مجھ کو میری ہی اداسی سے نکالے کوئی

میں محبت ہوں محبت کو بچا لے کوئی

میں سمندر ہوں مری تہہ میں صدف ہے شاید

موج در موج مجھے آ کے اچھا لے کوئی

آج تو ہم نے سیا ست پربات نہیں کرنی۔ آج نفرت نہیں بلکہ محبت کی بات ہو گی۔ وجہ یہ کہ میرے سامنے ایک ایسی انوکھی اور دلچسپ خبر ہے کہ جس نے سب کو حیران کر دیا کہ جھنگ کے ایک رانجھے نے بیوی کے لئے چاند پر پلاٹ خرید لیا ہے۔ یعنی بیوی کے ساتھ محبت ہو تو ایسی ہو اور یہ پہلا شخص ہے کہ جس نے بیوی کی محبت میں حد کر دی ہے روایتی محبت تو محبوب سے ہوتی ہے اور زیادہ تر بیویاں محبوب نہیں ہوتیں۔ میں اس خطرناک بات کی تفصیل میں نہیں جائوں گا۔ میں نے تو آج محبت کی بات کرنا تھی کہ ’’محبت بھی عجب شے ہے کہ جب بازی پہ آتی ہے سب کچھ چھین لیتی ے یا سب کچھ ہار دیتی ہے محبت مار دیتی ہے‘‘

میں محبت کو زندگی سمجھا

اس محبت نے مارڈالا مجھے

اصل میں اس محبت کا چاند سے بہت گہرا تعلق ہے ویسے تو چاند کا ہم سے بھی گہرا تعلق ہے اور بچپن ہی سے چا ندکو ہم چندا ماموں کہتے آئے ہیں۔ چاند پر پلاٹ خریدنے والے ایک ڈاکٹر ہیں، انہوں نے اپنی شادی کی پہلی سالگرہ پر اپنی بیوی کو چاند پر خریدا گیا پلاٹ تحفے میں دیا ۔خبر کے ساتھ اس پلاٹ کی رجسٹری کاپی بھی لگی ہوئی ہے تاہم میں تفصیل میں نہیں گیا کہ ڈاکٹر صاحب نے چاند پر پلاٹ کس سے خریدا ہے۔ ویسے یہ خیال عمران خان کو آنا چاہیے تھا کہ دو تین کروڑ پلاٹ الاٹ کروانا اور عوام کو دینا کوئی مسئلہ ہی نہیں تھا۔ ویسے وقت کا کچھ پتہ نہیں کہ کیا کچھ بدل دے۔ مثلاً آپ خان صاحب کا اندازہ ہی لگا لیں کہ کوئی سوچ سکتا تھا کہ خان صاحب تبدیلی لاتے لاتے خود اتنا تبدیل ہو جائیں گے لوگ دھنگ رہ جائیں گے۔ واقعتاً کچھ معلوم نہیں کہ کل کلاں کچھ ایسے حالات پیدا ہو جائیں اور ڈاکٹر صاحب اپنی بیوی کو لے کر چاند پر جا بسیں۔ ایک گانے میں تو بہت پہلے کہا جا چکا ہے چلو دلدار چلو چاند کے پار چلو۔ ہم ہیں تیار چلو۔ گویا یہ خواہش تو سب کی رہی ہے اور گانے میں چاند سے بھی آگے کی بات ہے بلکہ محبت میں تو ایسی جگہ کی تلاش ہوتی ہے جہاں نہ بندہ ہو اور نہ بندے کی ذات۔ مزے کی بات یہ کہ جن محترمہ نے یہ پوسٹ لگائی ہے اور اخبار کا تراشہ وہ لکھتی ہیں کہ میں اس؎ پر یقین نہیں رکھتی کہ  کئی محبت میں تارے توڑ کر لے آئے گا۔ وہ دو تین لوگوں کو جو محبت کا دعویٰ کرتے تھے دو چار تارے توڑ کر لانے کی درخواست کر چکی ہے اس مطالبے کے بعد وہ منظر ہی سے غائب ہو جاتے ہیں، ہو سکتا ہے وہ اسی کام پر گئے ہوں اور کبھی کامران لوٹ آئیں مجھے جناب انور ملک صاحب کا شعر یاد آ گیا:

