معزز قارئین!۔مَیں آپ سے اردو، پنجابی اور فارسی زبان کے عالم و فاضل ، اپنے ایک بزرگ دوست ، تحریک پاکستان کے (گولڈ میڈلسٹ) کارکن چودھری ظفر اللہ خان سے تعارف کرا چکا ہُوں کہ ’’ جب بھی مَیں اپنا کالم لکھنے سے پہلے کسی شعر کا دوسرا مصرعہ بھول جائوں تو، مَیں اُن سے ٹیلی فون پر رابطہ کروں تو، وہ مجھے پوری غزل ہی سُنا دیتے ہیں ‘‘ لیکن کل اُنہوں نے مجھے از خود ایک سیاسی غزل سُنا دِی اور قومی دولت لوٹنے یا چُھپانے کے بارے میں شریف برادران (میاں نواز شریف اور میاں شہباز شریف ) کا ایک ایسا کارنامہ ؔ یاد دِلایا ہے جس پر 4 سال پہلے 12 فروری 2015ء کو الیکٹرانک اور پرنٹ میڈیا پر بڑی دھوم مچ گئی تھی۔ چودھری ظفر اللہ خان نے مجھے بقول شاعر … مجھے یاد ہے وہ ، ذرا ، ذرا ، تمہیں یاد ہو کہ نہ یاد ہو؟ کے انداز میں مجھے یاد دِلایا کہ 12 فروری 2015ء کو (اُن دِنوں ) وزیراعلیٰ پنجاب میاں شہباز شریف نے انکشاف کِیا تھا کہ ’’ پنجاب کے ضلع چنیوٹ کے قصبہ رجوعہ میں لوہے، تانبے، چاندی اور سونے کا خزانہ مل گیا ہے اور یہ خزانہ صِرف پنجاب ہی کا نہیں بلکہ پاکستانی عوام کی ملکیت ہوگا‘‘۔ دوسرے روز 13 فروری کو وزیراعظم میاں نواز شریف نے رجوعہ کے معدنی خزانے کی برآمد پر کہا تھا کہ ’’ اب ہم کشکول توڑ دیں گے اور بیرونی ملکوں سے "Aid" کے بجائے "Trade" پر زوردیں گے ‘‘۔ معزز قارئین!۔ مَیں نے برادرِ بزرگ چودھری ظفر اللہ خان سے کہا کہ … آپ نے یاد دِلایا تو مجھے یاد آیا! مجھے یاد آیا کہ "The Golden Age Starts!" کے عنوان سے 14 فروری 2015ء کو ضلع چنیوٹ میں سونے کے ذخائر کی برآمدگی پر ’’نوائے وقت‘‘ میں میرا کالم بھی شائع ہوا تھا اور 12 فروری 2017ء کو بھی جس کا عنوان تھا ’’ چنیوٹ سونے کے ذخائر/ دوسری سالگرہ‘‘ ۔ مَیں حیران ہُوں کہ ’’ مَیں تو دو کالم لکھ کر اپنے فرض سے سبکدوش ہوگیا تھا لیکن، حزبِ اختلاف کی جماعتوں کے قائدین نے ، پارلیمنٹ ، پنجاب اسمبلی ، الیکٹرانک اور پرنٹ میڈیا پر شریف برادران سے پوچھا ہی نہیں کہ ،رجوعہ ضلع چنیوٹ میں سونے کے ذخائر کہاں ’’گھائو گھپ ‘‘ہوگئے ؟‘‘۔ بہرحال … بات چل نکلی ہے اب دیکھیں کہاں تک پہنچے! اُس وقت جناب آصف علی زرداری صدرِ پاکستان تھے جب، اُن کے وزیراعظم راجہ پرویز اشرف 23 دسمبر 2012ء کو ہیلی کاپٹر پر اپنے ماموں کی وفات پر تعزیت کے لئے سرگودھا کے ایک گائوں میں تشریف لے گئے اور وہاں موجود لوگوں سے نجی گفتگو کرتے ہُوئے اُنہوں نے بتایا تھا کہ’’ صدر آصف زرداری کا پانچ سالہ دَور پاکستان کا سنہری دَور ہے اور پاکستان پیپلز پارٹی اپنی کارکردگی کی بنیاد پر انتخابات میں "Sweep" کرے گی‘‘۔ اِس پر ’’ صدر زرداری کا۔ سنہری دَور‘‘ کے عنوان سے مَیں نے اپنے کالم میں لکھا تھا کہ ’’ مَیں اُن قارئین سے معذرت خواہ ہُوں کہ ’’ جن کی انگریزی میری نسبت کچھ زیادہ کمزور ہے اور جو "Sweep" کا مطلب محض ’’ صفائی کرنا یا جھاڑو پھیرنا ‘‘ ہی سمجھتے ہیں ۔ مَیں نے لکھا تھا کہ ’’ سنہری دَور ‘ ‘ کو انگریزی میں "Goldan Age" کہا جاتا ہے ۔ مطلب ایک ہی ہے کہ ’’ عوام کی بھلائی، خوشی اور خوشحالی کا دَور یا کسی قوم کے عروج اور ادبی کمالات کا دَور ‘‘۔ قدیم ہندوستان کے مہاراجا اشوک ، ایران کے بادشاہ نوشیرواں ، انگلستان کی ملکہ الزبتھ اوّل، عباسی خلیفہ ہارون اُلرشید ، مغل بادشاہ جلال اُلدّین اکبر اور کئی دوسرے بادشاہوں کے دَور کو ’’سنہری دَور‘‘ کہا جاتا ہے۔ شاعروں کی بات اور ہوتی ہے ۔ ’’ پہلوانِ سُخن‘‘ اُستاد امام بخش ناصر صیفیؔ نے جب اپنے محبوب کو محبت کی آنکھ سے دیکھا تو، کہا کہ … وصف جب، مَیں نے کئے ، تیرے سنہرے رنگ کے! خود بخود ہر صفحۂ دیواں سنہری ہوگیا! معزز قارئین! لیکن کیا کِیا جائے کہ 11 مئی 2013ء کے عام انتخابات میں وفاق اور پنجاب میں میاں نواز شریف اور میاں شہباز شریف نے "Sweep" کِیا۔ کہاں ، کہاں ؟ اور کیا کیا "Sweep" کِیا ؟ وہ بعد میں ’’پانامہ لیکس کیس ‘‘ اور دوسرے "Cases"کے کھلنے کے بعد پتہ چلا ۔ اہم بات یہ کہ ’’جب ، وزیراعلیٰ پنجاب میاں شہباز شریف نے میڈیا سے یہ کہا کہ ’’ ہم تو، رجوعہ ضلع چنیوٹ میں لوہا ڈھونڈنے گئے تھے لیکن ، ہمیں تو سونا مل گیا‘‘۔ میاں شہباز شریف کے اِس بیان پر مَیں نے لکھا کہ ’’ مجھے 27 مارچ سے 6 جون 2013ء تک پنجاب کے نگران وزیراعلیٰ جناب نجم سیٹھی پر بہت ترس آیا تھا جن کا تعلق بھی چنیوٹ سے ہے۔ مَیں نے لکھا تھا کہ ، میرا وجدان کہتا ہے کہ ’’ محترم نجم سیٹھی صاحب کی اہلیہ، محترمہ جگنو محسن نے ضرور اُن سے کہا ہوگا کہ ’’نجم جی!۔ جئے تُسیں "India" توں کتاباں لبھّن دِی تھاں لوہا لبھّن لئی چنیوٹ جاندے رہندے تاں کِنا چنگا ہوندا؟‘‘۔ معزز قارئین!۔ مجھے نہیں معلوم کہ۔ آج کل ’’دیسی سکولوں میں ‘‘ ماسٹر صاحبان اپنے شاگردوں کو ہندوستان پر غزنی کے سُلطان محمود غزنوی کے 17 حملوں کے بارے میں کچھ پڑھاتے ہیں یا نہیں؟‘‘ لیکن، جب مَیں ’’پرانے پاکستان ‘‘ میں دسویں جماعت میں پڑھتا تھا تو، ہمیں ہمارے ماسٹر جی پڑھاتے تھے کہ’’ محمود غزنوی نے ہندوستان پر 17 حملے کئے تھے اور 17 ویں حملے میں وہ سومنات کے مندر(Somnath Temple)سے سومنات کا بُت توڑ کر اُس میں جڑا بہت سا سونا ، چاندی، ہیرے اور جواہرات غزنی لے گئے تھے‘‘۔ میرے ایک ہم جماعت نے پوچھا کہ ’’ ماسٹر جی محمود غزنوی اگر سومنات پر ، 17 واں حملہ۔ پہلی بار ہی کردیتے تو ان کا کافی وقت بچ سکتا تھا ‘‘۔ اِس پر ماسٹر جی نے اُسے دو چھڑیاں رسید کیںاور کلاس روم سے باہر نکال دِیا تھا۔ تاریخِ فرشتہ میں لِکھا ہے کہ۔’’ وفات سے تِین چار دِن پہلے محمود غزنوی نے شاہی خزانے سے سارا سونا ٗ چاندی ٗ ہِیرے اور جواہرات باہر نِکلوائے ۔ انہیں دیکھ کر بہت دیر تک روتا رہا اور اُس کے بعد اُس نے سارا مالِ غنیمت شاہی خزانے میں واپس بھجوا دِیا‘‘۔مؤرخ محمد قاسم فرِشتہؔ لِکھتا ہے کہ ’’ کیا ہی اچھا ہوتا کہ محمود غزنوی وہ سارا مالِ غنیمت غریبوں میں تقسیم کردیتا؟‘‘۔پاکستان میں ہردَور میں بھی حکمرانوں ٗ سیاستدانوں بیورو کریٹس اور دوسرے بالا دست طبقوں کو قومی خزانہ لُوٹنے کے لئے کُھلی چھُوٹ ہوتی ہے۔ سابق صدر جناب آصف علی زرداریؔ اور اُن کی ہمشیرہ ،محترمہ فریال تالپور کی منی لانڈرنگ کے بارے میں فیصلہ عدالتیں کردیں گی ؟ یا حضرت عِیسیٰ ؑ کے آسمانوں سے اُترنے اور کانے دجّال کے خاتمے سے پہلے ہو جائے گا؟۔ انگریزی زبان میں "Golden Handshake" کے معنی ہیں ۔ ’’ملازمت سے سبکدوش یا قبل از وقت الگ کئے جانے پر ادا کی جانے والی رقم ، سونے کا مصافحہ ‘‘۔ مَیں مختلف ادوار میں اپنے کالموں میں بار بار قربانیاں دینے والی پاکستانی قوم سے کئی بار اپیل کر چکا ہُوں کہ ’’ کیوں نہ قوم ایک ہی بار بہت بڑی قربانی دے کر اپنے ناپسندیدہ سیاستدانوں اور سیاسی عُلماء سے ’’ سونے کا مصافحہ (Golden Handshake) کے بجائے ’’ سونے کی جپھّی ‘‘(Golden Embrace) ڈال کر اُنہیں اُن کے پسندیدہ کسی غیر ملک میں "Settle" ہونے کا موقع دیں ؟۔ معزز قارئین!۔ آج مجھے پٹیالہ گھرانہ کے اُستاد امانت علی خان ( مرحوم) کے گائے ہُوئے ایک پنجابی گیت کا مُکھڑا یاد آ رہا ہے ۔ شاعر کا نام مجھے نہیں معلوم جِس نے لِکھا تھا کہ … ایہہ دھرتی ، میرا سونا یارو، مَیں ایہدا ، سُنیارا! سُورج وانگوں ڈھلکاں مارے، ایہدا مِٹی گارا! آسان پنجابی میں لکھے اور گائے گئے گیت کا مَیں اردو ترجمہ کرنا مناسب نہیں سمجھتا ۔ سُنار (سُنیارا) کو انگریزی میں "Goldsmith" کہتے ہیں لیکن، چھوڑئیے ایسی باتوں کو ، مَیں تو چاہتا ہُوں کہ ’’قومی احتساب بیورو ‘‘ (National Accountability Bureau) کے چیئرمین 12 فروری 2015ء کو رجوعہ ضلع چنیوٹ سے سونے کے ذخائر کا بھی پتہ چلائیں ، کم از کم شریف برادران سے پوچھ تو لیں ؟۔ یہ محض اِتفاق ہے کہ ’’ وزیراعظم عمران خان کے سابق سُسر بھی "Goldsmith" کہلاتے ہیں۔ کہلاتے رہیں ، ہمیں کیا؟۔