گزشتہ دنوں ہمارے ’’باس ‘‘اشرف شریف نے اپوزیشن کی تحریک عدمِ اعتماد کی طرف توجہ دلائی اور کہا کہ آپ کا موضوع ہے ، اس پر کچھ لکھئے،اس کے بعد ہمارے بھائی ہارون رشید کا فون آیا، پوچھا، یہ کیا ہونے جارہا ہے؟ چوہدریوں کے ساتھ شہباز شریف کی ملاقات۔جہانگیر ترین گروپ کی خبریں، پنجاب اور مرکز میں عدمِ اعتماد کی باتیں، اس میں کچھ ہے بھی؟یا خالی ڈھول کا پول۔عرض کیا، اگر آپ نے شہباز شریف اور اس کے ساتھ کھڑے پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ کے دیگر لیڈروں کی پریس کانفرنس میں چہرے دیکھے ہوں تو اس کے بعد اس تحریک کو اہمیت دینا وقت ضائع کرنے کے سوا کیا ہے۔ شاکر شجاع آبادی سے منسوب مصرع یاد آتا ہے: تو شاکر آپ سیانا ایں ساڈا چہرہ پڑھ، حالات نہ پچھ نوشتۂ دیوار ہم سب نے سن رکھا ہے، پڑھ رکھا ہے، دیکھ رکھا ہے۔دیوار کی تحریر نمایاں او رسب کے لیے ، جو پڑھ نہیں سکتے وہ صرف دیکھ لیتے ہیں مگر سمجھتے نہیں، چہرے کی تحریر ایسی ہے کہ اَ ن پڑھ ، ناخواندہ انسان تو کیا نومولود بھی چہرے کے تاثرسے متاثر ہوئے بغیر نہیں رہ پاتا۔ چہرہ پڑھنے کے لیے خواندگی کی ضرورت ہے ، تجربے ، نہ بلوغت کی۔ شاعر نے کہا : ہوتا ہے رازِ عشق و محبت انہی سے فاش آنکھیں زباں نہیں ہیں، مگر بے زباں نہیں اور چہرہ تحریر بھی ہے، ابلاغ بھی ہے،تاثیر بھی ہے اور تاثر بھی۔ یہ فسانہ شروع ہونے سے پہلے ان کی اپنی پریس کانفرنس کے ساتھ ہی ختم ہوچکا تھا مگر ذرائع ابلاغ نے خانہ پری کے لیے اخبارات اور ٹیلی ویژن سکرین کی زینت بنادیا۔ غلام اسحاق خان صدرِ مملکت تھے، ان کے ساتھ بے نظیر کا زمانۂ حکومت ، فضاسے زمین پر مار کرنے والے ایک میزائل کا تجربہ دیکھنے کے لیے پاک فضائیہ کی تجربہ گاہ ’’سومیانی ‘‘پہنچے۔سینیٹ کی دفاعی کمیٹی کے ممبر کی حیثیت سے راقم بھی ان کے ہمراہ تھا۔ ’’سومیانی‘‘ ساحل سمندر پر کھڑے ہم لوگ تجربے کے انتظار میں تھے ، اتنے میں وزیراعظم بینظیر کا ہیلی کاپٹر اترا اور وہ صدرِ مملکت کی طرف آئیں ،تھوڑے فاصلے پر پہنچ کر سلام کیا اور اپنے وزراء کے ساتھ مصروف ہوگئیں، یہ دونوں بڑوں کے درمیان کشیدگی کی نمایاں علامت تھی، بینظیرفاصلے پر تھیں مگر ان کے کچھ حواریوں نے ہماری باتوں پر کان دھرلیے۔ صدر صاحب نے غیر محسوس طریقے سے کہنی کا ہلکا سا اشارہ کیا اور ایک طرف کو چل دئیے۔ تو ہم کچھ دور جا کھڑے ہوئے جہاں کوئی بھی ہماری آواز کو سن نہیں سکتا تھا، کہنے لگے جب میں صوبائی سروس میں آیا تو شروع میں نائب تحصیلدار کی ٹریننگ ہورہی تھی، ایک دن ہمارے استاد نے کہا کہ کچھ لوگوں نے اپنے گھروں میں کتے پال رکھے ہوتے ہیں، بڑے بڑے بل ڈاگ، گدی ،السیشن اور ان کے ساتھ چھوٹے چھوٹے رشین اور دوسرے کوتاہ قد۔یہ چھوٹے چھوٹے کسی کو کاٹ نہیں سکتے ، نقصان نہیں دیتے مگر ان سے ڈرنا چاہیے۔ سوالیہ نظروں سے دیکھا تو خود ہی کہنے لگے یہ جو چھوٹے چھوٹے ہیں ، ان کے کان بڑے تیز ہے ، یہ چھوٹی سی آہٹ بھی سنتے ہیں، جب بڑے آرام سے سوئے ہوتے ہیں تو یہ ہلکی سی آہٹ پر بھونک بھونک کر انہیں بیدار اور چوکنا کردیتے ہیں۔ ہارون رشید صاحب سے پوچھا کہ آپ کو یاد ہے،2018ء کے انتخابات سے پہلے ہم دونوں چوہدریوں کے ہاں کھانے پر مدعو تھے، اس وقت میں نے ان سے کہا کہ انتخاب کے بعد آپ لوگ نواز شریف کے اتحادی بننے والے ہو۔ اس پر چوہدری پرویز الٰہی جھٹ سے بول پڑے کہ نہیں، ہم عمران خان کے اتحادی ہیں اور اس کے ساتھ مل کر انتخاب لڑیں گے۔ عرض کیا ، میں انتخاب کے بعد کی بات کررہا ہوں، آپ کو زیادہ دن سیاست میں ’’جونیئر پارٹنر ‘‘ رہنا پسند نہیں ہوگا۔ نواز شریف اور اس کا خاندان مقدمات سے تنگ ، جیلوں میں بے حال آپ کی طرف رجوع کرے گا۔ اپنی جان چھڑانے اور جیلوں سے بھاگ نکلنے کے لیے، آپ لوگ مسلم لیگوں کو اکٹھا کریں گے، جس کی قیادت خود بخود آپ (چوہدریوں) کے ہاتھ آجائے گی اور اگلا الیکشن متحدہ مسلم لیگ بمقابلہ عمران خان ہوگا۔ ہاں یہ تو مجھے یاد ہے، ہارون صاحب نے کہا۔ مگر یہ ہوا نہیں، اس لیے نہیں ہوا اگر آپ کو یاد ہے تو مولانا فضل الرحمن کے دھرنے کے دوران سپیکر صوبائی اسمبلی چوہدری پرویز الٰہی نے فضل الرحمن کے کان میں کچھ پھونکا تھا اور فضل الرحمن نے بھی سرگوشیاں کیں اور سیاست میں بڑی گہما گہمی اور ہلچل مچ گئی تھی، وہ یہی منصوبہ تھا جس کا اس وقت اظہار کیا۔ عدالت نے نواز شریف کی ضمانت منظور کرلی، سب کی آنکھوں میں دھول جھونک کر وہ ملک سے باہر چلے گئے، اڑان بھرتے ہی شریف خاندان اپنی سرگوشی سے مکر گیا اور چوہدری پھر سے دیکھتے رہ گئے۔ نئے انتخابات کا بگل بجنے کو ہے ،غالب امکان ہے کہ یہ انتخابات قبل از وقت اسمبلی ٹوٹنے کی بجائے اپنے وقت پر ہونگے۔ اس میں بھی اب اتنا وقت نہیں بچا کہ سیاسی جماعتیں اپنی جگہیں تبدیل کرکے نئی منصوبہ بندی کرسکیں، جو اتحاد اور سیاسی جتھہ بندی ہوچکی یہی آئندہ الیکشن تک چلتی رہے گی، اپوزیشن کے چہرے ،عمران خان کا اعتماد سب کے لیے کھلا پیغام ہے۔ 1988ء میں بے نظیر برسرِ اقتدار آئیں تو سینیٹ میں ان کے پاس کوئی نمائندگی نہیں تھی، کراچی سے منتخب سینیٹر جاوید جبار نے پیپلز پارٹی میں شمولیت اختیار کرلی اور بے نظیر نے انہیں وزیراطلاعات بنادیا، اب سینیٹ میں جاوید جبار ان کے واحد نمائندہ تھے، سینیٹ کا موڈ پیپلز پارٹی کی حکومت کے لیے بڑا جارحانہ اور سخت تھا، چنانچہ بے نظیر قانون سازی کرنے اور سینیٹ میں آنے سے گھبرائی ہوئی تھیں۔ وزیر اعظم کے ایوان میں نہ آنے پر بھی انہیں تند وتیز تنقید کا سامنا تھا۔ اور جاوید جبار اس کا جواب دینے میں ہلکان ہوتے رہتے ۔ چنانچہ ان کے سمجھانے بجھانے ،منت ترلہ کرنے پر وزیر اعظم بے نظیر نے سینیٹ اجلاس کے دوران ایوان میں آنے کی حامی بھرلی۔ جاوید جبار چیئرمین سینیٹ اور ایک ایک ممبرکے پاس جاکر بے نظیر کا استقبال کرنے اور ہاتھ ہولا رکھنے کی درخواست کرتے رہے۔ ممبران کے دل بھی پسیج گئے اور انہوں نے بے نظیر کو خوش آمدید کہنے کا یقین دلایا۔ جاوید جبار خوش خوش وزیر اعظم چیمبر میں گئے اور انہیں ایوان میں چلنے کے لئے کہا۔ بے نظیر آمادہ ہوئیں، چیمبر سے نکلیں ، ایوان کی طرف آئیں، دروازے کے قریب پہنچنے تک ان کے اعصاب جواب دینے لگے اور وہ اپنے چیمبر کی طرف واپس لوٹ گئیں۔سینیٹر جاوید جبار شرمندہ شرمندہ دبے قدموں ایوان میں آئے تو راقم نے پوائنٹ آف آرڈر پر کھڑے ہوکر کہا : سنا تھا کہ وہ آئیں گے انجمن میں، سنا تھا کہ ان سے ملاقات ہوگی ہمیں کیا پتہ تھا ، ہمیں کیا خبر تھی، نہ یہ بات ہوگی، نہ وہ بات ہوگی لانگ مارچ ،پنجاب ، سپیکر، چیئرمین سینیٹ اور مرکزی حکومت کے خلاف تحریک عدم اعتماد ،پیپلز پارٹی کی پی ڈی ایم میں شمولیت ، مسلم لیگ ق ، جہانگیز ترین گروپ، ایم کیو ایم کی اپوزیشن کے لیے حمایت: ایں خیال است ، محال است و جنوں