ڈیڑھ ارب مسلمانوں کے اس جم غفیر کو اس بات کا اندازہ تک نہیں کہ 1920 سے جو یہودی یورپ اور امریکہ سے اپنی پرآسائش زندگی چھوڑ کر بحر طبریہ کے کنارے وسیع و عریض صحرا میں آباد ہونا شروع ہوئے تھے۔ وہ اس وقت آسمان کی فضاؤں میں موجود دنیا کی سب سے بڑی جاسوسی کرنے والی قوت "Espionage Power"بن چکے ہیں۔ پوری دنیا میں بسنے والے سات ارب سے بھی زیادہ انسان ان کی براہ راست نگرانی میں ہیں۔ پہلی جنگ عظیم میں جنم لینے والی جاسوسی یا خفیہ ایجنسیاں جو دوسری جنگ عظیم کے بعد بہت زیادہ طاقتور ہو گئی تھیں اور انہوں نے ستر سال آپس میں ایک سرد جنگ بھی لڑی، دنیا بھر کے ممالک کو اپنی انگلیوں پر نچایا، جہاں چاہا قتل و غارت کروائی اور جس جگہ سوچا وہاں بدامنی و لاقانونیت پھیلا دی، لارنس آف عریبیا جیسے جاسوس سے خلافت عثمانیہ کے خاتمے سے لے کر افغان جہاد کے چارلی ولسن تک سب کے سب خفیہ سرگرمیوں کے ماہرین اسرائیل کی "UNIT 8200"کے سامنے ہاتھ باندھے کھڑے ہیں۔ یہ ایسی کونسی بلاہے جس نے دیگر اقوام کو شکست دینے والی عالمی طاقت امریکہ اور اس کے تمام حواری یورپی ملکوں کے علاوہ روس، چین، بھارت اور جاپان کو بھی اپنی اہلیت کے سامنے سجدہ ریز ہونے پر مجبور کر دیا ہے۔ اسرائیل کے نیگو (Negve) صحرا کے شہر بیر شیوا (Beer Sheva) میں اس سائبر جاسوس ایجنسی "Cyber spy Agency"کے دفاتر اور تعلیمی ادارے ہیں۔ یہ یونٹ جسے عرف عام میں یونٹ 8200 کہا جاتا ہے اس کا عبرانی زبان میں نام "شمعون ماتایم" (Shamone Matayim)ہے۔ یہ یونٹ 1952 میں اس محدود سازو سامان سے قائم کی گئی جسے امریکہ کی فوج نے زائد سمجھ کر اسرائیل کو بخش دیا تھا۔ آج یہ دنیا کی سب سے بڑی سائبر خفیہ ایجنسی بن چکی ہے جس کے اندر یہ صلاحیت موجود ہے کہ وہ دنیا بھر خصوصاً مشرق وسطیٰ، یورپ، ایشیا اور افریقہ میں ہونے والی تمام ٹیلیفون کالوں کو سن سکے، ریکارڈ کر سکے، تمام ای میلز پڑھ سکے، فضا میں بلند ہونے والے جہاز ، اور زمین پر چلنے والی گاڑیوں کی نقل و حرکت کی نگرانی کر سکے۔ دنیا بھر میں موجود کسی بھی کمپیوٹر میں کسی وائرس کو جنم دے کر اسے ناکارہ بنا سکے اور پوری دنیا کے الیکٹرانک اور پرنٹ میڈیا پر ہونے والی گفتگو اور لکھے جانے والے الفاظ کو مسلسل اپنی نگاہ میں رکھ سکے۔ یہ صلاحیت اس وقت دنیا کے کسی طاقتور ترین ملک کے پاس بھی نہیں ہے۔ اسرائیل نے یہ صلاحیت کیسے حاصل کی اور اتنی جلدی کیسے دنیا کے بڑے بڑے ملکوں کی سائبر خفیہ ایجنسیوں کو پیچھے چھوڑا، یہ مقصد کے حصول کی شاندار کہانی ہے۔ اسرائیلی سائبر جاسوس یوں تو مدتوں امریکی سائبر ایجنسی NSA کے ساتھ کام کر رہے تھے اور ان کا زیادہ تر کام دنیا بھر کے کمپیوٹرز کو ہیک کرنا تھا۔ یہ بنیادی طور پر ایک خاموش کام تھا جس کا مقصد زیادہ سے زیادہ معلومات حاصل کرنا تھا، ان معلومات کی بنیاد پر آگے کیا کرنا ہے یہ سب فوج، بڑی خفیہ ایجنسیوں اور حکومتوں کے ذمے تھا۔ لیکن اسرائیلی نوجوانوں نے ایک دن ایک سائبر حملہ آور ہتھیار Stuxnet ایجاد کرلیا۔ اس پراجیکٹ پر یہ لوگ 2005 سے کام کر رہے تھے اور بالآخر 2010 میں انہوں نے اسے ایران کے ایٹمی پروگرام کے خلاف استعمال کیا اور کہا جاتا ہے کہ اسے اچھا خاصا نقصان پہنچایا۔ اس سائبر ہتھیار کے بعد ایک راستہ کھل گیا کہ اب یہ گروہ صرف معلومات اکٹھا کرنے والی ایجنسی نہیں رہے گا بلکہ اسے یہ اختیار مل گیا کہ اپنے طور پر پوری دنیا پر ایک سائبر جنگ بھی مسلط کر سکتا ہے۔ اس کے بعد کے آٹھ سال اسرائیل کی فضا میں موجود سیٹلائٹ، ڈرونز، چاروں جانب پھیلے مواصلاتی رابطوں کی دنیا میں ہمہ گیر ترقی کے سال ہیں۔ اسرائیل نے یہ کام اپنی قوم کے نوجوانوں سے لیا۔ یونٹ 8200 میں ایک ہائی سکول کا طالب علم تیرہ، چودہ سال کی عمر میں شامل کر لیا جاتا ہے اور وہ 18 سے 19 سال کی عمر تک پہنچتے ہی دنیا بھر میں پھیلے اسرائیلی جاسوسی نظام کا حصہ بن جاتا ہے وہ عالمی سیٹلائٹ، سیل فون، وائی فائی، انٹرنیٹ اور کمپیوٹر کی شاندار ترین دنیا میں اس کھلاڑی کی طرح داخل ہوتا ہے جسے ان سب پر عبور اور کمانڈ حاصل ہوتی ہے۔ یہ یونٹ کسی فوجی طرز کی تنظیم نہیں بلکہ ایک ایسا علمی اور تحقیقی ماحول والا ادارہ ہے جس پر رشک کیا جاسکتا ہے۔ 2009 میں جو کتاب بیسٹ سیلر یعنی بہت زیادہ بکنے والی قرار پائی اس کا نام "Start up Nation"تھا اور اس میں اسرائیل کی اس بڑھتی ہوئی قوت اور عالمی بالادستی کا تذکرہ تھا۔ اس کتاب میں اس یونٹ 8200 کو ہاورڈ، پرنسٹن اور ییل جیسی یونیورسٹی سے زیادہ تحقیقی اور علمی ادارہ کے طور پر دکھایا گیا ہے۔ 2012 تک اسرائیل نے یہ صلاحیت حاصل کر لی تھی کہ وہ پوری دنیا میں کسی بھی ملک پر منظم سائبر حملہ کر سکتا تھا۔ جون 2012 کو تل ابیب یونیورسٹی میں اس وقت کے وزیر دفاع ایہود بارک نے اعلان کیا کہ ہم اب حملہ آور پوزیشن میں آگئے ہیں، دنیا ہم سے خبردار رہے۔ فضاؤں میں یہ طاقت تین بنیادی کام کرسکتی ہے 1) اسرائیل اپنے کسی بھی دشمن کو اسرائیل کے خلاف کسی بھی قسم کی منصوبہ بندی سے روک سکتا ہے، خلل ڈال سکتا ہے بلکہ اسے اس کے گھر میں ہی تباہ کر سکتا ہے۔ اس کی مثال ایران کی ایٹمی تنصیبات کے کمپیوٹروں پر وائرس حملہ تھا تاکہ وہ ناکارہ ہو جائیں۔ لیکن ثابت یہ ہوا کہ صرف ناکارہ بنانا کافی نہیں، کیونکہ ایران نے اپنا پروگرام جاری رکھا اس لیے اسرائیل نے پروگرام کو مزید وسعت دی اب اسکا دوسرا کام یہ بھی ہے کہ وقت سے پہلے دشمن کی تمام پلاننگ کی مسلسل خبر رکھنا اور بتانا کہ دشمن کی افواج یا دشمن ملک کس قسم کی تیاریوں میں مصروف ہے اور آخری کام یہ کہ دشمن کی حملہ کرنے کی صلاحیت اور طاقت کو اس کے ملک میں ہی ختم کر کے رکھ دینا بلکہ مستقل طور پر ناکارہ بنا دینا۔ یہ تینوں کام ایسے ہیں جو اسرائیل بغیر کسی سپاہی کو محاذ جنگ پہ بھیجے، اپنے اس صحرائی ہیڈ کوارٹر میں بیٹھے بیٹھے کمپیوٹر سے کھیلتے اور سیٹلائٹ کے ذریعے اپنے ٹارگٹ پر حملہ کرتے ہوئے، کر سکتا ہے۔ اس یونٹ 8200 کے تیار کردہ نوجوان دنیا بھر کی سکیورٹی سروسز میں بھرتی ہوتے جا رہے ہیں۔ جہاں جہاں اسرائیلی سفارت خانہ ہے وہاں اس ایجنسی کا ایک مرکز بھی ہے جس سے پورے ملک کی نگرانی ہوتی ہے اور جہاں سفارت خانہ موجود نہیں وہاں اسرائیل کے گماشتے، عالمی کمپنیوں اور این جی اوز کے روپ میں پہنچے ہوئے ہیں۔ جان ریڈ "John Reed" نے جب اس یونٹ کا دورہ کیا تو وہ حیران رہ گیا کہ یہ 18 سال سے کم عمر بچے اس قدر پیشہ ورانہ صلاحیتیں رکھتے ہیں کہ ہر کسی نے ایک "ہیکنگ ٹول" ایجاد کر رکھا ہے۔ اس ادارے میں اسرائیل کی بیس فیصد عرب آبادی کو گھسنے کی اجازت نہیں۔ اس ادارے کے سکیورٹی سسٹم کی دنیا بھر میں اس قدر مانگ ہے کہ اسرائیل نے گذشتہ سال چھ ارب ڈالر کا سائبر سکیورٹی سامان بیچا ہے۔ دنیا بھر کے یہودی 1920 سے اسرائیل میں کیوں جمع ہو رہے ہیں؟کیا وہ اسرائیل کو ایک خوبصورت ملک بنانا چاہتے ہیں جیسے سوئٹزرلینڈ وغیرہ، کیا وہ اسے امریکہ، انگلینڈ اور فرانس کا نعم البدل بنانا چاہتے ہیں۔ ہرگز نہیں، وہ ایک بہت بڑی جنگ کی تیاری میں ہیں۔ اسی لیے ان کے سرمایے کی اسی فیصد انویسٹمنٹ دفاع میں ہے۔وہ ایک ایسی جنگ کا خواب دیکھتے ہیں جس کے بعد ان کی عالمی حکومت قائم ہوگی۔ لیکن وہ مسلم امہ جس کی قرآن اور سید الانبیائﷺکی احادیث نے قدم قدم پر رہنمائی فرمائی اسے اسکی خبر تک نہیں۔ قرآن میں قیامت کے نزدیک کی نشانیوں میں سے صرف ایک نشانی کا ذکر ہے اور وہ ہے یاجوج و ماجوج۔ اللہ ان کی آمد کی دو علامتیں قرآن پاک کی سورہ انبیاء کی آیت میں بتاتا ہے "ہم نے اس بستی کو ہلاک اور ان کے رہنے والوں کا وہاں لوٹ کر واپس آنا حرام قرار دے دیا۔ اب یہ اس وقت واپس آئیں گے جب ہم یاجوج اور ماجوج کو کھول دیں گے اور وہ ہر بلندی سے حملہ آور ہوں گے (الانبیاء : 96-95)۔یہ بستی یروشلم کی ہے جس سے یہودی 70 عیسوی میں نکالے گئے اور پھر 1920 میں واپس آئے، گویا قرآن کے مطابق اسی وقت یاجوج اور ماجوج کھولے گئے۔ دوسری نشانی یاجوج ماجوج کی یہ ہے کہ وہ بلندی سے حملہ آور ہوں گے یعنی فضا، سائبر سپیس، سیٹلائٹ وغیرہ۔آج اسرائیل کی یونٹ 8200 کا فضا پر قبضہ مسلم ہو چکا ہے۔ اللہ نے اقبال کو جو قرآنی بصیرت دی تھی انہوں نے اس آیت کی تفسیر کرتے ہوئے اسی وقت خبردار کیا تھا کھل گئے یاجوج اور ماجوج کے لشکر تمام چشم مسلم دیکھ لے تفسیر حرف ینسلون