مجھے دیگر سینئر صحافیوں اور اینکرز کے ساتھ پچھلے ایک ڈیڑھ ماہ کے دوران تین اعلیٰ سطحی بریفنگز میں شرکت کا موقع ملا ‘قومی سلامتی اور خارجہ اُمور کے حوالے سے ان بریفنگز میں پاک امریکہ تعلقات‘مسئلہ کشمیر‘ بھارتی عزائم‘ افغانستان سے فوجی انخلا اور طالبان و افغان حکومت کے مابین جاری کشمکش کے حوالے سے اعلیٰ ریاستی عہدیداروں نے حالات و واقعات کی جو تصویر کشی کی وہ میری طرح کے کمزوور دل افراد کی راتوں کی نیندیں اڑانے کے لئے کافی ہے۔ ایک بریفنگ میں اخبار نویس تو بس چار پانچ تھے باقی مختلف سیاسی جماعتوں کے نامور نمائندے تھے یا سابق سفارت کار‘ خطے میں امریکہ اور چین کے مابین اقتصادی‘ معاشی اور سفارتی بالادستی کی جنگ جاری ہے‘ سوویت یونین کی شکست و ریخت کے بعد امریکہ کو واحد سپر پاور کی جو حیثیت حاصل ہوئی تھی ‘افغانستان اور عراق جنگ میں وہ متاثر ہوئی اور اب چین و روس کم از کم جنوبی ایشیا کی حد تک نئے اور طاقتور کھلاڑیوں کی حیثیت سے آگے بڑھ رہے ہیں۔ اقبالؒ نے عشروں قبل فرمایا ؎ جہانِ نو ہو رہا ہے پیدا و ہ عالم پیر مر رہا ہے جسے فرنگی مقامروںنے بنا دیا ہے قمارخانہ عالم نوکی موت اور قمارخانے کے انہدام میں افغانستان اور اس کے مجاہدین آزادی کا کردار نمایاں ہے‘ کچھ کردار شاید عالم اسلام کے بازوئے شمشیر زن کا بھی ہو مگر ہم فی الحال مُنہ کھولتے ہوئے شرماتے ہیں لیکن یہ طے ہے کہ پاکستان کا پرنسپل سٹریٹجک پارٹنر اب چین ہے‘ امریکہ نہیں جس نے ہمیشہ طوطا چشمی دکھائی اور ہمیں ٹشو پیپر کی طرح استعمال کیا۔ امریکی انخلا کے بعد افغانستان میں پائیدار اور قابل قبول حکومت قائم نہ ہوئی جس کا امکان نہ ہونے کے برابر ہے تو خانہ جنگی نوشتہ دیوار ہے اور پاکستان افغانستان میں خانہ جنگی‘انارکی اور عدم استحکام سے بری طرح متاثر ہو گا۔ امریکہ نے افغانستان میں اپنی ناکامی بلکہ شکست و رسوائی کا ملبہ پاکستان پر نہ ڈالا تو یہ معجزہ ہو گا مگر یہ معجزوں کا زمانہ نہیں کہ نبوت و رسالت کا دروازہ بند ہو چکا اور معجزے صرف پیغمبروں کو زیبا ہیں‘ پاکستان بطور ریاست اس وقت تنے ہوئے رسّے پر چل رہا ہے اور فیصلہ سازوں کی شبانہ روز تگ ودو کا محور قومی سلامتی ہے یا اس سے جڑے خارجی اُمور ۔ حکومت میں بیٹھے تحریک انصاف کے رہنمائوں کے علاوہ اپوزیشن کو بھی صورت حال کا علم ہے‘ قومی ادارے وقتاً فوقتاً اپوزیشن رہنمائوں کو بند کمروں میں بٹھا کر بریفنگ دیتے اور حساس معاملات سے آگاہ رکھتے ہیں۔ پیر اور منگل کو مگر حکومت اور اپوزیشن کے سینئر ارکان نے پارلیمنٹ کو مچھلی بازار بنا کر یہ تاثر دیا کہ انہیں اپنی عزت عزیز ہے نہ جمہوریت اور جمہوری اقدار سے کوئی دلچسپی اور نہ ملک کو درپیش غیر معمولی‘ خطرات اور مشکلات کا ادراک واحساس۔ پارلیمنٹ میں نعرے بازی اور ہنگامہ آرائی ماضی میں بھی ہوتی رہی ہے‘ قائد عوام کے دور میں مفتی محمود‘ علامہ شاہ احمد نورانی اور سردار شیر باز مزاری سمیت قابل احترام اپوزیشن ارکان کو جسمانی طور پر زدو کوب کرنے کے بعد پارلیمنٹ ہائوس سے باہر پھینک دیا گیا اور سابق صدر غلام اسحق خان‘ سردار فاروق احمد خان لغاری‘ پرویز مشرف کو پارلیمنٹ سے خطاب کے دوران گھٹیا جملے بازی اور شور شرابہ کا سامنا پڑا لیکن ان تمام مواقع پر سرکاری ارکان نے خاموشی اختیار کی‘ اپنی لیڈر شپ کو حملوں سے بچایا یا جوابی نعرے بازی تک محدود رہے۔ 2018ء میں اپوزیشن نے وزیر اعظم عمران خان کو تقریر نہ کرنے دی جو شرم ناک بات تھی‘گزشتہ روز حکمران جماعت کے سینئر ارکان نے بھی ہنگامہ آرائی میں بھر پور حصہ لیا اور گالم گلوچ کے علاوہ بجٹ کی بھاری بھرکم کتابیں بطور ہتھیار استعمال کرنے کی مشق کی‘ بجٹ کی موٹی کتابیں ہمیشہ ردی کے بھائو بکتی رہی ہیں‘ کم ارکان اسمبلی بنڈل کو کھولنے اور ورق الٹنے کی زحمت گوارا کرتے ہیں اسی باعث یہ مطالبہ ہوتا رہا ہے کہ بجٹ دستاویزات جب کوئی پڑھتا نہیں تو ان کی اشاعت پر قومی خزانے سے لاکھوں روپے خرچ کرنے کی کیا ضرورت ہے۔ مگر گزشتہ روز حکومت اور اپوزیشن کے ارکان نے انہیں مخالفین کی سرکوبی کے لئے استعمال کیا اور افادیت ثابت کی‘ خدا کا شکر ہے کسی جیالے یا متوالے رکن اسمبلی نے نشانہ بازی کی اس مشق میں پرویز خٹک کو ہدف نہیں بنایا ورنہ ایوان میں لوگ وزیر دفاع کو ڈھونڈتے پھرتے کہ اتنی موٹی کتاب کی ضرب سے سنگل پسلی وزیر دفاع کا جانبر ہونا آسان نہ تھا۔ پوری دنیا میں سیاستدان بالخصوص پارلیمنٹرین نوجوان نسل کے رول ماڈل سمجھے جاتے ہیں اور یہ رول ماڈل اپنے اخلاق و کردار سے نسل نو کو متاثر کرنے کی سعی و تدبیر کرتے ہیں۔ ہمارے ہاں مگر 1985ء سے سیاستدانوں کی ایک ایسی کھیپ تیار ہوئی ہے جن کا مطمع نظر ہر جائز و ناجائز طریقے سے دولت کمانا‘ بیرون ملک جائیدادیں خریدنا اور زبان درازی بلکہ دھول دھپے سے مخالفین کی سرکوبی کرنا رہ گیا ہے‘ لیڈران کرام بھی الاماشاء اللہ انہی ساتھیوں اور پیروکاروں سے خورسند ہوتے ہیں جن کی واحد خوبی مخالفین کی پگڑیاں اچھالنا اور ٹی وی سکرین پر بدتہذیبی کے ریکارڈ قائم کرنا ہے‘ اپنے اپنے لیڈر کی خوشنودی حاصل کرنے کے لئے ہر رکن اسمبلی دوسرے سے بڑھ کر شور شرابا ‘مدمقابل کی توہین و تذلیل کرتا ہے تاکہ سند رہے اور بوقت ضرورت کام آئے۔ گزشتہ روز عوام کے منتخب نمائندوں نے کیمروں کے سامنے مقابلہ بدزبانی میں ایک دوسرے کو مات دینے کی سعی کی اور کسی نے بھی بعدازاں ندامت محسوس کی نہ معذرت کی ضرورت‘ الٹا دونوں طرف کے پہلوانوں نے ٹی وی سکرینوں پر اس غیر پارلیمانی طرز عمل اور غیر جمہوری انداز فکر کا جواز پیش کیا‘ سیاسی جماعتوں کی قیادت سے تو خیر یہ توقع ہی عبث ہے کہ وہ اپنے بے لگام ارکان کے خلاف کوئی تادیبی کارروائی کریں گے مگر سپیکر اسد قیصر نے تین حکومتی اور چار اپوزیشن ارکان پر پابندی عائد کی تو تحسین کے بجائے تنقید کا نشانہ بنے اور اپوزیشن نے ان کے خلاف تحریک عدم اعتماد لانے کا اعلان کر دیا ہے گویا سپیکر کو ایوان میں نظم و ضبط برقرار رکھنے کے لئے کسی رکن کے خلاف کارروائی کا اختیار ہے نہ ایوان چلانے کے لئے ماحول سازگار بنانے کی ضرورت۔ سپیکر کے خلاف عدم اعتماد کی تحریک پیش ہوتی ہے یا نہیں؟ فی الحال وثوق سے کچھ کہنا مشکل ہے مگر یہ تحریک آئی تو پیپلز پارٹی اور بلاول بھٹو کی کامیابی اور مسلم لیگ(ن) کے بیانئے کی نفی ہو گی جو استعفوں سے مکر چکی ہے اور وزیر اعظم ‘ وزیر اعلیٰ یا سپیکر کے خلاف تحریک عدم اعتماد کی مخالف‘ میاں نواز شریف‘ مریم نواز شریف اور مولانا فضل الرحمن کو موجودہ پارلیمنٹ سے کوئی دلچسپی ہے نہ سسٹم سے کسی قسم کی ہمدردی ؎ بلبل نے آشیانہ چمن سے اٹھا لیا پھر اس چمن میں بوم بسے یا ہُما بسے لیکن عمران خان‘ میاں شہباز شریف‘ بلاول بھٹو اور دیگر بھی جو اس ایوان کا حصہ اور سسٹم کے بینیفیشری ہیں ان ہتھ چھٹ اور منہ پھٹ ارکان کی حوصلہ افزائی پر اُتر آئیں جن کے باعث ندامت طرز عمل کے سبب پاکستانی پارلیمنٹ گزشتہ روز کل عالم میں تماشہ بنی اور نوجوان نسل نے سوشل میڈیا پر تھوتھو کی تو یہ حد درجہ تکلیف دہ بات ہے‘ ریاست اس وقت تاریخ کے دوراہے پر کھڑی ہےMake or Breakکی کیفیت سے دوچار‘ عوام کے منتخب نمائندے مگر اس عالم میں بھی ہوش و خرد سے بیگانہ تماش بینی اور خوئے انتقام کی تسکین میں مشغول ہیں ؎ درون خانہ ہنگامے ہیں کیا کیا چراغ رہگزر کو کیا خبر ہے حکمران اور اپوزیشن ارکان چراغ رہگزر ہی نہیںاصولاً چراغ بدست رہبر و رہنما سمجھے جاتے ہیں مگر ہماری قسمت میں فحش گو علی نواز اعوان ‘ علی گوہر‘روحیل اصغر لکھے ہیں یا ان کے پشت پناہ ۔