چودھری پرویزالٰہی آخری عمر میں پاکستان تحریک انصاف کو پیارے ہوگئے۔ اگرچہ تحریک انصاف اور چودھری پرویزالٰہی کے مزاج اور انداز سیاست میں بعدالمشرقین پایاجاتا ہے لیکن پنجاب کی سیاست کرنے والی چھوٹی پارٹیوں کے پاس اپنے طور پر سیاست کرنے اور اپنا وجود اور سیاسی شناخت برقرار رکھنے کا اب کوئی راستہ نہیں بچا۔پرویزالٰہی کے پاس دو ہی آپشن تھے۔ نون لیگ کے ہمرکاب ہوجائیں یا پھر عمران خاں کا دامن تھام لیں۔پنجاب کی حد تک تیسری کوئی سیاسی قوت ایسی نظر نہیں آتی، جو اگلے عام الیکشن میںووٹروں کی توجہ حاصل کرسکے۔ پرویزالٰہی پرانی طرز کے سیاست دان ہیں۔ زندگی بھر اسٹبلشمنٹ کے کاندھوں پر سوار ہوکر سیاست کرتے رہے۔ پیر صاحب پگاڑا کی طرح انہوں نے سیاست میں اپنا قبلہ کبھی چھپایا نہیں۔پرویز مشرف کا ڈٹ کر ساتھ دیا،اگرچہ پرویز مشرف نے بے نظیر بھٹو سے مفاہمت کرکے قاف لیگ اور چودھریوں کو چلتا کردیاتھا لیکن وہ آج تک پرویزمشرف کے دور کو یاد کرتے ہیں۔ پرویزالٰہی کی سیاست کا دائرہ کار گجرات تک محدود رہاہے۔ انہوں نے اپنی جماعت کو ملک گیر بنانے کی کوشش بھی نہیں کی۔ ظاہر ہے قومی جماعت بنانے کے لیے سیاسی فکر درکار ہوتی ہے۔ سحر انگیز شخصیت کی بھی ضرورت ہوتی ہے۔ پرویزالٰہی اور چودھری شجاعت حسین کی سیاست کا محور ڈیرے داری ، خاندانی دوستیاں اور اسٹبلشمنٹ کی اشیرباد کے سوا کچھ نہ تھا۔اوّل تا آخر وہ روایتی سیاست دان ہیں۔ مونس الہٰی نے پہلی بار انہیں اسٹبلشمنٹ کے باالمقابل لاکھڑا کیا۔نوجوان مونس الہٰی کو ادراک ہوچکا ہے کہ آج کے پنجاب کی سیاست عمران خاں اور نوازشریف کے گردگھومتی ہے۔ شریف خاندان کے ساتھ کھڑے ہونے کا مونس الہٰی کوکوئی فائدہ نہیں۔ شریف خاندان تمام بڑے سرکاری منصب گھر یا لاہورسے باہر جانے نہیں دیتا۔ پاکستان تحریک انصاف نے کراچی کے پارٹی لیڈر عارف علوی کو صدرپاکستان اور خیبر پختون خوا سے اسد قیصر کو اسپیکر بنایا۔ امکان ہے کہ برسراقتدار آنے کی صورت میں چودھری پرویزالٰہی کو تحریک انصاف کسی بڑے عہدے پر فائز کردے ۔ یہ نہ ہوسکا تو کم ازکم مونس الہٰی عمران خاں کا پلو پکڑ کر قومی سیاست میں بڑا کردار ادا کرنے کے قابل ہوجائیں گے۔مونس الہٰی کی عمران خاں کے ساتھ گاڑھی چھنتی بھی ہے۔ اعلیٰ تعلیم یافتہ اور امیر نوجوان عمران خاں کو بہت پسند ہیں۔ پنجاب میں نون لیگ کا مقابلہ کرنے کے لیے پی ٹی آئی کو مضبوط حلیفوںاور امیدواروں کی ضرورت ہے۔چودھری خاندان کے تعلقات کا دائرہ بہت وسیع ہے۔ اسٹبلشمنٹ کے ساتھ تعلق بھی وہ ٹوٹنے نہیں دیتے ۔ اسٹبلشمنٹ کے ساتھ اگرچہ آج کل عمران خاں کی ٹھنی ہوئی ہے لیکن یہ کوئی مستقل جنگ ہے اور نہ کوئی اصولی لڑائی۔ جلد برف پگھل جائے گی۔موجودہ اسٹبلشمنٹ اپنے گلے میں ماضی کے کردہ اور ناکردہ گناہوں کا طوق زیادہ عرصے نہیں ڈال سکے گی۔جاوید ہاشمی کے برعکس پرویزالٰہی اسٹبلشمنٹ اورعمرا ن خاں کے درمیان فاصلے کم کرنے میں معاونت کرنے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔ اقتدار سے محرومی کے بعد عمران خاں کے حق میں عوامی ہمدردی کی ایک ایسی لہر اٹھی کہ ان کے مخالفین کے اوسان خطا ہوگئے ۔ بے پناہ عوامی پزیرائی نے عمران خاں کو حوصلہ دیا کہ وہ طاقت ورطبقات کو آڑے ہاتھوں لیں۔ پنجاب کی سیاست میں جو بھی سیاستدان طاقت ور طبقات کو للکارتاہے۔