پچھلے ہفتے قومی اسمبلی کے ہنگاموں نے ملک بھر کے ایوان ہائے بحث مباحثہ میں رونق لگائے رکھی‘ فائدہ اس کا شہباز شریف نے اٹھایا جن کی تقریر بطور قائد حزب اختلاف چار روز تک جاری رہی۔ یہ بھی ایک نیا رکارڈ تھا جو قائم ہوا۔ سرکاری ارکان تلے ہوئے تھے کہ شہباز شریف کی تقریر ہو گی نہ بلاول کی لیکن ہونیاں ہو کر رہیں یعنی دو تقریریں ہو گئیں۔ سخت کوفت ہوئی۔ ارے بھئی مجھے نہیں‘ کسی اور کو بلکہ کئی اور کو۔ ٭٭٭٭٭ حاصل اس مشاعرے کا وہ گالیاں تھیں جو ایوان میں’’اون دی ریکارڈ‘‘ کی گئیں اور سوشل میڈیا پر چڑھ گئیں۔وہی بات ہوئی کہ بات منہ سے نکلی اور کوٹھوں چڑھی۔ آج کل کوٹھے کا قائم مقام سوشل میڈیا ہی تو ہے۔ گالیاں اور کتابیں اچھالنے کا کام زیادہ تر کس نے کیا‘ اس پر بحث حب الوطنی کے منافی ہے‘ بات یوں ختم کی جا سکتی ہے کہ سب کی ذمہ دار اپوزیشن ہے۔ اپوزیشن کی تربیت ہی گالیوں اور کوسنوں کے جھولے میں ہوئی ہے۔ چلیے بات ختم۔ لیکن بات ختم نہیں ہوئی۔مسلم لیگ (ن) کے شیخ روحیل اصغر نے ایک ایسی بات کہہ دی کہ محب الوطنوں کی رگ حب الوطنی پھڑکی بلکہ بھڑک اٹھی اور بس خوب ہی بھڑکی۔ روحیل کا تعلق مسلم لیگ سے ہے‘ پی ٹی آئی سے ہوتا تو چڑھ دوڑنے والے انہیں بے باک محقق کا خطاب دے ڈالتے۔ انہوں نے کہا‘ گالیاں پنجاب کے کلچر کا حصہ ہے۔ چڑھ دوڑنے والے چڑھ دوڑے۔ سچی بات یہ ہے کہ روحیل اصغر نے ’’پنجابی تعصب‘‘ کا مظاہرہ کیا۔گالیاں دنیا کے ہر کلچر اور سماج کا حصہ ہیں اور ماقبل از تاریخ سے ہیں اور بعداز خاتمہ تاریخ ہی اس کلچر کا خاتمہ ہو گا۔ روحیل اصغر نے اسے صرف پنجاب کے کلچر سے باندھ کر نظر بظاہر یعنی بادی النظر میں پنجاب نوازی کا مظاہرہ کیا۔ ٭٭٭٭٭ لیکن حضرات گرامی قدر‘ کلچر کے تین حصے ہوتے ہیں۔ایک وہ جو گھر کے اندر بھی نافذ ہوتا ہے اور گھر کے باہر یعنی گلی محلے چوک چوراہے میں بھی۔ دوسرا جس کی ’’رٹ‘‘ صرف گھر کے اندر تک ہوتی ہے اور تیسرا وہ جو گلی محلے میں راج کرتا ہے۔ گالیوں والا کلچر اسی تیسرے کی ذیل میں آتا ہے۔ ایک دور تھا‘گھر کے اندر کوئی گالی دینے کا سوچ بھی نہیں سکتا تھا لیکن آج کل کمزور پر تشدد مردانگی کا جزو لاینفک سمجھا جاتا ہے چنانچہ بیوی کی پٹائی کرنا ہو یا بچوں کی‘ باپ گالیوں کا تڑکا ضرور لگاتا ہے۔ کلچر میں تو ’’مجرا‘‘ سننا بھی شامل ہے۔ یوپی اور سی پی(آج کل کا ایم پی یعنی مدھیہ پردیش بلکہ مشرقی پنجاب ، راجستھان اور بنگال کے مسلمان نواب مجرا سننا تہذیب کا لازمی حصہ سمجھتے تھے اور خیر سے اس زمانے میں غیر مہذب نواب بہت ہی کم ملتے تھے۔ ایک غیر مہذب نواب کا علم تو آپ کو بھی ہو گا‘ نواب صدیق الحسن خان آف بھوپال۔ اب اس’’ڈاکٹرائن میں بھی ترقی ہو گئی۔ مالدار لوگ مجرے کا کلچر اپنے ڈیروں اور حویلیوں کے اندر تک لے آئے ہیں۔ کہیں آنے جانے کی ضرورت ہی نہیں۔ بھارت کے سابق وزیر اعظم اٹل بہاری واجپائی شاعر بھی تھے۔ اپنی ایک نظم پر انہوں نے البم کے انداز میں ایک ویڈیو بنائی۔ شاعر سو کر اٹھتا ہے تو کیا دیکھتا ہے‘ صحرا کی ریت دہلیز پار کر کے کمرے کے اندر تک آ گئی ہے اور کمرے کا فرش ریگستان کا منظر پیش کر رہا ہے۔ کلچر کے کتنے ہی اجزا جو کل تک شرفا کے لئے ’’ٹابو‘‘ تھے‘ اب ان کے تودوں ٹیلوں سے گھر آنگن بھرا پڑا ہے۔ اب تو شرفا کی تعریف DEFINITION بھی بدل گئی۔ ٭٭٭٭٭ قومی اسمبلی سے جو آندھی اٹھی‘ وہ صحرائی طوفان بن کر بلوچستان اسمبلی جا پہنچی۔ نوبت بایں جا رسید کہ سرکاری ٹرک بلوا کر سرکاری اسمبلی کا گیٹ توڑنا پڑا۔ سر پھٹول میں چار ارکان کے سر پھٹے اور جوتے ایسے اڑ اڑ کر چلے کہ وزیر اعلیٰ جام کمال بال بال بچے۔ جوتے حماس کے میزائلوں کی طرح برس رہے تھے‘ یعنی نشانے نہیں لگتے تھے۔ خدا کا شکر ہے کہ جام کمال کی عزت رہ گئی۔ جام کمال کی ہم بہت عزت کرتے ہیں بلکہ ان کا لائو لشکر‘ پروٹوکول ‘ہٹو بچوکو دیکھ کر دیوان جارمنی داس کی مشہور زمانہ کتاب’’مہاراجہ‘‘ یاد آ جاتی ہے۔ یوں وہ ہمارے آئیڈیل ہیں۔ اور وہ کیا،پچھلے دنوں ان کے بارہ سالہ صاحبزادے کا پروٹوکول قافلہ دیکھ کر تو ہم ان ہونہار برواجی کے بھی معتقد ہو گئے ہیں۔ صوبائی ضلعی انتظامیہ کے افسر‘پولیس کی قطار اندر قطارگاڑیاں‘ لیویز اور ایف سی کے ٹرک۔راجکمار جی کسی جگہ ضروری سیر اور اشد ضروری سپاٹے کو جارہے تھے۔ واللہ ’’گڈ اولڈ ڈیز‘‘ کی جھلک نے قلب و نظر میں رعنائیاں بھر دیں۔ ٭٭٭٭٭