اگلے روز ایک دوست سے بات ہو رہی تھی۔ بڑی سادگی اور معصومیت سے انہوں نے سوال کیا ،’’ آخر پاکستان بھارت کے ساتھ کیوں بنا کر نہیں رکھتا؟ بھارت کے ساتھ ہم دوستی کر لیں تو ہمارے کئی مسائل حل ہوجائیں گے۔ ‘‘ یہ ایسا سوال تھاجس کے جواب میں ایک پورا لیکچر دینے کی ضرورت ہے، لمبی چوڑی تفصیل کے بغیر یہ نکتہ سمجھنا آسان نہیں۔ میں نے بات کو آسان رکھنے کی خاطر مختصراً کہا کہ کوئی بھی کام یک طرفہ نہیں ہوسکتا۔ ذاتی زندگی میں آپ کبھی ایسے شخص کے ساتھ دوستی نہیں رکھ سکتے جس کا رویہ آپ کے لئے حقارت آمیز ہو، جو آپ کے مخالفوں کا ساتھ دے اور تنگ کرنے کاکوئی بھی موقعہ ضائع نہ جانے دے۔ دوستی اور خوشگوار تعلقات کے لئے دونوں فریقوں کو آگے بڑھنا پڑتا ہے۔ فرد کی طرح قوموں اور ممالک بھی یہی معاملہ ہے۔ پاک بھارت دوستی صرف تب ممکن ہوسکتی ہے، جب بھارت اپنا رویہ اور پالیسیاں تبدیل کرے کہ بڑا ملک ہونے کے ناتے اس کی ذمہ داری زیادہ ہے۔ بات کی تفہیم کے لئے مجھے ایک اور مثال دینا پڑی۔ انہیں بتایا کہ دوستی اور گہرے تعلقات کے لئے مفادات کامشترک ہونا ضروری ہے۔ اگر وہ فطری طور پر ایک دوسرے کے اتحادی نہیں تو پھر مصنوعی طور پر جتنی مرضی کوشش کر لی جائے، وہ کامیاب نہیں ہوسکتی۔ بھارت امریکہ کا فطری اتحادی ہے کہ اس خطے میں امریکہ چین کو کائونٹر کرنے کے لئے بھارت کو ساتھ ملانے پر مجبور ہے۔اس کے فطری نتیجے کے طور پر پاکستان چین کے بہت قریب آیا ۔چین اور پاکستان اسی لئے فطری اتحادی ہیں۔اسی طرح چین ہی کو کائونٹر کرنے کے لئے امریکہ نے آسٹریلیا کو اپنے ساتھ ملایا ہوا ہے۔ اپنے دوست کو آسٹریلیا کی مثال دی کہ اس ملک کا چین کے ساتھ کوئی بڑا مسئلہ موجود نہیں۔ چین کا ہدف آسٹریلیا ہے اور نہ اس سے آسٹریلین کو کوئی خطرہ ہے۔ اس کے باوجود صرف امریکہ سے مفادات حاصل کرنے کی خاطر آسٹریلیا باقاعدہ اینٹی چین موقف اپنا چکا ہے۔ سائوتھ چائنا سمندر میں آسٹریلیا، جاپان، فلپائن وغیرہ نے امریکہ کی پشت پناہی پر چین کو ٹف ٹائم دینے کی کوشش کی ۔ مزے کی بات ہے کہ چین اور آسٹریلیا کے مابین گہرے اور مضبوط تجارتی تعلقات موجود ہیں،اربوں ڈالر کی تجارت ہوتی ہے۔ چین آسٹریلیا سے ان کی مشہور وائن اور مقامی کاشت ہونے والی بارلے (جو)کی فصل کا چالیس پچاس فیصد تک خریدتا ہے۔اس کے باوجود پچھلے چند برسوں میں آسٹریلیا نے مسلسل چین مخالف پالیسیاں بنائی ہیں۔سنکیانگ سے لے کر تبت اور ہانگ کانگ کے ایشوز پر آسٹریلیا نے چین کو ہدف تنقید بنائے رکھا ہے۔ سائوتھ چائنا سمندر کا ابھی ذکر کیا، اس کے علاوہ آسٹریلیا پہلا ملک ہے جس نے مشہور چینی موبائل کمپنی ہواوے کو اپنے ہاں فائیو جی کا ٹینڈر لینے سے روک دیا۔ آسٹریلیا کی ان پالیسیوں کے جواب میں چین کو بھی آسٹریلوی بئیر اور بارلے پرکسٹم ڈیوٹیاں لگانی پڑیں ۔چین اپنی درآمدات کے لئے اب دیگر آپشنز ڈھونڈ رہا ہے۔