سنا ہے وزیر اعظم چین جا رہے ہیں۔ میں ان کے اس دورے کو ان کے دورہ امریکہ سے بھی اہم سمجھتا ہوں۔ امریکی دورے کی سمت کا ہمیں اندازہ تھا۔ وائٹ ہائوس میں ٹرمپ سے عمران خاں کی ملاقات اسی سمت کا ایک کلائمکس تھا۔ دوسرا کلائمکس ہمارے آرمی چیف کو پینٹا گون میں 21توپوں کی سلامی ملنا۔ بات طے تھی کہ ہم کس سمت جا رہے ہیں۔ اس کے لئے آئی ایم ایف نے ہم سے مناسب قیمت وصول کر لی تھی۔ چین کے دورے کے بارے میں البتہ طے نہیں کہ اس کی سمت کیا ہے اور اس کا بھی کلائمکس ہے کہ نہیں۔ یہ با ت ہے کہ اس بار ہمارا آئی ایم ایف کے پاس جانا ماضی کی طرح ایک معمول کی بات نہ تھی۔ بلکہ ہمیں ایک دوراہے پر کھڑا کر کے پوچھا جا رہا تھا کہ سی پیک یا آئی ایم ایف۔ ہم میں اتنی سکت نہ تھی کہ ہم آزادانہ فیصلہ کر سکتے۔ ہم جانتے تھے پوچھنے والے کیا چاہتے ہیں۔ ہم نے چپکے سے سر جھکا کر آئی ایم ایف کی راہ لی۔ جب یہ نئی حکومت آئی تھی تو اس کے ایک سینئر جو پارٹی میں باہر سے لائے گئے تھے۔ بڑی صاف گوئی سے کہہ رہے تھے ہمیں سی پیک کو ایک سال کے لئے موخر کر دینا چاہیے۔ وہ ہم نے کر دیا ہے۔ اب اس دورے سے یہ طے ہونا ہے کہ ہم مزید موخر کرنے پرمجبور ہیں یا اپنی ترقی کا سفر دوبارہ شروع کرنا چاہتے ہیں۔ چین بلا شبہ ہمارے ترقی کے سفر کی علامت تھی اور ہے۔ آئی ایم ایف میں جا کر ہم نے اپنی اقتصادی خود مختاری اور ترقی کی رفتار کا سودا کیا ہے۔ یہ اب کوئی خفیہ رازنہیں ہے کہ اس سال بجٹ سازی کے وقت جب ہمارے منصوبہ سازوں نے 4فیصد ترقی کاہدف مقرر کرنا چاہا جو اگرچہ بہت کم تھا تو انہیں وزارت خزانہ نے بتایا کہ نہیں ہماری شرح نمو اس سال صرف 2.4فیصد رکھنا ہے۔ میں تو معیشت دان نہیں ہوں مگر اتنا جانتا ہوں کہ شرح نمو کو کم کرنے کا مطالبہ کون کرتا ہے اور اس کے لئے کیسے دلائل دیتا ہے۔ اکناک ہٹ مین کا ہم بار بار تذکرہ کرتے رہتے ہیں۔ یہ کتاب ایک بار پڑھ لیجیے۔ معلوم ہو جائے گا کہ لاطینی امریکہ میں آئی ایم ایف نے کیا کھیل کھیلا تھا۔ مجھے یاد ہے کہ ایک بار ارجنٹائن سے شرح نمو کم کرنے کا مطالبہ ہوا تھا کہ معیشت اوور ہیٹ ہو گئی ہے۔ انجن گرم نہیں ہو جایا کرتا۔ اس برس سابقہ پروجیکشن کے مطابق 7فیصد شرح نمو ہونا تھی۔گزرے برس میں 6.2فیصد اور سابقہ حکومت 5.8فیصد چھوڑ کر گئی تھی۔ کیا ملا ہمیں شرح نمو کم کر کے۔ غربت ‘ بے روزگاری‘ مہنگائی ذہنی انتشار‘ آپ کہتے ہیں معیشت کو درست کر رہے ہیں وہ کونسی درستی ہے جو عوام سے سب کچھ چھین لے اور آپ کہیں ہم معیشت درست کر رہے ہیں۔ اس پر کیا کہا جائے گا۔ دو تین سوال اٹھائے جاتے ہیں جو بتاتے ہیں کہ معیشت میں کیا درست کیا جا رہا ہے۔ ایک تو کہا جاتا ہے کہ قرضے بہت بڑھ گئے تھے۔ خسارہ بہت زیادہ ہو گیا تھا۔ یہ خسارہ 19بلین ڈالر تھا۔ ہمیں اس سال 12ارب ادا کرنا تھے۔ کہاں سے ادا کرتے؟ دیوالیہ ہو جاتے کہنے والوں کے منہ میں خاک۔ ایسا کچھ بھی نہ ہوتا۔ میں نہیں جانتا کہ اس زمانے کے معاشی منصوبہ سازوں کے ذہن میں کیا تھا اور میں devils Advocate.بننے کی خواہش بھی نہیں رکھتا۔ تاہم آپ کسی کو شیطان بنا کر الزام لگاتے ہیں تو اسے بھی دفاع کا حق تو دیں۔ پہلی بات یہ سمجھ لینے کی ہے کہ حکومتوں کے قرضے افراد اور اشخاص کے قرضوں کی طرح نہیں ہوتے۔ کمپنیوں کے قرضوں کی طرح بھی نہیں۔ انہیں Sovereign debtکہا جاتا ہے۔ جو ریاست کے بہترین مفاد میں لئے جاتے ہیں۔ امریکہ کا سارا انفراسٹرکچر شاید انہیں قرضوں کا مرہون منت ہے۔18,17ٹریلین کی معیشت ہے اور قرضے اس سے بھی زیادہ غالباً 23ٹریلین ہیں۔ ہو سکتا ہے اعداد و شمار اب بدل گئے ہوں مگر امریکہ کے قرضے اس کی سالانہ جی ڈی پی سے بڑھ گئے ہیں۔ چین ‘ جاپان اور جانے کن کن نے اس کے ٹریژری بل خرید رکھے ہیں۔ کسی نے کبھی کہا کہ امریکہ کا ہر شہری پیدا ہوتے ہی اتنے قرضوں کے بوجھ تلے دبا ہوتا ہے۔ کسی نے کہا قرضے لے کر امریکی حکومت سڑکیں ‘ پل‘ انڈر پاسز بنا رہی ہے عوام کو سہولتیں دے رہی ہے۔ اپنے لوگوں کو سستی اشیا فراہم کر رہی ہے۔ بلکہ دنیا بھر میں جنگیں بھی لڑتی پھرتی ہے۔ یہ سب ہمارے ہاں پوچھا جاتا ہے۔ پنجاب کو مقروض کر دیا۔ کیا ہوا قرض لے کر میٹرو بنا ڈالی اور اوپر سے عوام کو سبسڈی بھی دے رہے ہیں۔ یہ بات میں پہلے بھی لکھ چکاہوں کہ ہم پر یہ عذاب اچانک نئی حکومت کے آنے سے نازل نہیں ہوا جب 16کے آخر میں سیاسی بحران پیدا ہوا صاف لفظوں میں نواز شریف پر مقدمہ شروع ہوا تو اس وقت سے لے کر اٹھارہ ماہ میں کوئی 15بلین ڈالر ملک سے باہر چلے گئے۔ یہ اعداد و شمار میرے نہیں۔ ممتاز معیشت دان ڈاکٹر شاہد حسن صدیقی کے پیش کردہ ہیں۔ سابقہ معاشی پالیسی یہ تھی کہ تین کاموں کو اولیت دی جائے۔ 1۔