طویل خشک سالی اور شدید قحط کے باعث چاغی میں سنگین غذائی قلت سے مجموعی طور پر 35 ہزار افراد متاثر ہوئے ہیں۔ بلوچستان کے 20 اضلاع تاحال خشک سالی کی لپیٹ میں ہیں۔ بچے‘ نوجوان‘ بوڑھے اور جانور تک اس سے متاثر ہو چکے ہیں۔ چاغی کے نواحی علاقوں میں زمین خشک‘ کنوئوں سے پانی غائب‘ جانوروں کے چارے نایاب ہو چکے ہیں۔ اس قدر حالات گھمبیر ہو چکے ہیں کہ پرندے بھی ان علاقوں سے ہجرت کر چکے ہیں۔ جس تحصیل میں 36 ہزار ایکڑ زمین بنجر ہو‘ وہاں انسانی زندگی کی بقا کیسے ممکن ہو سکتی ہے؟ حکومت فلاحی تنظیموں کے تعاون سے ان علاقوں میں پانی کی کمی پوری کرے۔ گہرائی میں کنویں کھودے اور عرب امارات کے تعاون سے مصنوعی بارشوں کا انتظام کیا جائے۔ بلوچستان حکومت کے پاس بھی وسائل کی کمی نہیں ہے۔ وفاق بھی بلوچستان کی مالی امداد کرے تاکہ قحط سالی اور خشک سالی پر قابو پانا ممکن ہو سکے۔ بلوچستان میں مذہبی تنظیمیں نماز استقاء کی طرف لوگوں کو راغب کریں۔ پنجاب‘ خیبرپختونخوا اور سندھ کے عوام بھی آگے بڑھیں اور اپنے بلوچ بھائیوں کی اس مشکل گھڑی میں مدد کریں اور بلوچستان کی حالت زار دیکھ کر اپنے صوبوں میں ڈیم بنانے کی مہم چلائیں۔ سیاستدان تو قحط سالی میں بیرون ملک بھاگ جاتے ہیں مرنے کے لیے صرف عوام ہی ہوتے ہیں‘ اس لیے ڈیم کی مخالفت کرنے والے سیاستدانوں کو ہر تقریب میں پانی کی قلت پر آڑے ہاتھوں لیا جائے تاکہ آنے والے وقت میں ہم پانی کی قلت پر قابو پا سکیں۔