سندھ کا وہ گورنر ہاؤس جہاں ایم کیو ایم کا گورنر ایلفی کی طرح چودہ برس تک چپکا رہا‘ اس گھر میں جو سازشوں کا تعفن موجود تھا اس کو صاف کرنے کے لیے اس ہاؤس میں ایک عدد ادبی میلے کا انعقاد ضروری تھا۔ اپنے شہر اور اپنے صوبے بلکہ اپنے ملک کے لیے یہ قربانی امینہ سید اور آصف فرخی نے دی۔ ہماری سیاست اور ہمارے ادب میں وقت کے ساتھ جو فاصلہ پیدا ہوگیا ہے اس کو ختم کرنا کسی سرکار کے بس کی بات نہیں۔ سیاست میں سچائی تو کیا سنجیدگی کا بھی فقدان ہے۔ جب کہ ادب نہ صرف سنجیدہ بلکہ انتہائی حساس معاملہ ہے۔ ادب میں کبھی سمجھوتہ نہیں ہوسکتا۔ جب کہ سیاست سمجھوتہ کا کھیل بن گئی ہے۔ ادب کی بنیاد تخلیق ہے اور سیاست میں تو تحقیق کی بھی گنجائش نہیں رہی۔ ادب گہرائی کے بغیر ادب نہیں ہوتا اور سیاست ہر گذرنے والے دن کے ساتھ سطحی ہوتی جا رہی ہے۔ ایک وقت ایسا بھی تھا جب سیاست میں نظریہ ہوتا تھا۔ جب سیاست اعلیٰ مقصد سے مشروط ہوا کرتی تھی۔ وہ وقت اب تاریخ میں دفن ہوچکا ہے جب سیاست کی دنیا میں کوئی مجرم تو کیا کوئی جاہل بھی داخل نہیں ہوسکتا تھا۔ یہ وہ وقت تھا جب سیاست کا تعلق کتابوں سے ہوا کرتا تھا۔ اب سیاست ملکی آئین کے کتاب کی بھی پرواہ نہیں کرتی۔ ایک وقت ایسا تھا جب سیاستدان کے لیے اہل علم اور اہل ادب ہونا ضروری سمجھا جاتا تھا۔ یہ وہ وقت تھا جب سیاستدان عالم اور ادیب ہوا کرتے تھے۔ آج کل کے لیڈر تو اپنے ڈرائنگ روم میں کتابوں کو سجاوٹ کے لیے بھی نہیں رکھتے۔ ایسے دور میں سندھ کے گورنر ہاؤس میں ایک ادبی میلے کا اہتمام بڑی بہترکاوش ہوسکتی تھی مگر ۔۔۔۔!! ادبی میلوں کی مقصدیت کے بارے میں بہت کچھ لکھا جا سکتا ہے مگر ہمارے ادبی میلے بھی ادبی پارٹیز کی طرح ہوگئے ہیں اور جب بھی کسی ادبی میلے میں جانا ہوتا ہے تو ہونٹوں پر انشاء اللہ ’’انشائ‘‘ کا یہ شعر ابھر آتا ہے: ’’بھلا گردش فلک کی چین دیتی ہے کسے انشاء غنیمت ہے کہ ہم صورت یہاں دوچار بیٹھے ہیں‘‘ گورنر ہاؤس میں منعقد ہونے والے ’’ادب میلہ‘‘ میں بھی جب چند چہروں پر نظر پڑی تو مرزا غالب کا یہ شعر گنگنانے کو جی چاہا : ’’قیس جنگل میں اکیلا ہے مجھے جانے دو خوب گذرے گی جو مل بیٹھیں گے دیوانے دو‘‘ ان دو چار دیوانوں میں ہمیں لاہور سے آنے والے اپنے اہل قلم ساتھی مستنصر حسین تارڑ صاحب بھی نظر آئے اور ان سے پہلی بار ہاتھ ملانے کی سعادت ملی۔ ہم ان کے قریب آئے اور بولے’’آپ ہمارے شہر میں آئے ہیں۔ حکم کریں کہ ہم آپ کی کیا خدمت کرسکتے ہیں؟‘‘روزنامہ 92 کے ساتھی کالم نگار نے معصوم شرارت سے کہا ’’کیا آپ میرے لیے ایک عدد سونے کی انگوٹھی لا سکتے ہیں۔ صنف نازک کے گھیرے میں بیٹھے ہوئے ہم نے اپنے ساتھی قلمکار سے کہا ’’حضور ! انگوٹھی تو کیا ہم آپ کی خدمت میں سونے کا ہار پیش کرنے کے لیے تیار ہیں مگر اس کے لیے آپ کو سونار کی دوکان پر چلنا ہوگا‘‘ہماری یہ شرط سن کر مستنصر حسین تارڑ صاحب نے فرمایا’’ہم آپ کیساتھ سونار کی دکان پر ضرور چلتے مگر یہاں سے اٹھ نہیں سکتے‘‘ ہم سمجھ گئے کہ ایک انگوٹھی کی خاطر کوئی سونے کی کان سے کس طرح اٹھ سکتا ہے؟ اس ادبی میلے میں مستنصر حسین تارڑ کے علاوہ اور بھی ہمارے سینئر ادبی ساتھی موجود تھے۔ وہ اہل قلم اور اہل علم نئی نسل کو سمجھانے کی کوشش کر رہے تھے کہ ’’ادب مسلسل جدوجہد ہے‘‘وہ عالم اور ادیب تاریخ کی گلیوں میںاپنی گم گذشتہ ثقافت کو تلاش کر رہے تھے۔ وہ کہہ رہے تھے کہ حکمرانوں نے ہمیں بھٹکا دیا ہے۔ ہم کو تاریخ کی گلیوں میں پھر اس منزل کو تلاش کرنا ہوگا جس کو ہم فراموش کر چکے ہیں۔ وہ سارے مقررین جو اسٹیج پر بیٹھے تھے ؛ ان کی ساری بکھری ہوئی باتیں علامہ اقبال کے اس شعر کے گرد گردش کر رہی تھیں: ’’میں کہ میری غزل میں ہے آتش رفتہ کا سراغ میری تمام سر گزشت کھوئے ہوؤں کی جستجو‘‘ اس دیس کا ہر ادیب ؛ ہر دانشور اور ہر اہل قلم صحافی کھوئے ہوئے وقت کی جستجو میں مصروف ہے جو وقت کبھی لوٹ کر نہیں آئے گا۔گیا ہوا وقت اگر لوٹ آتا تو مرزا غالب کیوں کہتے: ’’میں گیا وقت نہیں ہوں کہ پھر آ بھی نہ سکوں‘‘ بیتا ہوا وقت واپس نہیں آسکتا۔ ہم کو ایک نئے وقت کو خوش آمدید کہنا ہے مگر وہ نیا وقت کہتا ہے کہ ’’تم سب پرانے ہوچکے ہو‘‘ ہم جدید ادب کے راستوں پر بھٹکتے ہوئے اس قدیم ادب کو تلاش کر رہے ہیں جو ہمیں اپنی منزل کا پتہ دے سکتا ہے۔ وہ ادب جو کبھی ایک قطب نما تھا۔ اب وہ ادب ایک کھویا ہوا راستہ بن گیا ہے اور ہم اس راستے پر چلتے ہوئے اس منزل کا پتہ پوچھ رہے ہیں جو منزل ہم سے کھو گئی ہے۔ ادب تو عشق ہے۔ وہ عشق جس کے بارے میں اردو کے استاد شاعر نے لکھا تھا: ’’وہ عشق جو ہم سے روٹھ گیا؛ اب اس کا حال سنائیں کیا؟ کوئی مہرنہیں ؛کوئی قہر نہیں پھر سچا شعر سنائیںکیا؟‘‘ عظیم ادب کا عشق ہم سے روٹھ گیا ہے۔کیا وہ روٹھا ہوا ادبی عشق ان ادبی میلوں کی معرفت واپس لوٹ سکتا ہے؟ ہم صرف کوشش کر سکتے ہیںکہ اس وقت کو پھر منا کے لائیں۔ فیض صاحب نے فرمایا ہے: ’’چلو پھر سے دل جلائیں جو گذر گئی ہیں راتیں انہیں پھر جگا کے لائیں‘‘ مگر کیا وہ راتیں واپس لوٹ سکتی ہیں؟ شاید ’’نہیں‘‘ شاید ’’ہاں‘‘ مگر ہم کوشش تو کرسکتے ہیں۔ اگر وہ باتیں گورنر ہاؤس میں ہونے والے ادبی میلے میں نہیں ہو پائیں تو ہم اس چراغ کی لو اس ماہ ساحل سمندر پر جلائیں‘‘ اس ماہ کی 23؛ 24 اور 25 تاریخ کو بیچ لگژری ہوٹل میں ہونے والی ’’سندھ ادبی فیسٹیول‘‘ کے اس اسٹیج سے ہم اس وقت کو واپس بلائیں جو ہم سے ایک عظیم عشق کی طرح روٹھ گیا ہے ۔ ’’سندھ لٹریچر فیسٹیول ‘‘ کے دامن پر کسی سیاست اور کس سرکار کا داغ نہیں ہے۔ اس فیسٹیول کی شمع جلانے والے سندھ کے خوبصورت نوجوان نصیر گوپانگ ہیں۔ وہ نوجوان بہت غریب ہے۔ وہ نوجوان جس نے اس ادبی میلے کو کامیاب بنانے کے لیے اپنی صحافتی ملازمت اس دور میں چھوڑ دی ہے ؛ جس دور میں میڈیا کے مزدوروں کو جبری طور پر بے روزگار کیا جا رہا ہے۔ نصیر گوپانگ نامی نوجوان کی جیب میں کوئی دولت نہیں ہے۔ اس دیوانے کی جیب میں صرف ایک خواب ہے۔ وہ خواب جو تعمیر کی طمانیت حاصل کرنا چاہتا ہے۔ وہ خواب جو کراچی کی مصروف شاہراہ کراس کرنے والے اس بچے نصیر گوپانگ کی جیب میں ہے؛ جو سڑک کراس کر رہا ہے اور اس کے دل میںABBA گروپ کا یہ گیت گونج رہا ہے: ’’I have a dream I cross the street‘‘ گوپانگ تاریخ کی گندی گلی سے گذر رہا ہے۔ مگر اس کے ہاتھ میں ایک مقدس خواب ہے۔ ’’چلو پھر سے مسکرائیں چلو پھر سے دل لگائیں جوگذر گئی ہیں راتیں انہیں پھر جگا کے لائیں‘‘