ایک خبر کے مطابق حکومت کے ایک سرکلر میں کہا گیا ہے کہ تمام سرکاری ملازمین اپنی منقولہ اور غیر منقولہ جائیداد اور دوسرے اثاثوں کی مکمل تفصیل سے حکومت کو آگاہ کریں۔ پتہ چلا ہے کہ اس خبر کی اشاعت کے بعد ملازمین بالخصوص پولیس ملازمین زبردست تشویش کا شکار ہو گئے ہیں اور اس ناگہانی آفت سے بچ نکلنے کے لیے عزیزوں‘ دوستوں اور وکیلوں سے مشورہ کر رہے ہیں۔ ہمارے ایک رشتے کے چچا ہیں جنہیں ہمیں ’’چاچا طیفا‘‘ کے نام سے پکارتے ہیں۔ اگرچہ محکمہ پولیس میں ان کا نام کچھ اور ہے لیکن ہم نہیں چاہتے کہ اخبار میں ان کا محکمانہ نام شائع کر کے ان کی پریشانی میں اضافہ کردیں۔ چاچا جی پولیس میں سب انسپکٹر کے عہدے پر فائز ہیں اور آج کل ایک پولیس چوکی کے انچارج ہیں۔ کل شام وہ ہمارے ہاں آئے اور میرے برادر بزرگ (جو ایڈووکیٹ ہیں) کے بارے میں پوچھنے لگے۔ ان کے چہرے پر ہوائیاں اڑ رہی تھیں۔ میں نے انہیں ڈرائنگ روم میں بٹھایا اور کہا کہ بھائی جان آیا ہی چاہتے ہیں۔ آپ اتنی دیر چائے پئیں۔ نہیں نہیں‘ چائے کی ضرورت نہیں۔ کوکا کولا نہیں۔ شربت صندل لائوں؟مقوی اعصاب اور سکون آور ہوتا ہے۔ نہیں۔ خدا کے لیے نہیں۔ تم ذرا بھائی کو فون پر اطلاع کردو کہ جلدی آئیں میں سخت مصیبت میں پھنس گیا ہوں۔ خیریت تو ہے؟ میں نے کہا‘ آپ تو تھانے میں بندہ مار کر بھی کبھی اتنے پریشان نہیں ہوئے۔ آج کیا بات ہے؟ انہی کو بتائوں گا یار‘ انہی کو بتائوں گا یار‘ انہی کو۔ انہوں نے لمبی آہ بھرتے ہوئے کہا۔ آپ کی پریشانی کا ایک علاج میرے پاس بھی ہے‘ میں نے کہا۔ کیا؟ انہوں نے بے تابی سے پوچھا۔ آپ ایک بھنا ہوا مرغ کھائیں۔ میں ابھی بازار سے منگوا دیتا ہوں‘ میں نے کہا۔ مذاق مت کرو یار مذاق نہیں کر رہا چاچا جی۔آپ حکم کریں ،میں خود جا کر لے آتا ہوں۔ لیکن بھنے ہوئے تو نہیں ہیں؟ آپ آپ کو بنا ہو مرغ لا کردوں گا۔ یار کوئی مرغ ورغ نہیں چاہیے مجھے،اس وقت میں خود مرغ بنا ہوا ہوں لیکن بھنے ہوئے تو نہیں ہیں نا؟میں آپ کو بھنا ہوا مرغ لا کر دوں گا مرغ کا نام مت لو میرے سامنے۔ چاچا جی! آپ تو مرغ کے نام پر جان دیتے ہیں۔ یہ آج آپ کو کیا ہوگیا ہے؟ زندگی میں پہلی بار آپ مرغ سے بیزاری کا اظہار فرما رہے ہیں۔ اتنے میں دروازہ کھلا اور بھائی جان اندر داخل ہوئے۔ بھائی جان کو دیکھ کر چاچا جی کے اوسان قدرے بجا ہوئے۔ اچھا‘ چاچا جی ہیں۔ کیسے آئے ہیں آپ؟ بھائی جان نے پوچھا۔ مصیبت کا مارا آیا ہوں تمہارے پاس‘ چاچا جی بولے۔ خیریت تو ہے؟ بھائی جان نے بیٹھتے ہوئے پوچھا۔ خیریت ہوتی تو یہاں کیوں آتا۔ اطمینان سے بتائیں کیا بات ہے۔ بھائی جان نے دلاسہ دیتے ہوئے کہا۔ ڈی آئی جی صاحب نے ایک نیا مسئلہ کھڑا کردیا ہے۔ پہلے وہ ہاتھ دھو کر ہماری توندوں کے پیچھے پڑ گئے تھے اور اب ہماری جائیدادوں کی ٹوہ میں لگ گئے ہیں۔ سمجھ میں نہیں آتا افسر لوگوں کو بیٹھے بٹھائے ایسی باتیں کیسے سوجھ جاتی ہیں۔ خیر گھبرانے کی بات نہیں‘ بھائی جان نے کہا۔ یہ خبر میں نے بھی پڑھی ہے۔ آپ ذرا ہوشیاری سے کام لیں۔ آپ کا کچھ نہیں بگڑے گا۔ کیوں نہیں بگڑے گا؟ ایس پی صاحب نے کہا ہے کہ فوراً اپنی تمام منقولہ اور غیر منقولہ جائیداد کی مکمل فہرست بنا کر پیش کرو۔ نیز اس جائیداد کی تفصیل بھی پیش کرو جو تمہارے والدین‘ بیوی اور بچوں کے نام ہے۔ شکر ہے ہمسائیوں کا نہیں کہا۔ پھر تو واقعی تشویش کی بات ہے۔ بہرحال گھبرانے سے مسئلہ حل نہیں ہوگا۔ ہمیں بہت پھونک پھونک کر قدم رکھنا پڑے گا۔ پہلے تو آپ مجھے تمام جائیداد اور اثاثوں کی مکمل تفصیل لکھوائیں۔ اس کے بعد ہم دیکھیں گے کہ ان سب کو کیسے Coverکیا جاسکتا ہے۔ لکھیں چاچا جی نے مریل سی آواز میں کہا۔ بھائی جان نے کاغذ قلم سنبھال لیا۔ ایک ٹیوٹا کرولا۔ ایک جیپ‘ ایک سوزکی کار‘ تین موٹرسائیکل‘ ایک ٹریکٹر‘ ایک دو کنال کا پلاٹ‘ ایک دس مرلے کا پلاٹ‘ ڈیڑھ مربع زرعی زمین‘ تین ایکڑ کا آموں کا باغ‘ ایک تین کنال کی کوٹھی‘ دو دس دس مرلے کے مکان‘ چھ دکانیں‘ بینک بیلنس بھی لکھوائوں؟ ہاں‘ ہاں۔ ایک بینک میں تقریباً چھ لاکھ‘ قومی بچت کے مرکز میںپچیس لاکھ‘ ایک اور بینک میں آٹھ لاکھ پچاسی ہزار۔ انعامی بانڈ مالیتی پندرہ لاکھ روپے بس موٹی موٹی چیزیں تو یہی تھیں۔ چھوٹی چھوٹی چیزیں کتنی ہیں؟ وہ تو بے شمار ہیں۔ صبح ہو جائے گی اور ان کی تفصیل ختم نہ ہوگی۔ یہ جائیداد کس کے نام ہے؟ کچھ بات کے نام‘ کچھ ماں کے نام‘ زیادہ تر بیوی کے نام‘ لڑکوں کے نام بھی ہے اور تھوڑی بہت میرے اپنے نام۔ آپ ذرا یہ تفصیل بھی لکھوا دیں۔ چاچا جی تفصیل لکھوانے لگے اور میں وہاں ٹے اٹھ کر چلا گیا۔