آج حضرت اقبالؒ کا 143واں یوم ولادت ہے‘ جسے دنیا دانائے راز اور حکیم مشرق کے القاب سے یاد کرتی ہے‘اقبال نے اس انسانیت اور عالم دنیا کو عروج‘ ارتقا‘ بلندی اور پیشوائی کے لئے حضرت محمد مصطفی کریمﷺ کے در اقدس پر سرِ نیاز جھکائے رکھنے کی تلقین کرتے ہوئے کہا تھا: پیش اوگیتی جبیں فرسودہ است یعنی حضرت محمد ﷺ کے سامنے ساری کائنات اپنی پیشانی جھکائے ہوئے ہے۔ ربیع الاول کی ان پاکیزہ ساعتوں میں ہی امتِ مسلمہ کو فرانس کے دریدہ دھن صدر کیطرف سے ہونیوالی ہرزہ سرائی کا سامنا بھی کرنا پڑا۔ لیکن دنیا نے دیکھا اور خوب دیکھا کہ تاجدار ختمی مرتبت نبی اکرمﷺ کا تذکرہ…عروج و بلندی کی عظیم سے عظیم تر منزلیں طے کرتے ہوئے آئے بڑھ رہے ہیں‘ بقول اقبال: چشم اقوام یہ نظارہ ابد تک دیکھے رفعت شان رفعنالک ذکرک دیکھے انسائیکلوپیڈیا آف برٹانیکا’’آزادی رائے‘‘کی تعریف کیساتھ،ہر اُس گفتگو ،یا رائے پر پابندی کی بات کرتا ہے جو سوسائٹی میں توڑ پھوڑ اور منفی جذبوں کے فروغ،اور سوسائٹی کے امن و امان کو سبوتاژ کرنیکا باعث بن سکتا ہو،جیسے کسی پر بہتان باندھنا،فحاشی کو رواج دینایا کسی پر بے جا دباؤ ڈالنا وغیرہ،اسی طرح اقوامِ متحدہ کے’’اعلامیہ برائے سیاسی و سماجی حقوق‘‘جو جنرل اسمبلی نے 1966ء میں منظور کیا تھا،کے آرٹیکل 20میں تشدّد کے فروغ،نسلی تعصب،مذہبی منافرت اور کسی بھی قسم کے امتیازی رویّے پر مبنی تقریر و تحریر پابندی کا ذکر ہے۔’’اظہار رائے‘‘کی بے مہار اور مادر پدر کھلی آزادی،گروہی،لسانی و علاقائی عصبیتوں کے فروغ اور باہمی فساد وجدال کا باعث بنتی ہے۔ یہیں سے دوسروں کے عقائد کی توہین اور مذہبی جذبات کی تضحیک کے راستے کھلتے اور امکان پیدا ہوتے،ہر قتل و غارت گری اور معاشرتی امن کی تباہی کے سامان مہیا ہوتے ہیں۔ دنیا کی ہر جمہوریت اور متمدن سوسائٹی میں،ایسے رویّوں کا ہمیشہ تدارک ہوا،اسے قانونی طور پر روکا اور قابلِ تعزیر جرم گردانا گیا ہے۔از خود ڈنمارک جہاں 2005ء میں خبثِ باطن کا مظاہرہ کرتے ہوئے،سب سے پہلے اس بدطینتی کا مظاہرہ کیا گیا،میں بھی ناموسِ مذہب کا قانون"Blasphemy Law" طویل عرصے سے موجود ہے،ضابطہ فوجداری کی دفعہ 140کے مطابق’’جو لوگ کسی مذہبی برادری کی عبادات اور مسلمہ عقائد کا کھلا مذاق اڑائیں یا انکی توہین کریں، تو ان کو قید اور جرمانے کی سزا دی جائے گی۔ یورپ اور امریکہ جو اپنے تمدن اور سولائزیشن پر بہت اِتراتے اور گھمنڈ کرتے ہیں، ایک طرف تو وہ جانوروں اور پرندوں کے تحفظ اور ماحول کا خیال رکھتے ہیں، لیکن دوسری طرف ، جب اسلام اور مسلمانوں کا معاملہ آتا ہے،تو انکی درندگی اور وحشت نجانے کہاں سے عود کر آتی ہے کہ وہ اسلام اور پیغمبرِ اسلام کے متعلق ایسے لب و لہجہ میں ہرزہ سرآ ہوتے ہیں کہ الامان ۔والحفیظ۔یہ عجیب معاملہ ہے کہ مذہبی اعتبار سے دنیا کی اتنی بڑی غالب اکثریت کے جذبات کو درخورِ اعتنا ہی نہیں سمجھا جاتا،اُنکے آقا و مولا کائنات کی سب سے اعلیٰ و افضل ہستی،تاجدارِ ختمی مرتبت ﷺ کی شانِ اقدس میں گستاخی کی ناپاک جسارت کر کے دنیا بھر کے مسلمانوں کی دل آزاری کی جاتی ہے، اور پھر’’آزادی اظہارِ رائے‘‘کے نام پر اسکا دفاع بھی کیا جاتا ہے۔رائے کی آزادی اور کسی دل آزاری میں زمین و آسمان کا فرق ہے۔