ایک سہانی ملگجی شام ہمیشہ میرے شامل حال رہی‘ یعنی ایک تخیل اور ایک تصورو جس کو ایک آرزو نے جگمگا رکھا ہے کہ کاش میں دیکھ سکتا کہ اس شام میں کائنات کے تاجدار اور اللہ کے محبوبؐ اپنے اصحابؓ کے ساتھ اس صفحہ پر شمع محفل ہوئے اور اردگرد سب پروانے۔ یہ سوچ کر ہی کہ وہ کیسا منظر ہو گا آنکھ روشنی سے بھر جاتی ہے اور دل کی دھڑکن تیز ہو جاتی ہے۔ یہ ناآسودہ خواہش بھی کس قدر آسودگی دیتی ہے کہ بات نسبت کی ہے یقینا وہ قابل رشک لمحات ہونگے جب آقائے نامدار حضرت محمدﷺ اپنے نرم و نازک مبارک ہونٹوں کو وا کرے اپنے لاڈلے غلام سے کہتے ہونگے’’اے بلالؓ‘‘ یعنی ’’ہماری راحد کا بندوبست کرو، مقصد یہ ہوتا کہ اذان کا اہتمام کرو۔ کیا مقدر پایا اس غلام نےا‘ مجھے معاً اپنے دوست پرنم الہ آبادی یاد آئے کہ انہوں نے ہی التجائیں کیں کہ’’ بھر دو جھولی مری یامحمدؐ پھراسی قوالی میں ہے کہ کیا اذاں تھی اذانِ بلالی‘‘ بات میں کرنا چاہتا ہوں کہ آقانے راحت اور انبساط کا مرکز و محور کس کو ٹھہرایا۔ تبھی نماز کو آنکھوں کا نور اور دل کا سرور کہا گیا۔ اسے مومن کی معراج سے بھی تعبیر کیا گیا۔ کچھ باتیں کلام مجید کے آغاز میں ایسی ہوئی کہ جو فلسفہ اسلام کی اساس ہیں۔ ساری باتیں کرنا ممکن بھی نہیں تاہم اس پر بات ضرور ہو گی کہ ہماری راحت و خوش کن چیزوں میں مضمر ہے اور زاد راہ کے لئے کیا چاہیے ایک الگ موضوع ہے۔ تھوڑی سی بات آغاز کی ہو جائے کہ یہ کتاب حیات جسے الکتاب کہا گیا’’الم‘‘ سے شروع ہوئی کہ یہ حروف مقطعات ہیں جن کا علم اللہ اور اس کے رسولؐ کے سوا کسی کو بھی نہیں۔ اس لئے ان پر سر مارنے اور قیاس کے گھوڑے دوڑانے کی ضرروت ہی نہیں کہ اس کا نہ تقاضا کیا گیا ہے کہ نہ یہ مطلوب ہے ہاں کتاب ہدایت میں ان حروف کے بغیر بھی ہدایت کا پیغام جامع اور مکمل ہے’’ذالک لکتاب‘‘ کو اگر ترکیب میں دیکھا جائے تو معنی بنتے ہیں کہ کتاب تو یہی ہے یہاں ہذا ہوئے معنی میں استعمال ہوا ہے اور ہذا بعد رتبی کے لئے ہے کیا خوبصورت اسلوب ہے۔ یاد آیا کہ حروف قطعات بھی اسلوب کے ضمن میں لائے گئے کہ تب یہ روایت بھی تھی کتاب تو یہی ہے کہ پچھے وہ بات بھی ہے کہ لوگ ایک کتاب کے منتظر تھے کہ جو سب کتابوں کی تصدیق کرے گی۔ پھر کہا گیا کہ’’ لاریب فیہ یعنی اس میں کوئی شک نہیں‘‘ اس لئے کہ یہ اللہ کی کتاب ہے منزل من اللہ ہے یا یہ بھی کہ چونکہ یہ اللہ کی کتاب ہے تو اس میں شک والی بات کیسے ہو سکتی ہے۔ کوئی اس میں شک کرتا ہے تو یہ شک کرنے والے کی خامی ہے۔ مسئلہ یہ ہے کہ دین کی اساس ایمان بالغیب ہے۔ یہ حضرت موسیٰ علیہ السلام کے اصحاب کی طرح نہیں کہ انہیں کلیم اللہ نے خدا کی بات سنوائی تو وہ کہنے لگے کہ جب تک وہ اپنی آنکھ سے ظاہراً اللہ کو نہیں دیکھیں گے ایمان نہیں لائیں گے۔ ادھر تو سارے کا سارا ایمان حضرت محمدؐ کی بے مثال شخصیت پر اعتماد پر لایا گیا۔ پھر ہدایت بھی ان کے لئے ہے یہی لوگ متقی ہیں۔ تقویٰ پر حضرت امام آلوسی نے عجب کہا کہ انسان وہاں وہاں دکھائی نہ دے جہاں جہاں اللہ کو اس کا ہونا نامناسب ہے اور وہاں وہاں ہو جہاں جہاں اللہ اسے دیکھنا چاہتا ہے۔ظاہر ہے اس میں کئی مزاحمتیں آتی ہیں خود اپنے نفس کی۔ انسان ہی کیا جمادات و نباتات تک کی ترقی اور بڑھوتری اسی مزاحمت کا نتیجہ ہوتی ہے۔ مثلاً ایک بیج کو پھوٹنے کے لئے مٹی سے سر نکالنے کے لئے زمین کی مزاحمت کو دور کرنا پڑتا ہے‘ اس کے بعد ہر قسم کے نامساعد حالات کے درمیان رہ کر ایک تن آور درخت بنتا۔ جتنی مزاحمت ہو گی اتنا ہی جوہر کھلیں گے۔ بات اب آتی ہے پھر اسی جگہ کہ جہاں ہم راحت کا اصول سمجھ رہے تھے: کس جہاں کی فصل بیچی کس جہاں کا زر لیا ہم نے دنیا کی دکاں سے کاسہ سر بھر لیا لوگ فہم و آگہی میں دور تک جاتے مگر اے جمال یار تونے راستے میں دھر لیا کہنے مقصد یہ ہے کہ ہم نے اپنی ساری توانائیاں اور صلاحیتیں مادے کی دنیا سے وابستہ کر دیں۔ پھر ملے گا تو وہی جس کی سعی کی جائے گی۔ یہی محسوسات کی دنیا یعنی عالم اسباب اس جہان آب و گل میں روحانی دنیا کوئی تصور ہمارے سامنے نہیں رہا۔ اگر ہے بھی تو برائے نام ہوتا ہے ۔ ایک لمحے کو رک کر ہمیں سوچنا تو چاہیے کہ کیا ہم روحانی آسودگی و بالیدگی کے لئے کبھی خودکار انداز میں کارفرما ہوتے ہیں۔ تبھی تو یہ کتاب متقین کے لئے ہدایت ہے کہ جو روز جزا اور اس متعلق یقین رکھتے ہیں۔ دوسری جانب یکسو ہو کر جانا جائے تو سب کچھ فنکشن ہونے لگتا ہے۔ مثلاً نمازی کی بات لے لیجیے کہ اس کی اقامت سے مراد، اسے ایسے قائم کیا جائے کہ جیسے اس کا حق ہے پھر اس سے شخصیت کے وہ اوصاف پیدا ہونگے جو اسی عمل سے پیدا ہو سکتے ہیں۔ اس عمل کو اگر مومن کی معراج کیا گیا تو واقعہ معراج کی تین باتیں سامنے آتی ہیں۔ قربت، مشاہدہ اور مکالمہ یہ کیفیت پیدا ہو سکتی ہے۔ ایک حدیث کا مفہوم ہے کہ مومن نماز میں قیام کرتا ہے تو اللہ کا چہرہ دیکھتا ہے اور جب وہ سجدہ کرتا ہے تو اللہ کے قدموں میں سر رکھتا ہے۔ یقینا یہ خیال آفرینی کسی خشوع و خضوع کی متقاضی ہے۔ اس کے بعد اللہ کے دیے ہوئے مال میں سے خرچ کرنے کی بات ہے اور یہ نفاق متقین کو لوگوں کے ساتھ جوڑتا ہے یعنی یہ حقوق العباد کا پہلو عبادات سے بھی زیادہ اہم بتایا گیا کہ جس کی معافی بھی اللہ نے اپنے پاس نہیں رکھی۔ دوسری بات یہ کہ اسلام معاشرے کو کسی بھی صورت نظر انداز نہیں کرتا بلکہ اپنے ساتھ ساتھ ان کو بدلنے کی بھی تلقین کرتا ہے وہی جو اقبال کہتا ہے: فرد قائم ربط ملت سے ہے تنہا کچھ نہیں موج ہے دریا میں اور بیرون دریا کچھ نہیں یہ جو زکوٰۃ اور صدقات کا سلسلہ ہے خود دینے والے کے لئے انعام لاتا ہے لیکن دیا گیا رزق صرف کھانے پینے کی چیزوں تک محدود نہیں اسے عموم پر رکھا گیا ہے اس میں بہت کچھ ہے اس میں علم و آگہی بھی ہے اور صلاحیتیں اور عنایات بھی ہیں۔ یہ سب کوعطا ہوتا ہے اور اس میں برہمن ازم اور استعمال جیسی صورت حال نہیں ہے۔ اسلام تو ارتکاز کے خلاف ہے ۔بارش سب کو سیراب کرتی ہے مگر یہ بیاں تو ان کے لئے ہے جو غیب پر یقین رکھتے ہیں کہ وہ سب کچھ جو اللہ کی طرف سے نازل کیا گیا۔ قرآن اور اس سے پہلی آسمانی کتابیں اور پھر وہ آخرت پر مکمل یقین رکھتے ہیں بہرحال میں نے قرآن پاک کی ابتدائی آیات کی تفسیر سے خوشہ چینی کر کے کچھ نہ کچھ اپنے قارئین تک پہنچانے میں اگر کامیاب ہوں تو پھر کبھی کبھی میں یہ کام سرانجام دوں گا ۔ قرآن پاک کے پیغام کی عملی صورت حضور نبی کریمؐ کی حیات مبارکہ ہے! مجھے حکمتوں کی تلاش تھی میں ترےؐ دیار میں آ گیا