امن و امان کو ترجیح دی جائے۔ 2۔ انفراسٹرکچر تعمیر کیا جائے۔ 3۔ انرجی کا مسئلہ حل کیا جائے یہ تینوں کام خاصی حد تک ہو چکے تھے۔ سرمایہ کاری کے لئے بہترین صورت حال پیدا ہو گئی تھی۔ سرمایہ کاری کے عالمی اداروں نے آپ کی ریٹنگ Aون پلس کر دی تھی۔ سرمایہ دار آ رہے تھے۔ غالباً اندازہ تھا کہ چھ سے آٹھ بلین ڈالر کی سرمایہ کاری متوقع ہے۔ ہو سکتا ہے کہ یہ پروگرام بھی ہو کہ دو چار ارب کی نجکاری کر کے ہم زرمبادلہ کافرق کم کر دیں گے۔ پھر بھی ضرورت پڑی تو ایک دو ارب ڈالر کے سکوک بیچے جا سکتے ہیں۔ یہ فرق دور کرنا مشکل نہ تھا۔ تھوڑا بہت دوست ملکوں کے پاس جانا پڑتا تو مشکل نہ ہوتا ان کی گاڑیاں ڈرائیور نہ کرنا پڑتیں۔ چین سے تو سرمایہ آ رہا تھا۔ وہ حالات آن پہنچے تھے جب وہاں سے بھی براہ راست سرمایہ کاری آتی۔ سارا کھیل بگاڑ دیا۔ مجھے بتائیے اور دوسری حکمت عملی کیا ہوتی کیا امن و امان کے بغیر سرمایہ کاروں کو دعوت دے سکتے تھے۔ انفراسٹرکچر کے بغیر صنعت کاری ممکن تھی اور انرجی کا مسئلہ طے کئے بغیر معیشت کی گاڑی چل سکتی تھی۔ جن چیزوں میں تاخیر کی گئی وہ اسی دن کے انتظار میں کی گئی۔ وہ دن آن پہنچا تو ساتھ اچکے بھی آن پہنچے۔ دوسرا سوال یہ اٹھایا جاتا ہے کہ معیشت کو درست کرنے کے لئے حکومت کی آمدنی بڑھانا ضروری ہے۔ خاص کر ٹیکسوں کی آمدنی میں اضافہ۔ یہ تو سیدھی سی بات ہے کہ اس کا ایک طریقہ وہ ہے جو اب اختیار کیا جا رہا ہے کہ ڈنڈا ڈلایا جائے ۔ سختی اور جبر کیا جائے اور دوسرا یہ کہ شرح نمو میں اضافہ کیا جائے۔ ٹیکس خود بڑھ جائے گا جب گزشتہ حکومت آئی تھی تو ریونیو سے آمدنی 2ہزار بلین سے بھی کم تھی جب گئی تو 4ہزاربلین کے قریب ہو چکی تھی۔ شرح نمو یا ترقی کی رفتار جاری رہتی جو طے کی گئی تھی اور اس کے لئے قرضہ آتا یا سرمایہ کاری یا گرانٹ‘ تو یہ آمدنی خودبخود اس سے زیادہ ہو جاتی جو ہم نے مقرر کر رکھی ہے مجھے حضرت عمر بن عبدالعزیزؓ کے زمانے کی وہ باتیں یاد آ رہی ہیں جو جبری ٹیکس کے نظام کی حوصلہ شکنی کرتی ہیں۔ دنیا کے کسی حکمران نے جبری طور پر ٹیکس وصول کرنے کو حکمرانی کے اعلیٰ اصولوں میں نہیں گنا ہے۔ ہم قومی آمدنی بڑھا کر ٹیکس نہیں بڑھا رہے۔ بلکہ شبر زیدی کے ڈنڈے سے بڑھانا چاہتے ہیں۔ یہ سب آئی ایم ایف کے تحفے ہیں۔ ہم نے ڈالر کی قیمت بڑھا دی (یاد رہے آغاز عبوری حکومت اور مفتاح اسماعیل کے زمانے میںہو گیا تھا) شرح سود میں اضافہ کر دیا۔ اس سے کیا انقلاب آیاکرتے ہیں ! کون جانتا ہے آئی ایم ایف نے کیاکیا شرائط لگا رکھی ہیں۔ تاجر کہتے ہیں شناختی کارڈکا معاملہ ختم کرو حکومت کہتی ہے یہ نہیں کر سکتے۔ آئی ایم ایف سے وعدہ کر رکھا ہے۔ ایک منصوبے کے تحت اس حکومت کے آنے سے ذرا پہلے یہ پروپیگنڈہ شروع کر دیا گیا تھا کہ سی پیک کی شکل میں نئی ایسٹ انڈیا کمپنی آ رہی ہے ذرا حساب لگا لیجیے۔ ایسٹ انڈیا کمپنی کون ہے سی پیک یا آئی ایم ایف۔ اصل لڑائی یہی ہے یہ بات تو میں نے خود نواز شریف سے جیل میں سنی ہے کہ اس سی پیک کی وجہ ہی سے وہ جیل میں ہیں۔ آنے والے یا اتنے باہمت نہ تھے یا وہ پہلے یہ طے کر چکے تھے کہ انہیں بہتے پانیوں کے ساتھ بہنا ہے۔ اچھی بات ہے مگر مسئلہ یہ ہے کہ بہائو کے رخ پر ہماری منزل نہیں ہے ہم کم از کم 5سال پیچھے رہ چکے ہیں۔7فیصد شرح نمو جو ہم نے اس سال حاصل کرنا تھی نئے منصوبے کے تحت اب شاید 2025ء میں حاصل کریں۔ صرف اتنی بات نہیں بلکہ اس کے اثرات ہر سال ملٹی پلائی ہوتے جاتے ہیں اور کم شرح نمو سے مسائل بھی ملٹی پلائی ہو جاتے ہیں ہم اس چکر میں پھنس گئے ہیں۔ صنعت کار اور تاجر رو رہے ہیں۔ یہ کوئی معمولی بات نہیں کہ آرمی چیف کو خود ان تاجروں سے ملاقات کرنا پڑی۔ وزیر اعظم بھی اپنی سی کوشش کر رہے ہیں۔ مگر سرمایہ کا کوئی مذہب ہوتا ہے نہ وطن۔ وہ ادھر جاتا ہے جدھر اس کا انتظار ہو رہا ہوتا ہے۔ انتظار محض خواہش کا نام نہیں بلکہ سازگار ماحول پیدا کرنے سے عبارت ہے۔ بہت کچھ کرنے والا ہے۔ خدا کرے ہم چین سے لوٹیں تو اس بات کے واضح اشارے لے کر آئیں کہ ہم نے اپنی منزل درست کر لی ہے۔ اس کا بھی کوئی کلائمکس ہو۔ ہم چین‘ سعودی عرب اورامارات کی دوستی کے ڈنکے بجا رہے ہیں‘ مگر سچی بات یہ ہے کہ جب ان ملکوں سے ہمارے تعلقات درست ہوں گے تو اس کے واضح اشارے ملیں گے۔ دوسرے ممالک جو ہمارے لئے مددگار ہوتے ہیں یا ہو سکتے ہیں وہ بھی بہتر ماحول کے منتظر ہیں۔ ترکی‘ قطر سے کچھ نہیں آیا تو ملائشیا سے تو کچھ لے آتے۔ ایسا ہو گا نہیں آپ کو اپنی سمت درست کرنا پڑے گی۔ یہاں میرا مطلب فی الحال اقتصادی سمت ہے۔ باقی تو چھوڑیے یہی درست کر لیجیے تو بڑی بات ہو گی۔ قوم کی دعائیں لیجیے۔ چلتے ہو تو چین کو چلئے ۔