الزامات ہیں تو دوسری طرف تازہ ترین الزامات کی پٹاری برطانیہ کے ایک جریدے ڈیلی میل نے پنجاب کے سابق وزیر اعلیٰ شہباز شریف پر الزامات لگا کر کھولی۔ 8اکتوبر 2005ء کے قیامت خیز زلزلے کے بعد متاثرین کی بحالی اور زمین بوس ہو جانے والی عمارتوں اور گھروں کے لیے پوری دنیا سے مثالی امداد آئی تھی۔ خادم اعلیٰ پر الزام ہے کہ برطانیہ سے ملنے والی 500ملین پونڈ کی امدادی رقم میں سے منی لانڈرنگ کی گئی یہ امدادی رقم پنجاب کے وزیر اعلیٰ کے پاس آئی تھی جو زلزلہ متاثرین کی بحالی کے لیے تھی۔ اس سے بڑی افسوسناک صورت حال کیا ہو گی کہ پاکستان میں بددیانتی اور کرپشن اس نچلی سطح پر پہنچ چکی ہے کہ اجڑے ہوئے خاندانوں اور قدرتی آفت کے المیے سے دوچار زلزلہ متاثرین کے امدادی پیسوں پر بھی شب خون مارا گیا۔ یہی وجہ ہے کہ بہت سے منہدم سکول اور سڑکیں صرف فائلوں میں ہی تعمیر ہو سکے اور اب 14برس بعد زلزلے نے ایک بار پھر انہی شہروں میں تباہی مچا دی ہے۔ اگرچہ اس بار قدرتی آفت اور اس سے ہونے والے نقصان کی شدت 8اکتوبر کے زلزلے سے بہت کم ہے میڈیا میں بھی اس کی فالو اپ خبریں زیادہ نہیں آئیں لیکن 7اکتوبر کو ارشاد محمود کے کالم سے اندازہ ہوا کہ جو خبریں میڈیا کے ذریعے ہم تک پہنچی ہیں اصل نقصان تو اس سے کہیں زیادہ ہوا ہے۔جاتلاں کا خوب صورت گائوں اجڑ چکا ہے۔ بڑے چائو اور محنت سے بنائے گئے گھر اگرچہ زمیں بوس نہیں ہوئے لیکن ان میں ایسی خوفناک دراڑیں پڑ چکی ہیں کہ رہنے کے قابل نہیں رہے۔ کچھ خستہ حال مکان تو مکمل ڈھے چکے۔ اب لوگ خیموں میں رہنے پر مجبور ہیں۔ سردی کی آمد آمد ہے۔ آسمان تلے خیموں میں رہنا بہت تکلیف دہ ہو گا۔ بچوں بوڑھوں اور کمزور افراد کو نمونیا ہونے اور دیگر بیماریاں لاحق ہونے کا خدشہ ہو گا۔ 8اکتوبر 2005کا زلزلہ جب آیا تھا تو لاکھوں لوگ بے گھر ہو کر کھلے آسمان تلے رہنے پر مجبور ہوئے تھے۔ سردیاں بھی اس برس بہت شدت سے آئی تھیں۔ مجھے آج بھی وہ جذبہ یاد ہے کہ گھر گھر سے گرم کپڑے سویٹر، کمبل اور رضائیاں جمع کر کے متاثرہ علاقوں تک بھیجنے کا سلسلہ شروع ہو گیا، وہ ایک عجیب ہی وقت تھا۔ لاکھوں لوگ بے گھر ہوئے، ہزاروں موت کی وادی میں اتر گئے۔ ہنستے بستے شہر صفحۂ ہستی سے مٹ گئے اور ہم وطنوں پر ٹوٹنے والی اس قیامت صغریٰ کا دُکھ ملک کا ہر بچہ اور بڑا اپنے دل میں محسوس کر رہا تھا۔ درد کی ایک لڑی میں پروئے ہوئے پاکستانی ایک قوم بن گئے تھے، ہر شخص متاثرین زلزلہ کی مدد پر آمادہ اپنی زندگی کی ذاتی خرابیوں اور تکلیفوں کو بھول چکا تھا۔ پہلی عید ایسی آئی تھی کہ بازار خالی تھے اور کوئی خریدار آ نکلتا تو زلزلہ متاثرین کے لیے خریداری کرتا۔ لیکن افسوس! قوم تو ایک ہوئی مگر اہل اختیار کے دلوں پر وہی بددیانتی حکمرانی کرتی رہی۔ دنیا بھر سے آنے والی بے مثال امداد پوری دیانت کے ساتھ متاثرین کو آباد کر کے بحال کرنے اور اجڑی بستیاں تعمیر کرنے پر نہیں لگائی گئی۔ 24ستمبر 2015ء کے زلزلے کے بعد اب ایک بار پھر جاتلاں کا اجڑا ہواگائوں تعمیر نو کا منتظر ہے۔ اپنے منہدم گھروں کے سامنے خیموں میں بیٹھے متاثرین کی تکلیف کا اندازہ ہم لوگ نہیں لگا سکتے۔ 8اکتوبر 2005ء کے المناک زلزلے کے پس منظر میں اس وقت ایک نظم کہی تھی’’میرے چارہ گر‘‘ آج اتنے برس بعد محسوس ہوتا ہے کہ یہ ابھی بھی Relevantہے۔ ایک بار پھر اجڑی بستیاں چارہ گروں کو آواز دے رہی ہیں۔ ’’اے شریک درد ٹھہر ذرا! میرے غم کدے میں ترے قدم نئی زندگی کی علامتیں! میرے زخم زخم وجود پر یہ جو لمس ہے ترے ہاتھ کا نئے خواب کی ہیں بشارتیں! یہ بجا سہی،مگر اب تلک نہیں رُک سکا میرے غم کا ایک سلسلہ ذرا دِل کی آنکھ سے دیکھ تو ابھی میرے شہرِ تباہ میں وہی رزم گاہ جمی ہوئی ابھی مرگ و زیست ہے دو بُدو ابھی غم کی کہر ہے چار سو ابھی کم نصیبی کی یخ ہوا یہاں سر پٹختی ہے کوبہ کو وہ جو بے گھری کا عذاب تھا ابھی دیکھ شہرِ تباہ میں ہے جما ہوا وہ جو ساعتیں تھیں قیامتوں میں ڈھلی ہوئی انہی ساعتوں کے ملال کا کوئی ایک ماتمی اشک ہے سردشتِ چشم رُکا ہوا اے شریک درد، ذا دِل کی آنکھ سے دیکھ تو ابھی بے کفن سے وجود پر کسی خشک آنکھ کا بین ہے میرے شہر میں کہ فرات غم کے کنار پر، میرا شہر جان اجاڑتی ابھی کربلا کی وہ شام ہے میرے شہر میں وہ جو ایک صبح تباہ میں تھا سبک ہوا ابھی خواب کا وہی دام ہے میرے شہر میں وہ جو موت نے مری لوحِ جاں پہ رقم کیا وہی رنج و حزن مدام ہے میرے شہر میں اے شریک درد! میرے بین سے ابھی گونج بھرتی ہوا ئیں ہیں میری سسکیوں کو پناہ دے مری بے نوائی کو چاہیے کسی خوش سماعت کا حوصلہ! مجھے آسرے کی امان دے…! مجھے اپنے خیمۂ جاں میں رکھ وہ جو میرے درد کو بانٹنے کا تھا سلسلہ اسے اپنی صبح و مسامیں رکھ، اسے طول دے اے شریک درد ٹھہر ذرا…! میرے چارہ گر تو پلٹ ذرا…! اس وقت اندازہ کہاں تھا کہ 14برس بعد بھی کچھ اجڑی ہوئی بستیوں کے نشاں، ادھڑے ہوئے راستے اور منہدم عمارتوں کے نشاں کسی چارہ گر کو آواز دے رہے ہوں گے۔ اس وقت درد کا احساس بھی تھا، جذبہ تعمیر بھی تھا، امداد بھی بے پناہ تھی مگر افسوس کہ اجڑی بستیوں کو دیانتدار چارہ گر میسر نہ آئے۔ دیانت اور درد دل نکال دیں تو چارہ گر، ہوس زدہ طفیلیے کا روپ دھار لیتے ہیںاور یہی میرے وطن کا حقیقی المیہ ہے۔