یہ ہوائی کسی دشمن نے اڑائی ہو گی‘ پہلا تاثر یہی تھا جب یہ سنا کہ چوہدری سرور لندن سے پاکستان آنے والے ہیں اور وہ پاکستان کی سیاست میں اپنا متحرک کردار ادا کرنے کے لئے چوہدری شجاعت حسین کی مسلم لیگ عرف ق میں شامل ہو رہے ہیں: کون ویرانے میں دیکھے گا بہار پھول جنگل میں کھلے کن کے لئے؟ 1985ء کی غیر جماعتی پارلیمنٹ منتخب ہو کر آئی، اس لئے کہ مارشل لاء کے ضوابط کے مطابق سیاسی جماعتوں کو الیکشن کی اجازت نہیں دی گئی تھی‘ قومی اسمبلی کے پہلے اجلاس میں جس کے سپیکر فخر امام منتخب ہوئے تھے، وہ بھی چیف مارشل لاء ایڈمنسٹریٹر کی مرضی اور منشا کے خلاف قانون و ضوابط کے پابند جمہوری اصولوں کو اپنی اصل روح کے مطابق سمجھنے اور نافذ کرنے والے‘ قومی اسمبلی کے پہلے اجلاس میں رحیم یار خاں سے منتخب رکن اسمبلی حاجی سیف اللہ نے مارشل لاء کے خلاف تحریک استحقاق پیش کر دی کہ مارشل لاء کی موجودگی میں پارلیمنٹ کا دائرہ اختیار محدود کر دیا گیا ہے‘ یوں ہمارے جمہوری اور قانون سازی کے فرائض میں رکاوٹ پیدا ہو گئی ہے‘ فخر امام سپیکر قومی اسمبلی نے تحریک استحقاق ضوابطہ کے مطابق قرار دے کر استحقاق کمیٹی کے سپرد کر دی‘ یوں پہلے دن سے جونیجو کی نئی نویلی حکومت اور مارشل لاء کے ایوانوں میں بھونچال آ گیا اور جبر و قوت کے درو دیوار لرزنے لگے‘ اگلا مرحلہ آٹھویں ترمیم کا تھا، جس میں آٹھ سالہ مارشل لاء کے احکامات کو تحفظ دینا تھا‘ آئین کی اس ترمیم کو تجربہ کار اور آتش بیاں حاجی سیف اللہ نے چیلنج کیا، یوں نہ ختم ہونے والی بحث شروع ہو گئی‘ دیکھتے ہی دیکھتے ایوان میں اپوزیشن نمودار ہونے لگی ۔جاوید ہاشمی‘ عابدہ حسین‘ شیخ رشید‘ ڈاکٹر شیر افگن‘ ڈاکٹر شفیق‘ ظفر اللہ جمالی وغیرہ پر مشتمل بائیس رکنی اپوزیشن وجود میں آ گئی‘ اپنے تجربے‘ آئین پر عبور اور پہلی کاری کے سبب حاجی سیف اللہ اپوزیشن لیڈر بن گئے‘ حاجی نے وہ رنگ جمایا کہ ’’باید و شاید‘‘ کبھی ایسی معضبوط اور مدلل رکاوٹ قانون سازی یا آئین میں ترمیم کے لئے کبھی پاکستان کی تاریخ میں دیکھنے کو ملی ہو‘ جونیجو محمد خاں کی حکومت اور جنرل ضیاء الحق کے مارشل لاء کے جلال حاجی سیف اللہ کے شعلہ بیانی کے سامنے مدھم پڑھنے لگے‘ حاجی صاحب کا ڈنکا بج رہا تھا‘ نہ صرف پاکستان پاکستان سے دور جمہوری ملکوں میں بھی ان کی شہرت ہر سو پھیل گئی‘ حاجی صاحب اور اپوزیشن کو ہاتھوں ہاتھ لیا جانے گا‘ شہروں اور قصبوں سے انہیں رونمائی کی دعوتیں موصول ہونے لگی‘ حاجی صاحب اس بارات کے دولہا تھے ‘ ان کے رخساروں پر سرخی امڈ آئی‘ آنکھیں پہلے سے زیادہ روشن اور چال ڈھال میں تمکنت پیدا ہو گئی‘ اچانک ایک صبح غیر متوقع خبر آئی کہ حاجی سیف اللہ نے محمد خاں جونیجو(وزیر اعظم) کی کابین میں شمولیت اختیار کر لی اور انہیں ’’وزارت مذہبی امور‘‘ کا قلمدان سونپ دیا گیا یہ خبر حیرت اور صدمے کا باعث ہوئی۔ قومی اسمبلی کے اگلے اجلاس میں حاجی سیف اللہ کے شاگرد خاص ڈاکٹر شیر افگن نے مائیک سنبھالا ‘ شیر افگن نے کہا ہمارے علاقے کے ایک گائوں میں ’’چھیداں‘‘ نامی لڑکی نے لڑکپن سے نکل کر جوانی کی دہلزی پر قدم رکھا، بھرے بھرے جسم کی دراز قد چھیداں۔ پورے ضلع میں اس کے حسن و جوانی کی شہرت پھیل گئی، وہ اپنی سہیلیوں کے ساتھ گھر سے نکلتی، کبھی کنوئیں سے پانی بھرنے کبھی باپ کو کھیل میں لسی روٹی دینے‘ کبھی عید‘ شبرات کی خوشی منانے‘ گائوں کا ہر جوان اس کی ایک جھلک دیکھنے کو منتظر رہتا، حسن کا رعب‘ قدامت کا جلال اور سنجیدگی کا وقار ایسا کہ کن اکھیوں سے ہر کوئی دیکھ کے رہ جاتا‘ سامنے سے نظر ملانے اور بات کرنے کا کسی میں یارا نہ تھا‘نمبردار کا پوت‘ پٹواری کا بیٹا‘ ذیلدارکا لاڈلا اور سب سے بڑے زمیندار کے دونوں بیٹے بھی اندر ہی اندر آپس کی رقابت میں مبتلا رہنے لگے مگر سینوں میں پلنے اور دلوں میں دھڑکنے والی چاہت زبان سے ہوتی چھیداں کے کانوں تک پہنچ نہیں پائی۔حسن خود اپنی آگ میں جلتا ہے، جب تک عشق اسے ٹھنڈک دے کر اس کی آتش اپنے اندر نہ بھر لے‘ دن گزرتے رہے‘ ایک دن چھیداں دن ڈھلے تک گھر نہیں لوٹی‘ سورج ڈوبا‘ لوگ ڈھور ڈنگر لے کر گھروں کو لوٹ آئے ‘ دودھیل بھینسوں‘ گائیوں‘ بکریوں کا دودھ دوہا گیا‘ انہوں نے بھاڑے کا چارہ کھایا‘ تھکے ہارے کسان مغرب کی نماز کے بعد کھانا کھا کر عشاء کی نماز کے لئے مسجد گئے واپس آتے ہی اپنی اپنی منجھی پر دراز ہوئے، بے خبر سوتے رہے۔چھیداں کے ابا اور اماں چولہے کے قریب رکھی پیڑھیوں پر خاموش بیٹھے، اپنی اکلوتی اور لاڈلی بیٹی کے منتظر تھی‘ رات دونوں نے بے تکلفی کے ساتھ آنکھوں میں کاٹ دی‘ ماں باپ ابھی تک بجھی راکھ کے چولہے کے پاس بے سدھ بیٹھے تھے‘ پو پھٹنے سے پہلے ہی نہیں معلوم کس طرح یہ بات جنگل کی آگ کی طرح سارے گائوں میں پھیل چکی تھی کہ ’’چھیداں گھر سے بھاگ گئی؟ کس کے ساتھ؟ سبھی گھبرو تو چوک میں حیراں و پریشاں حاضر تھے وہ گئی تو کس کے ساتھ؟ پھر خبر آئی کہ ’’لنگڑا موجی‘‘ بھی اپنے ٹھیے پر نہیں ہے، عصر کے وقت کسی بچے نے موچی کے ساتھ چھیداں کو بات کرتے دیکھا‘ لنگڑا موچی‘ کالا کلوٹا‘ کریہہ المنظر‘ دن گزرتے گئے دن مہینوں اور مہینے برسوں میں بدلتے رہے‘ سوائے بوڑھے ماں باپ کے گائوں کے لوگ چھیداں کو بھول ہی چکے تھے کہ ایک دن پھر سے اس خبر نے گائوں میں سنسنی نما خبر پھیل گئی کہ چھیداں نے ماں باپ سے معافی مانگ لی اور انہوں نے اسے معاف کر دیا، اب وہ اپنے شوہر موچی کے ساتھ اپنے اباّ کے گھر لوٹ آئی ہے‘ گائوں کی دوسری لڑکیاں جو اسی گائوں میں بیاہی گئی تھیں‘ چھیداں سے مل کر اس حیرت انگیز واقعہ کی حقیقت جاننے کے لئے چھیداں کے ہاں پہنچ گئی‘‘ نی چھیداں تونے یہ کیا کیا؟ گائوں کا ہر گھبرو تم پر مرتا تھا‘ وہ شہری بابو جو نمبردار کا رشتہ دار ہے، وہ بھی تیرے دیکھنے کو کالج سے چھٹی دن چکر لگاتا مگر تو موچی کے ساتھ بھاگی جو لنگڑا بھی ہے‘ بدشکلا بھی‘چھیداں نے آہ بھر کے کہا‘ میرا حسن اور جوانی مجھے اندر ہی اندر کھا رہی تھی مگر کسی لڑکے نے میری تعریف کی نہ شادی کے لئے کہا‘ بس ایک موچی ہی تھا‘ جو محبت کا دم بھرتا اور منت سماجت کیا کرتا تھا مگر میرے ماں باپ موچی سے رشتے کے لئے کہاں تیار ہونے والے تھے بس میں نے اس پر اعتبار کیا اور بھاگ گئی۔ رعب حسن کا المیہ صرف چھیداں کے ساتھ ہی نہیں ہے‘ یاد نہیں یہ واقعہ عابدہ حسین کی کتاب میں پڑھا تھا یا زبانی سنا‘ ہماری پہلی بلکہ عالم اسلام کی پہلی ’’وزیر اعظم بیگم بے نظیر بھٹو‘‘ کا واقعہ بھی کچھ ملتا جلتا ہے‘ بیگم عابدہ حسین کے ساتھ آخری برسوں میں بے نظیر کی بڑی پکی دوستی ہو گئی تھی۔واشنگٹن کے ایک ہوٹل میں غیر رسمی بات چیت اور گپ شپ کے دوران خیال رہے کہ یہ خود اختیاری جلا وطنی کا زمانہ تھا‘ بے نظیر اور ان کے شوہر کے درمیاں معمول کے تعلقات نہیں تھے شاید ان کے درمیان غیر اعلانیہ علیحدگی ہو چکی تھی‘ سیاسی مصلحت کی وجہ سے دونوں نے فی الوقت اس کا اعلان موخر کر رکھا تھا‘ بے نظیر کی اچانک المناک موت نے سب کچھ پردہ اخفا میں رہنے دیا‘ عابدہ حسین نے بے نظیر سے پوچھا بی بی‘ آپ کو آخر سوجھی کیا کہ آپ نے آصف زرداری سے شادی کر لی؟ بے نظیر نے جواب دیا عابدہ یقین کرو مجھے کسی نے ’’پرپوز‘‘ ہی نہیں کیا تھا‘ آصف زرداری نے دبئی میں مجھے کھانے پر دعوت دی‘ میں وہاں پہنچی تو حیرت کی انتہا نہ رہی کہ ’’اس نے پورا ریسٹورنٹ بک کر رکھا تھا‘‘ ایک مجھ اکیلی کے لئے‘ بڑا ہی مشہور اور بیش قیمت ریسٹورنٹ‘ اس کی فیاضی نے بھی مجھے قائل کر لیا۔ایک لطیفہ‘ ایک واقعہ ہم نے کانوں سنا۔ چوہدری سرور سابق گورنر پنجاب‘ برطانوی پارلیمنٹ میں دوبار منتخب ہونے والے ممبر‘ پاکستان اور برطانیہ کے کامیاب بزنس مین‘ ٹوبہ ٹیک سنگھ سے تعلق رکھنے والے آرائیں خاندان کے سپوت جو ہوشیاری‘ بیدار مغزی اور سمجھ داری میں اپنا ثانی نہیں رکھتے‘ وہ کھلی آنکھوں سے اس حقیقت کا ادراک کیوں نہیں کر سکے کہ ’’چھیداں گائوں کی ہو‘‘ یا برطانوی سیاست سے ہوتی پاکستان میں آئے لنگڑے موچی کے ساتھ اس کا کوئی مستقبل نہیں‘ وہ اسے راحت دے سکتا نہ عزت کی روٹی ۔آخیر کا چھیداں کو ماں باپ کی منت سماجت کر کے اپنے گائوں والے گھر لوٹنا پڑتا ہے‘ ہم جھولیوں میں نکو بنو عزت گنوائو اور لنگڑے موچی کو گھر لا کر ماں باپ پر اس کی کفالت کا بوجھ بھی لاد دو‘‘ آرائیں بھی ہو گھاٹ گھاٹ کا پانی پئے‘ وہ خودکش سیاست کا فیصلہ کیسے کر سکتا ہے؟