حالانکہ’’اظہارِ رائے‘‘کے حوالے سے دنیا کی ہر سوسائٹی نے کسی نہ کسی حوالے سے ، کوئی نہ کوئی حد بندی ضرور وضع کر رکھی ہے،یہاں تک کہ یورپ اور امریکہ کے لوگ،جو عریانی اور فحاشی کے حوالے سے حد درجہ آگے بڑھے ہوئے ہیں،وہ بھی اس بات کو پسند نہیں کرتے کہ انکے بچوں میں جنسی ہیجان پیدا کرنے والی فحش فلموں اور مذہبی و نسلی تفریق اور منافرت پھیلانے والی تحریریں اور تقریریں عام ہوں،یورپ بالخصوص آسٹریا، بیلجیئم، فرانس،جرمن،پولینڈ،رومانیہ،چیکوسلواکیہ،سوئٹزرلینڈ، اسرائیل وغیرہ میں عالمی جنگوں کی تباہی کے انکار کو فوجداری جرم قرار دیا گیا ہے،اسیطرح یورپ کے اکثر ممالک میں’’ھولوکاسٹ‘‘کے انکار، بلکہ اسکے بارے میں یہ تک کہنے کی اجازت نہیں کہ’’اسمیں ہلاک شدہ یہودیوں کی تعداد مبالغہ آمیز ہے‘‘، 1984ء میں ایک سکول ٹیچر’’جیمز کنگ‘‘نے ہولوکاسٹ کے بارے میں چند الفاظ کہے تھے،اسکو نوکری سے برخاست کر کے سزا دے دی گئی۔ کینیڈا کے’’ارنسٹ رنڈل‘‘کو ھولوکاسٹ کے بارے میں تضحیک آمیز انداز اپنانے پر 15ماہ قید کی سزا دی۔یورپ اور امریکہ کے اپنے مقدسات کے حوالے سے کوئی بات نہیں کر سکتا۔ لیکن ان کو اس بات کی سمجھ نہیں آتی کہ وہ دوسرے کے جذبات و احساسات کے حوالے سے اس قدر لاتعلق اور بے نیاز کیوں ہیں؟دنیا میں جہاں بھی کوئی مذہب،کسی بھی انداز میں،اپنی روایات اور زندہ شعور کے ساتھ موجود ہے،وہاں مذہبی اقدار کو ہمیشہ ملحوظ خاطر رکھا جاتا اور جملہ مذاہب کے مقتدایان اور بانیان کی توہین کو،نہ تو وہ سوسائٹی برداشت کرتی ہے اور نہ ہی وہ ریاست،نہ ہی وہاں کی مقتدر قوتیں۔ادیان کی تاریخ میں حضرت ابراہیم ؑکو ’’جدّالانبیائ‘‘کہا جاتا ہے،بنو اسمعیل سے ہمارے آقا حضرت محمد ﷺ اور بنو اسحاق سے،انبیاء بنو اسرائیل کا ایک طویل سلسلہ اور کتبِ سماویہ کی تاریخ انسانی قلب و ذہن میں محفوظ ہے۔نمرود کے عہد میں،مقامی مذہبی روایات کو حضرت ابراہیم ؑنے جب چیلنج کیا، اور آذر سے بتوں کے بارے میں جب یہ کہا کہ انکی عبادت کیوں کرتے ہو؟جو نہ سنتے ہیں،نہ دیکھتے ہیں اور نہ ہی آپکو کوئی فائدہ پہنچا سکتے ہیں؟ تو حضرت ابراہیمؑ نے اس طرزِ تکلم اور گفتگو کو ناپسند کرتے ہوئے کہا تھا کہ’’اگر تم اس اسلوبِ فکر سے باز نہ آئے تو تجھے پتھروں سے مار ڈالا جائے گا۔ پھر جب حضرت سیدنا ابراہیمؑ نے ان بتوں کو پاش پاش کر دیا،تو مقامی بت پرستی کمیونٹی اس پر سر جوڑ کر بیٹھی اورسوچ وبچار کے بعد، انہوں نے اپنا اعلامیہ جاری کیا کہ ایسی حرکت کرنے والے کو جلا دیا جائے۔پھر ایسا ہی ہوا،نمرود نے حضرت ابراہیم ؑ کیلیے آگ کا بہت بڑا الاؤ روشن کیا ۔اقبالؒ پکار اٹھے: بے خطر کود پڑا آتشِ نمرود میں عشق عقل ہے محوِ تماشۂ لبِ بام ابھی گویا مذہبی جذبات خواہ جھوٹے بھی ہوں،دینی مقتدا ۔۔۔ باطل اورغلط ہی کیوں نہ ہوں،انکے پیرو اور ماننے والے،انکے خلاف بات سننے کے روادار نہیں ہوتے،ان کی توہین پر جلا دینے اور سنگسار کر دینے تک چلے جاتے ہیں۔ سقراط کو زہر کا پیالہ پینے پر کیوں مجبور کیا گیا؟عیسائی ادوار میں نامور سائنسدان گلیلیؤ کو سزائے موت کا حکم کیوں سنایا گیا۔ بائبل کتاب استثنا میں ہے کہ’’اگرکوئی گستاخی سے پیش آئے،اور کاہن کی بات اور قاضی کا کہا نہ مانے،تو وہ شخص مار ڈالا جائے‘‘۔ اٹھارویں صدی تک برطانیہ اور اس سے متعلق دیگر خطوں اور ملکوں میں’’توہینِ مسیح‘‘کی سزا موت ہی تھی، اس سلسلے میں الزبتھ دور (۱۵۵۳ئ) میں ۷ افراد کو موت کی سزا دی گئی،ہنگری میں (۱۵۵۹ئ) ڈیوڈ نامی پادری اسی جرم کی پاداش میں سولی چڑھایاگیا۔اب اگرچہ برطانیہ میں کامن لاء ہے،پھر بھی اسکی رَو میں جو توہین مسیح یا کتاب مقدس کی سچائی کا انکار کرے وہ بلاسفیمی (Blasphemy)کا مرتکب ہوگا،اور اس کی اس حرکت کو تخت و تاجِ برطانیہ یا حکومت کے خلاف بغاوت تصوّر کرتے ہوئے،اس جرم میں عمر قید تک سزا ہو سکتی ہے۔