منڈی بہاؤالدین کا لہجہ پڑھ لکھ کر اسلام آباد سے ڈاکٹریٹ کرلے۔روایتی طنز و مزاح سے کھلواڑ کرے ا ور ہو بھی عورت کے پیکر میں۔یہ چار عناصر پورے ہوجائیں تو کیا بنتا ہے کچھ بھی نہیں۔سب کچھ بگڑتا ہی بگڑتا ہے۔ فاخرہ کے لیے ایک لفظ منتخب کروں تو وہ لفظ ’’ ـ چلبلی‘ ‘ ہوگا۔ظرافت کا لفظ فاخرہ پر ذرا بھی نہیں جچتا کہ ذرا شائستہ اور مہذب لفظ ہے ۔طنز فاخرہ کا ہتھیار ہے ہی نہیں۔شگفتگی کے لفظ میں پُرگوشت جگہ پرچٹکی بھرنے کی پُرلذت سسکاری نہیں پائی جاتی۔مزاح کچھ پاکیزہ سا لفظ ہے جو فاخرہ کیـ چنٹ طبیعت اور لفنٹر تحریر سے لگا نہیں کھاتا۔ بذلہ سنجی؟ توبہ کیجیے توبہ ۔قلم برداشتہ ؟ چھوڑیے بھی منہ سے کیا نکلوائیں گے۔ کوئی ایسا شرارتی لفظ تراشنا پڑے گا جو ان سے الگ ہو۔صرف الگ ہی نہ ہو ،اِن کی جان کو آجائے جیسے فاخرہ نورین اردو ادب کی جان کو آئی ہوئی ہے۔ شاعری یہ کر رہی ہے۔تنقید یہ لکھ رہی ہے۔مزاح کے گوڈوں گٹّوں میں یہ آبیٹھی ہے۔کالج میں اردو ادب یہ پڑھا رہی ہے۔اردوکالم کے نام سے ادبی جریدہ یہ سنبھالے ہوئے ہے۔حلقہ ارباب ذوق کی سیکرٹری یہ بن چکی ہے۔ مباحثوں اور کانفرنسوں میں یہ مضامین پڑھ رہی ہے ۔محفلوں کی نظامتیں یہ بھگتا رہی ہے، ادیبوں شاعروں کو یہ پھڑکا رہی ہے۔اور یہ سب ناصبور کبوتر جال میں نہیں، آشیانوں میں پھڑک رہے ہیں۔ تو کیا غلط کہا میں نے کہ اردو ادب کی جان کو آئی ہوئی ہے۔اور یہ مسئلہ میری جان کو آیا ہوا ہے کہ موزوں لفظ ہے کیا؟لیکن فی الوقت مجبوراً انہی لفظوں پر گزارا کرنا پڑے گا۔ انہی دنوں اس کی پہلی چٹخارے دارکتاب ’’ ـ خندہ ہائے زن‘ ‘ چھپی ہے جس میں گرم مصالحے والے کئی مضمون شامل ہیں ۔مجھے پتہ نہیں کہ فاخرہ اردو ادب کی پہلی خاتون مزاح نگار ہے یا نہیں۔محققین جو کب سے بیٹھے ہوئے مسلسل روٹیاں توڑ رہے ہیں، ذرا دیکھیں کہ یہ کیس دراصل ہے کیا۔لیکن میں یہ ضرور جانتا ہوں کہ کتاب چھپنے سے پہلے ہی فاخرہ نے بطور مزاح نگار اپنی مہر بنواکر دھڑادھڑ ٹھپے لگا دئیے ہیں ۔سو فاخرہ نورین کے چلبلے اورنکیلے فقرے پیش کیے بغیر گزرنا مشکل ہے ۔ ’’ ـ عمر کی ایک آدھ سیڑھی اور چڑھے تو اردو پڑھنے کی استعداد بھی ہمارے ساتھ ہی چھلانگیں مارتی سیڑھیاں چڑھ گئی۔‘ ‘ ’’ ـ دراصل زچہ کے تیمار دار کی حیثیت گالف کے کھلاڑی کے ساتھ ساتھ چلتے اس کیڈی کی سی ہے جو گالفر کی تمام اسٹکس کا بوجھ اٹھائے خوار ہوتا رہتا ہے مگر کسی کریڈٹ کا حقدار نہیں ٹھہرتا۔‘ ‘ ’’ ـ بہت سوچ بچار کے بعد ہم اس نتیجے پر پہنچے کہ بہت دنوں سے اچھا کھانا یعنی اپنے ہاتھ سے پکا کھانا نہیں کھایا۔چنانچہ بڑے اہتمام سے کھانا پکایا اور اس سے اکیلے لطف اندوز ہونے کی کوشش کی ،مگر یہ بہت کچھ خود لذتی سے مشابہ عمل ہے کہ فراغت کے بعد بھی تشنگی کا احساس ختم نہیں ہوتا۔‘ ‘ ’’ ـ ویسے بھی ہم نجیب الطرفین بٹ ہیں۔ ہمارے یہاں بیماری میں ہلکا پھلکا کھانا مرغن و مچرب کھانے کے بعد کھایا جاتا ہے۔‘ ‘ ’’ ـ ہم نے اسے گالی نما اطلاع دی کہ اس کی ناک بہت چھوٹی ہے اور کم از کم اتنی چھوٹی ضرور ہے کہ وہ ’’ ـ پھینی‘ ‘ کہلانے کی مکمل حقدار ہے۔اس نے جوابی حملے میں بم پھوڑا کہ ہمارے کان اور پاؤں بھی مطلوبہ سائز سے کافی کم ہیں۔‘ ‘ ’’ ـ بچپن ہی سے ہماری شکل اور طبیعت پر مسکینی برس رہی تھی لہذا اپنی حقیقت پسندی کی بنیاد پر ہم یہ انداز ہ لگا چکے تھے کہ کوئی پرنس چارمنگ کسی سفید تو ایک طرف سیاہ گھوڑے پر سوار بھی ہماری طرف کا رخ نہیں کرے گا اور ہمارے پاس مجبورا شریف/بدشکل عورتوں کی طرح سلیقہ شعاری کا ہتھیار ہی بچا تھا جس سے کسی خوفناک دیو کو قابو کرنے میں کامیابی کا امکان تھا۔‘ ‘ ’’ ـ ٹھیکے پر پل بنانے اور مناسب وقفے کے بغیر بچے پیدا کرنے والوں سے ہمیں چڑ ہے ‘ ‘ ’’ ـ Theory of Relativity کو بعض کم علم اضافیت کا نظریہ سمجھتے ہیں مگر دراصل relativity سے مراد رشتے داری ہے۔ ’’ ـ رشتے داری کا نظریہ‘ ‘ یہی ہے کہ کسی بھی طرح دوسرے کا سانس لینے کے لیے کھولا گیا وہ ساتواں در بند کیا جائے ۔‘ ‘ بہت سے اقتباس یہاں پیش کیے جاسکتے ہیں لیکن اگر آپ نے ’’ ـ خندہ ہائے زن‘ ‘ پڑھنے کی ٹھان ہی لی ہے تو آپ پر واجب ہے کہ دوسری تحریروں سے اس طرح بعجلت گزر جائیں جیسے اپنی بیوی کی باتوں سے گزرا جاتا ہے لیکن پرائی بیگم کی باتوں کی طرح فاخرہ کی تحریر سہج سہج پڑھیں۔ فاخرہ کی ’’ ـ دیوارِقہقہہ‘ ‘ بے ساختگی سے بنی ہے جس میں جا بے جا ساختہ اینٹیں بھی نظر آتی ہیں.جیسے سنگ ِسرخ کی عمارت میں سرخی مائل سنگ ِ زرد بھی اپنی چھب دکھلاتا ہے۔فاخرہ تنقید ،تعلیم اور مزاح کی لمبی چوڑی بدیسی اصطلاحات کے حوالے بھلے دیتی رہے لیکن وہ اصلاً خود بھی دیسی ہے اور اس کا مزاح بھی سراسر دیسی ہے بلکہ دیسی گھی جس کی خوشبو اور ذائقہ کسی ولایتی گھی سے نہیں ملتے۔وہ اس کا بڑا سا پیڑا مکئی کی تازہ اُتری سوندھی لو والی روٹی پر رکھتی ہے، پھر اس کا ایک گرم ٹکڑا توڑ کر گھی اور چنے کے ساگ میں لپڑا ہوا لقمہ آپ کو کھلاتی ہے۔دھات کا لمبا مخروطی گلاس اس کے دوسرے ہاتھ میں ہے جس میں ٹھنڈی میٹھی لسی پر مکھن کا ٹکڑا تیر رہا ہے۔ گھی ،ساگ ،مکھن ،لسی،فاخرہ اور آپ ۔لیکن مجھے شبہ ہے کہ آپ غلط سمجھ رہے ہیں اورخوش فہمی کا شکار ہونے سے بہتر ہے کہ ایک بار اس سے مل لیں تاکہ آپ سمجھ سکیں کہ میری مراد اصل میں کیا ہے۔ وہ جو یوسفی نے اور بہت سے باکمالوں نے شرط ِ اول یہ رکھی ہے کہ مزاح نگار دوسرے کرداروں سے زیادہ اپنے آپ پر ہنس سکتا ہو بلکہ ٹھٹھا اڑا سکتا ہو۔ یہ بہت اونچی دیوار پھاند کر فاخرہ اس میدان میں داخل ہوئی ہے۔دوسری شرط یہ ہے کہ مزاح گو کے لہجے میں قند ہو یا خند، زہر خند ہرگز نہیں۔اس شرط کے پورے ہونے کا مجھے شک اور انتظار ہے۔