آسٹریلوی حکومت نے حال ہی میںیہ قانون پاس کیا ہے کہ مرکزی حکومت کو کسی بھی ریاست (صوبے)کے کسی غیر ملکی حکومت سے تجارتی معاہدے کو منسوخ کرنے کا حق حاصل ہوگا۔ اس قانون کا مقصد چین کے خلاف مزید تجارتی پابندیاں لگانا ہی ہے۔ چین آسٹریلیا مخاصمت کا ایک بڑا فائدہ یہ ہوا ہے کہ چینی حکومت نے کھل کر افغانستان میں آسٹریلوی فوجیوں کی جانب سے ظلم اور سفاکانہ کلنگ کی کھل کر مذمت کی ہے۔ چند دن پہلے چینی وزارت خارجہ کے ترجمان نے ایک چینی آرٹسٹ کی بنائی ہوئی کارٹون تصویر ٹوئٹ کی، جس میں ایک آسٹریلین فوجی ننھا میمنا اٹھائے ایک افغان بچے کو ذبح کر رہا ہے۔تصویرکا کیپشن تھا، ’’گھبرانا نہیں، ہم یہاں امن قائم کرنے آئے ہیں۔’‘‘ترجمان نے اپنے ٹوئٹ میں لکھا کہ آسٹریلوی فوجیوں کی جانب سے افغان سویلین اور قیدیوںکے قتل کے واقعات سے شاکڈ ہیں، ہم اس کی سخت مذمت کرتے ہیں اور ذمہ داروں کو سزا دینے کا مطالبہ کرتے ہیں۔ اس ٹوئٹ پر بڑا ہنگامہ کھڑا ہوگیا۔ آسٹریلیا نے اس پر شدید احتجاج کیا، ان کے وزیراعظم نے چین کے خلاف ایک سخت بیان دیا اور ٹوئٹر سے ٹوئٹ ڈیلیٹ کرنے کی اپیل کی۔آسٹریلوی وزیراعظم نے چینی حکومت سے اس ٹوئٹ پر معافی مانگنے کا مطالبہ بھی کیا۔ ٹوئٹر نے خیر اس اپیل کولفٹ نہیں کرائی، جبکہ آسٹریلیا میں چینی سفارت خانے کی جانب سے ٹوئٹ کا دفاع کرتے ہوئے کہا گیا کہ افغانستان میں آسٹریلوی فوجیوں کی جناب سے قتل وغارت کے جن واقعات کی تصدیق ہوچکی ہے، اس کے بعد آسٹریلیا میں کسی کو اس کارٹون پر ناراض نہیں ہونا چاہیے۔ بہرحال اس واقعے کے بعد چین آسٹریلیا تعلقات میںکشیدگی مزید بڑھ گئی۔ افغانستان میں کئی ہزار آسٹریلوی فوجی نائن الیون کے بعد سے تعینات رہے ہیں۔ماضی میں آسٹریلوی فوجیوں کی جانب سے نہتے افغان قیدیوں کو قتل کرنے کے الزامات عائد ہوتے رہے، مگر آسٹریلوی حکومت اور فوج نے ان پر پردہ ڈالے رکھا۔ اب یہ گند سامنے آیا تو ہر کوئی بھونچکا رہ گیا ۔آسٹریلوی فوج کی آفیشل انکوائری نے ان الزامات کو درست قرار دیا ہے۔ یہ رپورٹ اتنی خوفناک اور ہلا دینے والی ہے کہ اس کا موازنہ عراق کی ابو غریب جیل میں امریکی فوجیوں کے انسانیت سوز جرائم سے کیا جا سکتا ہے۔ آسٹریلوی میجر جنرل جسٹس پال بریرٹن کی رپورٹ کے مطابق آسٹریلیا کی ایلیٹ سپیشل ائیر سروسز اور کمانڈو رجمنٹ کے کچھ فوجیوں اور چھوٹے افسروں نے متعدد نہتے افغان ماورائے قانون قتل کئے۔ رپورٹ کے مطابق سپیشل سروسز درجنوں بے گناہ اموات کی ذمہ دار ہے، جن میں زیادہ تر افغان نہتے قیدی تھے، ان کے قتل کو مجرمانہ طورپر چھپانے اور پردہ ڈالنے کی کوشش بھی کی گئی۔ کم از کم تیئس واقعات میں انتالیس افغان شہری قتل ہوئے۔ان میں سے کوئی بھی قتل جنگ میں نہیں ہوا اور نہ ہی مرنے والوں کے پاس ہتھیار تھے یا ان کی نیت لڑائی کی تھی۔ رپورٹ کے مطابق سپیشل ائیر سروسز کے بعض پلاٹون(چھوٹا دستہ) کمانڈروں نے اپنے جونیئرز کو یہ قتل کرنے کا حکم دیا، اس وحشیانہ اقدام کا مقصد نئے آنے والے فوجیوں سے ان کی زندگی کا پہلا قتل کرانا اور ان میں انسانی جان کے خاتمے کی ججھک دور کرنا تھا۔ پچیس کے قریب ایسے ملزموں کی نشاندہی ہوئی ہے، جن میں سے بیشتر اس وقت حاضر سروس ہیں۔ حیران کن بات یہ ہے کہ میجر جنرل بریرٹن نے یہ رپورٹ چار برسوں کی تحقیق کے بعد تیار کی۔ چار برسوں کے انتظار کی سمجھ نہیں آئی ،کیونکہ بہت سے فوجیوں نے ان قتل کے واقعات کی گواہی دی ۔ ایسی کوئی بھی انکوائری دو تین ماہ میں آسانی سے مکمل ہوسکتی ہے۔ ممکن ہے مقصد اسے لٹکانا اور چھپانا ہو، مگر میڈیا اور سول سوسائٹی کے دبائو پر انکوائری رپورٹ مکمل کرنا پڑی۔ زیادہ تر واقعات دو ہزار بارہ ، تیرہ میں ہوئے۔ ممتاز برطانوی اخبار گارڈین نے ایک ملٹری سوشیالوجسٹ خاتون کا حوالہ دیا، جس کی رپورٹوں نے اس آفیشل انکوائری رپورٹ کی اشاعت کی راہ ہموار کی۔ خاتون سمانتھا کو کئی فوجیوں نے ان سفاکانہ کلنگ کے بارے میں بتایا۔ سمانتھا کی رپورٹ کے مطابق ایک بار کسی گشت کے دوران دو تیرہ چودہ سالہ افغان نہتے لڑکے کو سپیشل فورسز کے یونٹ نے روکے۔ بغیر کسی وجہ کے فوجیوں نے انہیں طالبان حامی قرار دیا اور بے دریغ خنجر سے ان کا گلا کاٹ دیا۔ ان کی لاشوں کو بعد میں تھیلے میں ڈال کر قریبی دریا میں بہا دیا گیا۔ ایسے ایک اور بھیانک واقعے میں ایک فوجی نے گواہی دی کہ ایک سرچ آپریشن کے دوران ایک افغان کسان نے اپنا بیلچہ پھینک کر ہاتھ اوپر کھڑے کر دئیے، مگر آسٹریلوی فوجیوں نے اس پر یوں فائرنگ کی جیسے وہ کوئی پریکٹس کے لئے لگایا گیا پتلا ہو۔ اسے چھلنی کر دیا گیا۔ ایک اور افسوسناک واقعے میں ایک افغان قیدی کو صرف اس لئے گولی ماردی گئی کہ ہیلی کاپٹر میں اتنے قیدیوں کو لے جانے کی گنجائش نہیں تھی، ایک قیدی کو مار کر جگہ پوری کر لی گئی۔ جنرل بریرٹن انکوائری رپورٹ میں ملزم فوجیوں کے خلاف قانونی کارروائی کرنے کی سفارش کی گئی، آسٹریلوی وزیراعظم نے افغان حکومت سے ان جرائم پر معذرت بھی کی ہے۔ قاتل آسٹریلین فوجیوں کو سزا ملتی ہے یا نہیں، یہ تو مستقبل میںپتہ چل جا ئے گا، مگر مظلوم افغانوں کا مقدمہ افغان حکومت کو لڑنے کی ہمت نہیں ہوئی۔ یہ کام چینی حکومت کر رہی ہے۔ چینی حکومت کھل کر مضبوطی سے یہ مطالبہ کر رہی ہے کہ افغانوں کے قاتل فوجیوں کو سخت ترین سزا ملنی چاہیے اور وہ کسی بھی صورت میں نہ بچ پائیں۔چین اور آسٹریلیا کی مخاصمت میں یہ بات سمجھنے کی ہے کہ کس طرح مفادات اور حالات ممالک کو پالیسیاں بنانے پر مجبور کر تے ہیں۔ آسٹریلیا چین کے ساتھ مخالفت کی کوئی وجہ نہ ہونے کے باوجود امریکی اثرورسوخ اور امریکی اتحادی ہونے کے ناتے چین مخالف کیمپ میں موجود ہے۔ چین بھی جواباً حساب چکا رہا ہے اور وہ اس امریکی وسیع اتحاد کو کائونٹر کرنے کے لئے تیار ہے۔