تارے توڑ کے لے آئوں گا امبر سے

لیکن آنے جانے میں کچھ دیر لگے گی

انور ملک صاحب چونکہ بھاری بھرکم تھے اور ان کے ساتھ میری اور شہزاد احمد صاحب کی بے تکلفی تھی۔ جب ایک مشاعرہ میں انہوں نے یہ شعر پڑھا اور داد لینے کے لئے میری طرف دیکھا تو میں نے کہا دیر تو کچھ لگے گی ہی۔ پھر کیا تھا محفل کشت زعفران بن گئی۔ اچانک ساغر صدیقی یاد آ گئے۔

تجھ کو ملے ہیں قریہ مہتاب میں گڑھے

مجھ کو تو پتھروں میں بھی رعنائیاں ملیں

سنا ہے ڈاکٹر صاحب نے چاند پر ایک ایکڑ جگہ غالباً چھ ہزار میں خریدی ہے اور ان سے پہلے ایک ہندوستانی سکھ فنکار بھی چاند پر پلاٹ خرید چکا ہے۔ ویسے چاند کا محبت کے ساتھ کوئی تعلق ضرور ہے کہ چکور بھی اس کی محبت میں اس کی طرف اڑتا جاتا ہے اور تھک کر گر جاتا ہے۔ چاند ماری کرنا بھی تو محاورہ ہے اور چاند چڑھانا بھی بلکہ چار چاند لگانا بھی ،اور وہ جو کہا گیا چاند کو چاند نہ کہتاترا چہرہ کہتا ۔ویسے اگر یہ جوڑا چاند پر پہنچنے میں کامیاب ہو گیا تو ان کا ترانہ درست ہو جائے گا۔ چاند میری زمین پھول میرا وطن۔ پتہ چلا ہے کہ ڈاکٹر صاحب کی بیگم سائیکالوجی کی ماہر ہیں اس حوالے سے یہ کیس تو ویسے ہی قابل غور ہے۔ چاند کے حوالے سے ابن انشا کو بہت شہرت ملی۔

 کل چودھویں کی رات تھی شب بھر رہا چرچا تیرا

 کچھ نے کہا یہ چاند ہے کچھ نے کہا چہرہ تیرا

چلیے اگر چاند کا تذکرہ شروع ہو گیا ہے تو اس بہانے مرزا نوشہ اسداللہ خاں غالب کے اس لازوال شعر کا تذکرہ کرتے ہیں جو اس نے عارف نوحہ کہتے ہوئے کہا تھا اور پھر اس کا ترجمہ ہمارے دوست اسیر عابد مرحوم نے کیا تھا۔ میں آپ کو یہ بتاتا چلوں کہ دیوان غالب کا جتنا اچھا پنجابی منظوم ترجمہ اسیر عابد نے کیا وہ شاہکار ہے، اگر غالب پنجابی میں شاعری کرتا تو شاید اتنی اعلیٰ نہ کر سکتا جتنی اسیر صاحب نے کر دی۔

 احمد ندیم قاسمی نے یہ ترجمہ خود مجلس ترقی اردو ادب سے شائع کیا اور دیباچہ بھی خود تحریر کیا۔ اسیر عابد صاحب مجھے کہنے لگے یار قاسمی صاحب نے کہا اپنی تصویر دوبارہ کھنچوا کر بھیجو ہم کالج سے نکلے تو کہنے گے یار اگر پھر بھی تصویر اچھی نہ آئی تو؟میں نے ہنس کر کہا پھر میری تصویر بھیج دیجیے گا۔ وہ قہقہہ بار ہو گئے غالب کا شعر ہے:

تم ماہ شب چار دھم تھے مرے گھر کے

پھر کیوں نہ رہا گھر کا وہ نقشہ کوئی دن اور 

اسیر عابد صاحب نے بات کیسی سمجھائی دیکھیے:

چناں توں تے چودھویاں دا چن سی میرے گھر دا

اوہ وی تے کڈھ جاندا ہے جاندا جاندا ہور دیہاڑے

واہ یعنی چودھویں کا چاند آہستہ آہستہ گھٹتا ہے ۔تم اچانک چلے گئے مجھے فخر ہے کہ جب یہ عظیم شاہکار چھپ کر آیا احمد ندیم قاسمی نے اسیر عابد صاحب کو پہلی دس اعزازی کاپیاں بھیجیں تو ایک انہوں نے مجھے عنایت کر دی۔ اب آخر میں اظہار شاہین کے خوبصورت شعر پر کالم ختم کرتے ہیں:

چاند!کچھ دیر تو ٹھہر گھر میں

آسماں سے تجھے اتارا ہے