انہیں چیلنج کرتاہے۔ اپنی مظلومیت کاروز ماتم کرتاہے۔ عوام کی بہت بڑی تعداد اس کے ساتھ سینہ کوبی کرتی ہے۔ جنرل قمر جاوید باجوہ اور پی ڈی ایم کی لیڈرشپ نے مل جل کر عمر ان خاں کو موقع دیا کہ وہ ہرروز شام غریباںبرپا کریں ۔چنانچہ میڈیا میں صرف اور صرف عمر ان خاں ہی زیر بحث ہیں۔ قومی اسمبلی ہویا اتحادی جماعتوں کا سربراہی اجلاس ہر جگہ عمران خاں موضوع گفتگو ہیں۔ اقتدار سے محرومی کے باوجود اس قدر پزیرائی کا غالباًعمران خاں نے کبھی خواب بھی نہ دیکھاہوگا۔ الیکشن کا اصل میدان پنجاب میں سجنا ہے۔ اسلام آباد پر حکمرانی کا ہر راستہ لاہور سے گزرتاہے۔ نون لیگ کا مقابلہ کرنے کے لیے جہاں پی ٹی آئی عمران خاں کی عوامی مقبولیت سے فائدہ اٹھارہی ہے وہاں وہ طاقت ور اور بااثر سیاستدانوں کو بھی اپنی صفوں میں شامل کررہی ہے۔چودھری پرویزالٰہی کے بعد کئی ایک اور ایلیکٹ ایبلز بھی پی ٹی آئی میں شامل ہونے کو ہیں۔ مریم نوازاسی لیے ہیجانی کیفیت کا شکار ہیں۔وہ ریٹائرڈ ہی نہیں بلکہ سپریم کورٹ کے ججوں کو بھی جلسوں میں بے نقط سناتی ہیں۔ان کا کہنا ہے کہ عمران خاںلاڈلا ہے لیکن حقیقت یہ ہے کہ اس وقت وہ طاقت ورحلقوں کی لاڈلی ہیں۔ورنہ اس جلسے کے بعدان پر توہین عدالت لگ چکی ہوتی۔ عمران خاں نے سیشن جج زبیا چودھری پر ایک جلسے میں تنقید کی تو انہیں لینے کے دینے پڑھ گئے۔ عدالت میں حاضر ہوکرانہوں نے جج زبیا چودھری سے معافی مانگی۔ فواد چودھری نے الیکشن کمیشن کے سربراہ کو غیر مناسب نام سے پکارا تو انہیں جیل کی ہوا کھانا پڑی۔عادی مجرموں کی طرح ان کے منہ پر کپڑا ڈلا گیا۔مریم نوزنے محض ججوں کے نام ہی نہیںلیے بلکہ بڑی سیکرین پر تصویریں بھی دکھائیں اور انہیں خوب لتاڑا۔ اس کے باوجود وہ موج کررہی ہیں۔ کوئی روکنے ٹھوکنے والا نہیں۔ نون لیگ کو وکٹ کے دونوں طرف کھیلنے کی عادت ہے۔ وفاقی حکومت نون لیگ کی ہے۔الیکشن کمیشن بھی انہیں بھرپور فیور دیتا ہے۔ اسٹبلشمنٹ کی آنکھ کا تارہ بھی وہ ہیں۔ اداروں کے اعلیٰ افسران بھی ان کے ساتھ ہم آہنگ ہیں۔ اس کے باوجود مریم نواز چاہتی ہیں کہ وزیراعظم شہبار شریف حکومت کریں اور مریم نواز اپوزیشن ۔ منصوبہ بہت خوب ہے لیکن عوام اب اس قدر سادہ دل نہیں رہے کہ وہ اس کھیل کو سمجھ نہ سکیں۔پنجاب اور خیبر پختون خوا میں الیکشن نوے روز میں ہونے چاہیں ۔اس موضوع پر کوئی مباحثہ ہونا ہی نہیں چاہیے تھا یہ آئینی تقاضہ ہے۔نون لیگ کو سو گنڈے اور سو ڈنڈے بیک وقت کھانے کی عادت ہوچکی ہے۔ آئینی ماہرین ہی نہیں پی ڈی ایم کے حامی وکلا بھی کہتے ہیں کہ آئین سے روگردانی نہیں کی جاسکتی۔بری کارکردگی، ابتر معاشی حالات اور کمر توڑ مہنگائی کی بدولت ووٹرز کے غیض وغضب کا شکار نون لیگ کو ہونا پڑے گا۔یہ طوق انہوں نے شوق سے اپنے گلے میں ڈالا ہے۔ اربوں کھربوں کے کرپشن مقدمات ختم کرائے۔ نیب کو غیر موثر کیا۔ اپنی مرضی سے فوج کے سربراہ کا تقررکیا۔ظاہر ہے اس کی سیاسی قیمت انہیں چکانا پڑے گی۔ باالاخر سپریم کورٹ کو بیروئے کار آنا ہوگا ۔ ملک کو دلدل سے نکالنے کا کوئی اور راستہ بچا نہیں۔ سپریم کورٹ محض آئین پر عمل درآمد کو یقینی بنائے۔ اگر ایک بار سپریم کورٹ نے تمام اداروں کو آئین کی حدود میں چلنے پر مجبورکردیاتوماضی کی غلطیوں اور ناانصافیوں سے لگنے والے سارے داغ دھل جائیں گے اور قوم انہیں معاف کردے گی۔