زمین، چاند، سیارے ، ستارے ، نظام شمسی اور یہاں تک کہ ہمارا وجود جدید ترین ٹیکنالوجی کے وجود میں آ جانے اور صدیاں گزر جانے کے باوجود ایک معمے سے بڑھ کر اور کچھ نہیں۔ سچ تو یہ ہے کہ آج کا انسان اتنا قابل نہیں کہ کائنات کے پوشیدہ رازوں کو کھنگال سکے، لیکن اتنی صلاحیت ضرور رکھتا ہے کہ اِن کے حوالے سے مختلف نظریات اور تحقیقات پیش کر سکے۔ چاند بھی کائنات کا ایک ایسا خاص حصہ ہے جس کے حوالے سے مختلف نظریات وقتِ رفتہ کے ساتھ پیش کیے جا تے رہے ہیں۔ اگرچہ سائنسدانوں کو یہ معلوم ہو گیا کہ چاند کس مٹیریل سے بنا ہوا ہے، اِس میں بڑے بڑے گڑھے کس وجہ سے ہیں اور یہاں زندگی ہے یا نہیں۔ لیکن اِس کی عمر اور وجودمیں آنے کے حوالے سے آج بھی ابہام پایا جاتا ہے۔ حال ہی میں ’نیچر جیو سائنس‘ میں شائع ہونے والی تازہ تحقیق میں ’چاند‘ کے موضوع پر اس سے قبل ہونے والے مطالعے کی تصدیق ہوئی ہے جس میں بتایا گیا ہے کہ چاند اب تک بتائی گئی عمر سے 100 ملین برس عمر رسیدہ ہو سکتا ہے۔ 

روایتی طور پر یہ سمجھا جاتا ہے کہ چاند4.47 بلین برس پرانا ہے، جبکہ ہمارے نظام شمسی کے وجود میں آنے کے حوالے سے 4.56 بلین کے عدد پر اتفاق کیا جاتا ہے، لیکن نئی تحقیق سے پتہ چلتا ہے کہ چاند کی تشکیل اس وقت ہوئی جب نظام شمسی 150 سے 200 ملین سال کے بجائے صرف 50-60 ملین سال پرانا تھا ۔یہ ایک بہت بڑا اور واضح فرق ہے۔ 

جنوری 2017 میں ، ایریزونا اسٹیٹ یونیورسٹی میں ماہر پیٹولوجسٹ، میلنی باربونی کی سربراہی میں ایک ٹیم ، اپولو مشن کے خلابازوں کے ذریعہ واپس لائے گئے چاند کی چٹانوں میں زرکون کرسٹل کا مشاہدہ کر رہی تھی۔ اِس مشاہدے سے انہوں نے یہ نتیجہ اخذ کیا کہ یہ کرسٹل عمر میں نظام شمسی سے صرف 50 ملین برس چھوٹے تھے۔اب  جرمنی کی کولون یونیورسٹی میں سائنس دانوں کی زیرقیادت ایک ٹیم بالکل ایسے ہی نتیجہ پر پہنچی ہے ، جس پر جنوری 2017 میں ایریزونا اسٹیٹ یونیورسٹی کے سائنسدان پہنچے تھے۔ لیکن اِس مرتبہ زرکون کرسٹل کے بجائے سائنسدانوں نے چاند کی چٹانوں میں ہفنیم (Hafnium)اور ٹنگسٹن (tungsten)کے آئسوٹوپس کا مطالعہ کر کے نتائج اخذ کیے ہیں۔ ہفنیم ایک نایاب، چاندی والی دھات ہے، جو مائیکروچپس بنانے کے لیے بھی استعمال ہوتی ہے اور ٹنگسٹین لائٹ بلب میں فیلامنٹ(filament)کے نام سے مشہور ہے۔ایک ہی موضوع پر د و مختلف ذرات پر کی جانے والی تحقیقات کے ایک جیسے نتائج آنا خوش آئند ہیں، چونکہ یوں نظریے کے حقیقت میں ڈھل جانے کے مواقع جنم لیتے ہیں، اس کی ساکھ مضبوط ہو تی ہے اور نئی تحقیقات کو تحریک ملتی ہے۔ 

سائنسدان سورج کی عمر کا تخمیہ 4.603 بلین برس، زمین کی عمر کا 4.543 بلین اور چاند کا4.47 بلین برس لگاتے ہیں۔ یعنی پہلے سورج، پھر زمین اور آخر میںزمین پر ایک دیوہیکل اثر کنندہ کی وجہ سے ایک حصہ تقسیم ہو گیا اور چاند کی شکل اختیار کر گیا۔ لیکن کیا حقیقت میں 50 یا 60 ملین برس چھوٹا ہے؟ جیسا کہ ارسطو نے کہا تھا، ’’ایک ابابیل کے نظر آجانے سے موسم گرما نہیں آ جاتا‘‘ اِسی طرح کسی سائنسی نظریے کو ثابت کرنے کے لیے چند تحقیقات کے نتائج پر اتفاق نہیں کیا جا سکتا۔ سچ تک پہنچنے کے لیے ہمیں ابھی مزید انتظار کرنا پڑے گا۔