روئے سخن نہیں توسخن کا جواز کیا بن تیرے زندگی کے نشیب و فراز کیا یہ شہر سنگ ہے یہاں ٹوٹیں گے آئینے اب سوچتے ہیں بیٹھ کے آئینہ ساز کیا یہ تو آپ بھی جانتے ہیں کہ جہاں فراز ہو گا وہاں نشیب بھی ہو گا۔ ثمینہ راجہ نے مجھ سے پوچھا تھا کہ یہ نشب کس کا نام ہے ! وہ اب پوچھتی تو میں بتا دیتا۔ایک بیگم سرور بھی ہوا کرتی تھیں جن کے ہاں فیض بھی قیام کیا کرتے تھے فیض صاحب نے ایک مصرع کہا تھا فراز اوج پہ پہنچا تو سرفراز ہوا۔ بات سے بات نکلی تو مجھے یاد آیا کہ اینکر کی فرمائش پر شبلی فراز صاحب نے اپنے والد محترم فراز کا شعر سنایا تو وہ بے وزن کر دیا اپنی طرف سے ایک ’’کہ‘‘ درمیان میں لگا دیا۔ شاعر کے دل پہ تو یہ تیر کی طرح لگتا ہے۔غالب نے اپنی اسیری کی شکایت کی تو کہا روزانہ پانچ کوڑے لگتے تھے پوچھا گیا کہ کیسے؟ غالب نے کہا‘وہاں جیل میں پولیس کا ایک سپاہی روزانہ اپنے پانچ شعر سناتا تھا۔ خیر درست شعر آپ پڑھ لیں: یہی کہا تھا میری آنکھ دیکھ سکتی ہے تو مجھ پہ ٹوٹ پڑا سارا شہر نابینا بہرحال شعر نازک چیز ہے مجھے تو بعض نام بھی انتہائی غیر شاعرانہ لگتے ہیں اور بعض جسم بھی ایسے ہی بے ہیت ہوتے ہیں۔ بعض باتیں بھی مثلاً ابھی میں ایک کلپ دیکھ رہا تھا جس میں ایک چھوٹا بچہ بڑی سی گاڑی چلا رہا تھا اور میڈیا اس پر چیختا رہا۔ یہاں تک تو ٹھیک تھا مگر انتہائی حیرت اس وقت ہوئی جب عمل آیا کہ اپنے کام سے کام رکھیں‘ یہ کوئی شاہراہ نہیں میری زمین‘میری گاڑی اور میری زمین کی سڑک۔ اتفاق یہ ہوا کہ اس پر سابقہ آئی جی ٹریفک کی انتہائی تہذیب یافتہ باتیں ہم نے سنیں۔ وہ کہہ رہے تھے کہ میری میری والی بات تکبرہے جو اچھی بات نہیں۔ دوسری بات یہ کہ گاڑی لائسنس ہونے پر چلائی جاتی ہے اور اتنے چھوٹے بچے کا لائسنس نہیں بن سکتا۔ میں سوچتا رہا کہ کوئی کراچی میں اپنی گاڑی میں کتے لے کر گھومتا نظر آتا ہے۔ یہ صفدر حسین جعفری کی شاعری کی طرح ہیں: میں نے کہا شمالی کی جانب نہ جائیو اس نے کہا شمال کو چلنا ضرور ہے کس قدر مضحکہ خیز بات ہے کہ حکومت کسی بھی طرح کارکردگی دکھانے میں ناکام رہی‘ہاں آپ مجھے یہ کہہ کر لاجواب کر سکتے ہیں کہ بری کارکردگی بھی تو کارکردگی ہوتی ہے۔روزانہ یہ بیان دینا نہیں بھولتے کہ اپوزیشن کی ہوا نکل چکی پی ڈی ایم دفن ہو چکی اور اسی طرح کی او کبھی اپنی ہوا کے بارے میں حکومت نہیں سوچتی کہ وہ کتنی رہ گئی ہے۔مرے کو مارے شاہ مدار اوپر سے کورونا نے تباہی مچا دی ہے اللہ کے عذاب پر یقین پختہ ہونے لگا ہے۔سچ کہتا ہوں کہ ہمیں اپنے آپ کو تبدیل کرنے کی ضرورت ہے۔ خوف کی ہائپ بناکر لوگوں کا دھیان بانٹا جا رہا ہے مسلسل بربادی اور ابتری لوگوں پر کھلنے لگی یعنی پریشان کرنے لگی تو وزارت خزانہ تبدیل کر کے بتایا گیا کہ حکومت جاگ رہی ہے۔ندیم بابر کو الگ کر دیا گیا۔ مگر ٹھہریے یہ آپ کیا کہہ رہے ہیں کہ حفیظ شیخ نے مہنگائی کی اور پرفارم نہیں کیا اور اس پر آپ کی مستعدی کہ انہیں فارغ کر دیا نہیں جناب حفیظ شیخ بہت سیانے آدمی ہیں‘ انہوں نے جو کرنا تھا وہ کر گئے وہ انسٹرکشن کے مطابق اپنا فرض نبھا چکے اب دوسرے کو باری بھی تو دینا ضروری تھا۔ حفیظ شیخ نے مہنگائی ۔میں نے اس حوالے سے پورا پروگرام سنا تو یہ سٹیٹ بنک والا معاملہ کچھ زیادہ ہی خطرناک ہے۔ آئی ایم ایف کے انڈر سارے کام ہونگے۔ اس ادارے کا حساب کتاب بھی کچھ نہیں۔ یہ پنے بندوں کا فیصلہ بھی خود ہی کرے گیے۔لوگوں کو گمراہ کیا جا رہا ہے کہ اس میں بارہ بندے حکومت کے بیٹھیں گے ان کا کام یس سر کے سوا کچھ نہیں ہو گا: کتنی خوش اسلوبیوں سے اس نے کاٹا یہ سفر پائوں پڑنے والے ہی نے آخر اپنا سر لیا سچی بات ہے کہ ملک کے حالات بگڑتے نظر آ رہے ہیں۔سٹیٹ بک کی سپردگی ایک ایسا معاملہ ہے جس پر ساری اپوزیشن اکھٹی ہو سکتی ہے جماعت اسلامی کے پاس بھی یہی ایشو آیا ہے۔سراج الحق نے انتباہ کیا ہے کہ اگر سٹیٹ بنک والا آرڈیننس واپس نہ ہوا تو ’’گو آئی ایم ایف گو‘‘ تحریک چلے گی اور جو آپ جانتے ہیں کہ ڈوبتے کو تنکے کا سہارا پی ڈی ایم جماعت اسلامی کے ساتھ آن ملے گیے قومی مسئلہ تو یہ ہے عوام بھی اس کا شعور رکھتے ہیں ۔ یقینا عمران خان سوچتے بھی ہونگے تو پھر انہیں کسی ایسے ہی لمحے میں فیصلہ کرنا ہو گا آئی ایم ایف سے کیسے نمٹا جائے ،خود سپردگی تو سب کچھ اجاڑ کر رکھ دے گی۔صوفی تبسم کے بقول: ایسا نہ ہو کہ درد بنے درد لادوا ایسا نہ ہو کہ تم بھی مداوا نہ کر سکو آخر میں اپنے یار دیرینہ ڈاکٹر ضیاء الحسن کے بیٹے سراج الحسن کی شادی کا تذکرہ کہ یہ ایک خوشگوار تقریب تھی یہ ایک الگ بحث کہ کورونا نے لاہور کی بہار میں ایک اداسی سی بھر دی ہے بہرحال ہم ایک پانچ سٹار ہوٹل میں گئے۔وہاں ہمارے شاعر ادیب بھی تو آئے ہوئے تھے ایک تو ڈاکٹر ضیا الحسن اور پھر ان کی بیگم ناموور شاعرہ حمیدہ شاہین بھی تو تھیں۔ سلمیٰ اعوان ‘ عباس تابش‘ اشفاق ورک ‘ خالد شریف‘ شاہین عباس‘ امجد طفیل اور دوسرے کئی دوست نظر پڑے دیکھا دیکھی سب نے اپنے ماسک اتار دیے۔ کیا کرتے کب تک ایک دوسرے کا منہ نہ دیکھتے سیاست پر گفتگو ہوتی رہی اور پھر ادب اور شاعری پر مگر کھانا کھلنے تک۔ آخر میں حمیدہ شاہین کے دو پیارے سے شعر: گھر نے دیکھ لیا آتے پردیسی کو کھل اٹھے دروازے تالے پھول ہوئے چوک میں اک تصویر لگائی پھولوں کی دیکھا دیکھی چاروں رستے پھول ہوئے