چین نہیں بلکہ آنے والے کل کے سپرپاور نے یہ کہتے ہوئے بھارت کے غبارے سے ہوا نکال دی کہ کشمیر جیسے متنازع خطے میں کوئی بین الاقوامی کانفرنس منعقد کرانا عالمی قوانین کی خلاف ورزی ہے ۔ مقبوضہ کشمیرمیں جی 20 کانفرنس کے انعقاد پر چین کاچیں بجبیں ہونا دراصل بھارت کے توسیع پسندانہ رحجانات اور اس کی نفسیات بدلنے کے لئے آلارم ہے۔19مئی 2023 ء کو چینی محکمہ خارجہ کے ترجمان کا کہنا تھا کہ ’’چین متنازعہ علاقوں میں جی 20 کا کوئی بھی اجلاس بلانے کی بھرپور مخالفت کرتا ہے اور ایسی کسی بھی میٹنگ میں شرکت نہیں کی جائے گی‘‘۔ سری نگر میںمنعقد جی 20 کے اجلاس سے اعلان برات سے دراصل چین نے بھارت کو عملی طور پر سمجھانے کی کوشش کی کہ وہ ریاست جموںوکشمیرکی جغرافیائی حدود کو تہس نہس سے باز آجائے وگرنہ پھر طاقت کے مدوجزرکے سامنے اس کی شکست وریخت یقینی امر ہے اورخطے کے اہم واقعات میں سے یہ ایک ایسا واقعہ رونما ہوکر رہے گا۔ چین امریکہ اور یورپ کی طرح منافقت نہیں کرتا بلکہ کشمیر پر واضح ،دوٹوک اورجرات مندانہ موقف رکھتا ہے جو دنیا کو یہ بتانے کے لئے کافی ہے کہ کشمیر بھارت کی کوئی جاگیر نہیں۔چین روزاول سے پاکستان کے کشمیر پر موقف کے ساتھ کھڑا ہے اور اس طرح اس نے یہ ثابت کردکھایا کہ وہ کشمیریوں کی جائز اور انصاف بر مبنی جدوجہدآزادی تائید اورحمایت کرتا ہے۔ چینی دفتر خارجہ کی طرف سے جاری کئے گئے اس اعلان برات سے قبل چین کے سرکاری ترجمان کی حیثیث کے حامل اخبار ’’گلوبل ٹائمز‘‘ میں چین کے ’’اسٹریٹجی انسٹیٹیوٹ ‘‘کے سربراہ کیوان فینگ نے لکھا کہ ’’بھارت کشمیر میں جی 20 تقاریب کے انعقاد سے کشمیر سے متعلق اپنی سفارتی فتح کا اعلان کرنا چاہتا ہے تاکہ وہ ہندو اکثریتی آبادی میں اپنی ساخت مزید مضبوط کر سکے‘‘۔ ماضی قریب میں 5 اگست 2019ء کو جب چشم بصیرت سے عاری ،دماغی صلاحیتوں سے مفروغ منہ اورغوروفکرکے سوتے خشک پڑے بھارت نے مقبوضہ جموںوکشمیرکو پوری طرح تسخیر کرنے کے لئے اسے باضابطہ طور پر بھارت کاحصہ بنانے کے لئے اپنے انتشارواشتعال انگیز اور شرمناک منصوبوں کا اعلان کیا تواس کے اقدامات پر چین نے اس کی شدید مخالفت کی اور بھارت کو واضح پیغام دیا کہ وہ ریاست جموں وکشمیر کے متنازعہ ڈھانچوں سے چھیڑ خوانی نہ کرے اورکشمیرکے عوام کو بھارت کے خوشہ چین اور باج گذار بنانے ،انہیں مستقل طور پر سلاسل وطوق پہنانے کے منصوبوں اور خطے میں اور رقیبانہ اورحریفانہ سوچ وفکراورکشمکش کو پروان چڑھانے سے مکمل طور پر باز رہے۔ چین نے کشمیرکے حوالے سے بساط عالم پرآوازبلندکی جواقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کے دروبام سے ٹکرائی اور 5 اگست 2019ء کو بھارت کی طرف سے اٹھائے گئے اقدام پر اقوام متحدہ کو دومرتبہ کشمیر پراجلاس بھی منعقدکرنے پڑے ۔ چین کا مسئلہ کشمیر کو اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل میں اٹھانا اس کی طرف سے یہ واشگاف اعلان تھا کہ وہ کشمیر پر بھارتی مؤقف کو کلی طور پر مسترد کر رہا ہے۔ دو برس قبل جب چین کے وزیر خارجہ وانگ یی نے اپنے دورہ بھارت سے قبل اسلام آباد میں او آئی سی کے اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ ’’کشمیر پر ہم نے آج ایک بار پھر اپنے بہت سے اسلامی دوستوں کے مطالبات سنے ہیں اور چین بھی یہی امید رکھتا ہے‘‘ تو بھارت نے اس بیان پر چین کے وزیر خارجہ کا نام لے کر وہی گھساپٹا ردعمل دیا جو اس کے پاگل پن کوالم نشرح کر رہا تھا۔ چین نے کئی مرتبہ کشمیرکو بھارتی نقشے سے ہٹا کر بھارت کے سامنے کشمیر پر اپنے اصولی موقف کی برملا اوردوٹوک انداز میں وضاحت کی ۔23 ستمبر2014ء میںجب چینی صدر شی جی پنگ بھارت کے دورے پر تھے توچین کے سرکاری ٹی وی پر ایک مبینہ نقشے میں جموں کشمیر کو متنازع علاقے دکھایا گیا۔ جبکہ چین کے صدر کے دورہ بھارت کے دوران بھی چینی فوجی جموں وکشمیرکے متنازع علاقے لداخ کی سرحد میں درآئے تھے ۔اس پر اس وقت کچھ اسٹریٹجک ماہرین کی رائے تھی کہ یہ دراندازی چین کے صدر کی سوچی سمجھی حکمت عملی کا نتیجہ تھی تاکہ وہ بھارت کو اس کی حیثیت بتا سکیں اور یہ یاد دلا سکیں ۔ا س سے قبل2013ء میں نئی دہلی کے چینی سفارتخانے نے کشمیریوں کو’’انڈین پاسپورٹ ‘‘کے بجائے اپنے لیٹرپیڈ پر ویزا فراہم کیا جس پردہلی نے شورڈالا لیکن چین نے اپنے اس اقدام کوحق بجانب قراردیکرکہاکہ ہم کشمیریوں کوبھارتی شہری نہیں مانتے۔اس دوران چین نے یہی موقف اروناچل پردیش کے باسیوں سے متعلق اپنایا تھا۔ جنوبی ایشا میں ’’پاک چین دوستی‘‘ کو ایک شہکارکے طور پر دیکھا جاتا ہے ۔سرزمین کشمیر پرکشمیریوں کونیست ونابودکرکے کلی طورپرکشمیرہڑپ کرنے کی بھارتی خواہش ہویا دہشت گردی کے موضوع پر بھارتی تشریح وتفہیم یا پھرپاکستان کے مقابلے میں بھارت کی نیوکلیئر سپلائرز گروپ (NSG) میں شمولیت کا خواب، چین سینہ ٹھونک کر پاکستان کے ساتھ کھڑا رہا اوربھارتی اقدامات کی متواتر مخالفت کرتا ہے۔ 17ستمبر2016ء کو کشمیری مجاہدین کی طرف سے اوڑی بارہ مولہ میں قابض بھارتی فوج کے بریگیڈ پر حملے اوراس حملے میں 30 بھارتی فوجیوں کی ہلاکت کے بعد جب مودی نے یہ کہتے ہوئے پاکستان کودھمکی دی کہ ’’خون اورپانی اکٹھا نہیں بہہ سکتا‘‘ اور ہم پاکستان کی جانب بہنے والے پانی کو روک کر پاکستان کو بنجر بناسکتے ہیں تواس پرچین نے یکم اکتوبر 2016ء کو دریائے برہم پتر کے ایک معاون دریا کا پانی روک کر بھارت کوہلا کر رکھ دیا۔ دریا برہم پتر سے نہ صرف 30فیصدبھارتی زرعی زمین سیراب ہوتی ہے ۔دریا برہم پتر دریا کی روک کی تاریخ اوروقت پرتوجہ کی جائے تویہ بھارت کووارنگ تھی کہ’’ پاکستان کا پانی روکوگے تو بھگتو گے ‘‘ ۔ بہرکیف!کشمیر پرچین کے دو ٹوک موقف سے صاف ظاہر ہوتا ہے کہ بھارت مسئلہ کشمیر کے حل کے سلسلے میں تغافل جاری رکھے گا تو اس مسئلے کے حل کی ضرورت ختم نہیں ہو جائے بلکہ کسی روز یہ لاوا زیادہ شدت کے ساتھ پھٹے گا اور پورے خطے کا امن دائو پر لگ جائے گا۔یہی وجہ ہے کہ تازہ اقدام کے طور پر چین نے مقبوضہ کشمیر کے مرکز سری نگر میں منعقد جی 20 کانفرنس میں شرکت سے انکار اورکشمیر پر اپنے موقف کو دہراتے ہوئے بھارت کو یہی بات سمجھانے کی کوشش کی اورجی 20کے رکن ممالک کو یہ پیغام پہنچایا کہ جنوبی ایشیاکی سلامتی اور استحکام یقینی بنانے کے لیے کشمیرکا مسئلہ آج یاکل حل کرنا ہی پڑے گا ۔