پرسوں(14 نومبر کو )گورنر پنجاب چودھری محمد سرور اور وزیراعلیٰ سردار عثمان بزردار نے ایک دوسرے سے ’’مؤاخات‘‘ (بھائی چارے) کا رشتہ قائم کرنے کا اعلان کردِیا ۔ خبروں کے مطابق گورنر ہائوس میں گورنر چودھری محمد سرور کے ساتھ وزیراعلیٰ سردار بزدار اور جنوبی پنجاب کے ارکانِ صوبائی اسمبلی کی ملاقات کے بعد سردار محمد عثمان بزدار نے کہا کہ ’’گورنر اور وزیراعلیٰ پنجاب میں جتنی اچھی "Working Relationship" اب ہے وہ ماضی میں کبھی نہیں تھی، چودھری محمد سرور میرے بڑے بھائیوں کی طرح ہیں ، آئین کے مطابق گورنر، سپیکر اور وزیراعلیٰ کا "Role" مُتعین ہے ، ہم سب ایک ہی خاندانؔ کی طرح اور متحد ہیں، وزیراعظم عمران خان کے نئے پاکستان کو ہم نے "Team Work" سے حاصل کرنا ہے‘‘۔ ایک ماشہ کے آٹھویں حصّہ کو ’’رَتی ‘‘ کہتے ہیں ۔ اِس موقع پر گورنر چودھری محمد سرور نے کہا کہ ’’میرے اور وزیراعلیٰ کے درمیان رَتی بھر ( یعنی ۔ ذرا سا ) بھی اختلاف نہیں ہے ۔ ہم دونوں ایک "Page" پر ہیں اور وزیراعظم عمران خان کی ٹیم میں شامل ہیں ۔ ہم دونوں نے پہلے بھی مِل کر کام کِیا ہے اور آئندہ بھی مِل کر ساتھ چلتے رہیں گے ‘‘۔معزز قارئین!۔ پنجاب کے دو بڑوں ، چودھری محمد سرور اور سردار محمد عثمان بزردار کو اپنے بھائی چارےؔ کا اعلان کرنے کی ضرورت اِس لئے پڑی کہ 11 نومبر کو جب لاہور میں سپیکر پنجاب اسمبلی چودھری پرویز الٰہی کی رہائش گاہ پر منعقدہ اجلاس کی "Video Clip" کا چرچا ہُوا تو میڈیا میں ’’ پاکستان تحریک انصاف ‘‘ اور پاکستان مسلم لیگ (ق) کے اتحاد کا قلعہ ڈگمگاتا دکھائی دینے لگا تھا؟۔ اُس اجلاس میں وزیراعظم عمران خان کے بہترین ؔدوست جہانگیر ترین بھی موجود تھے اور پاکستان مسلم لیگ (ق) کے وفاقی وزیر طارق بشیر چیمہ نے اُن سے گورنر چودھری محمد سرور کی شکایت کرتے ہُوئے کہا تھا کہ "Sir" چودھری محمد سرور کو کنٹرول کریں ورنہ وہ آپ کے وزیراعلیٰ کو چلنےؔ نہیں دیں گے‘‘۔ خبروں کے مطابق ۔’’چودھری پرویز الٰہی نے چیمہ صاحب کی ہاں میں ہاں ملاتے ہُوئے کہا تھا کہ ’’ یار!۔ چودھری سرور کو کنٹرول کریں!‘‘۔ معزز قارین!۔ اب کیا کِیا جائے کہ ’’ وطن عزیزمیں ہر سیاسی / مذہبی جماعت ایک خاندان اور برادری کی طرح ہوتی ہے اور جب دو یا دو سے زیادہ سیاسی/ مذہبی جماعتوں میں ’’ کچھ دو اور کچھ لو‘‘ (Give and Take) کے اصولؔ کے مطابق اتحاد / اشتراک ہو جائے تو ، اُسے بھی ایک بڑا خاندان اور ایک بڑی برادریؔ ہی کہا جاتا ہے ؟۔ ’’ شاعرِ سیاست‘‘ کے ایک سیاسیؔ ماہِیا میں ایک خاتون نے اپنے محبوب سے مخاطب ہو کر کہا تھا کہ … چل سانگلہ ہِلّ، ما ہِیا! "Give and Take" کرئیے! اَیویں سُکّے تے نہ مِلّ ماہیا! ’’مصورِ پاکستان‘‘ علامہ اقبالؒ نے صِرف متحدہ ہندوستان کے مسلمانوں کے لئے الگ وطن کا خواب نہیں دیکھا تھا بلکہ وہ اپنے اِس خواب کو اسلامی اور انسانی برادری تک لے جانا چاہتے تھے ۔ اپنی ایک نظم ’’ بزم انجم‘‘ میں علامہ صاحبؒ نے کہا کہ … آنکھوں سے ہیں ، ہماری غائب ، ہزاروں انجم! داخل ہیں ، وہ بھی لیکن، اپنی برادری ؔمیں! عالمِ جاودانی میں علامہ اقبالؒ کیا سوچتے ہوں گے؟ کہ’’ 16 دسمبر 1971ء کو دولخت ہونے والے اُن کے پاکستان میں بھی دو ہی برادریاں یا طبقے موجود ہیں ۔ امارت کی لکیر سے اوپر ’’ بالائی طبقہ‘‘ اور غربت کی لکیر کے نیچے زندگی بسر کرنے والا ’’ نچلا طبقہ‘‘ ۔ ہمارے سیاستدان (اور مذہبی قائدین بھی) اکثر کسی مغربی مفکر کے اِس قول کی جُگالی کِیا کرتے ہیں کہ ’’ بدترین جمہوریت بھی بہترین آمریت سے اچھی ہوتی ہے‘‘ لیکن یہ نہیں بتاتے کہ مفلوک اُلحال جمہورؔ ( عوام کالانعام) اور اُن کی آئندہ نسلیں کتنی مُدّت تک بدترین جمہوریت کو برداشت کرتے رہیں ؟۔ 14 نومبر کو پنجاب میں ایک سیاسی جماعت ( پاکستان تحریک انصاف) کے دو بڑوں میں ’’ بھائی چارا‘‘ تو قائم ہُوا ؟ لیکن، فی الحال پاکستان تحریک انصاف کے ساتھ پاکستان مسلم لیگ (ق) کے چودھری شجاعت حسین کے بعد دوسرے بڑے قائد (اقتدار شریک بھائی) چودھری پرویز الٰہی نے تو، چودھری محمد سرور اور سردار عثمان بزدار سے اپنے بھائی چارے کو ہوا بھی نہیں لگنے دِی؟ ۔14 نومبر کو مَیں نے الیکٹرانک میڈیا پر ، گورنر ہائوس میں ، گورنر چودھری محمد سرور اور وزیراعلیٰ سردار محمد عثمان بزدار کو ساتھ ساتھ اور جنوبی پنجاب کے ارکان صوبائی اسمبلی کو اُن کے دائیں ، بائیں کرسیوں پر بیٹھے دیکھا اور سوچا ۔ آج بھی سوچ رہا ہُوں کہ کیا ہی اچھا ہوتا کہ (کم ازکم) گورنر چودھری محمد سرور اور وزیراعلیٰ سردار عثمان بزدار نے تو، اپنے اپنے سر پر پگڑی باندھ لی ہوتی یا ٹوپی پہن لی ہوتی ؟۔ مَیں نے تو زندگی میں کبھی بھی اپنے سر پر پگڑی نہیں سجائی البتہ نظریۂ ضرورت کے تحت کبھی کبھی ٹوپی ضرور پہن لیتا ہُوں (خاص طور پر جناحؒ کیپ) لیکن ، میں نے پڑھا، سُنا اور دیکھا ہے کہ ’’ پگڑی بدل بھائیوں‘‘ اور ’’ ٹوپی بدل بھائیوں ‘‘ کا بھائی چارا بہت مضبوط ہوتا ہے ۔ حضرت داغؔ دہلوی نے کسی شیخ (عالم ، فاضل) کے عِمّامہ( دستار، پگڑی ) کو دیکھ کر کہا تھا کہ … شکل ثابت نظر آتی نہیں، عِمّامے سے! شَیخ نے بدلی ہے ،پگڑی، کسی مَستانے سے! پگڑی / ٹوپی بدل بھائی چارےؔ کے بارے میں اُستاد حیدر علی آتش ؔ نے کہا کہ … آئے جو کیفِ مَے میں، وہ گلگشت ِباغ کو! غُنچہ سے ٹوپی ؔ، لالے سے پگڑیؔ، بدل چلے! امیر جمعیت عُلماء اسلام ( فضل اُلرحمن گروپ) نے شاید کبھی ٹوپی بھی پہنی ہو لیکن ، مَیں نے جب بھی اُنہیں الیکٹرانک میڈیا (اور پرنٹ میڈیا پر بھی ) دیکھا تو وہ، پگڑی باندھے ہُوئے تھے ۔ اُن کا بھی ہر دَور میں حکمرانوں سے پگڑی بدل یا نہ بدل ’’بھائی چارا ‘‘ رہا ہے۔ فضل اُلرحمن صاحب کے سیاسی مخالفین بھی (اُن کے سیاسی مخالفیین سے ) ’’بھائی چارا ‘‘ قائم کرلیتے تھے / ہیں ۔ حضرت داغ ؔدہلوی کا دَور ’’سیاسی بھائی چارا‘‘ کا دَور نہیں تھا لیکن، نہ جانے اُنہوں نے کِس موڈ میں اور کسے مخاطب ہو کر کہا تھا کہ … تُم کو لیلیٰ سے ہے ، جو یک جہتی! اپنا مجنوںؔ سے بھائی چاراہے ! معزز قارئین!۔ یہ تو مَیں جانتا ہُوں کہ ، فضل اُلرحمن صاحب کے والدِ مرحوم مفتی محمود صاحب کا فیلڈ مارشل صدر محمد ایوب خان سے بھائی چارا تھا ۔ (وہ دونوں پگڑی بدل بھائی تھے یا ٹوپی بدل ؟) مَیں نہیں جانتا؟۔ 2 جنوری 1965ء کے صدارتی انتخاب میں قائداعظمؒ کی ہمشیرہ محترمہ ’’ مادرِ مِلّت‘‘ ( صدر محمد ایوب خان کے مقابلے میں ) متحدہ اپوزیشن کی امیدوار تھیں ۔ مفتی محمود صاحب نے فتویٰ دِیا تھا کہ ’’ شریعت کے مطابق عورت (محترمہ فاطمہ جناحؒ) پاکستان کی سربراہ نہیں بن سکتی‘‘ لیکن ، بعد میں جب محترمہ بے نظیر بھٹو وزیراعظم منتخب ہُوئیں تو، فضل اُلرحمن صاحب نے ’’ اجتہاد‘‘ کرلِیا۔ اور محترمہ بے بھٹو کی سربراہی کو قبول کرلِیا۔ اُن دِنوں تو نہیں لیکن، جب 14 مئی 2006ء کو لندن میں سابق وزرائے اعظم ،میاں نواز شریف اور محترمہ بے نظیر بھٹو نے ’’ میثاق جمہوریت‘‘ (Charter of Democracy) پر دستخط کئے تو مَیں نے اپنے کالم میں اُسے ’’ بھائی ، بہن چارا‘‘ قرار دِیا تھا ۔ اُس وقت پاکستان دولخت نہیں ہُوا تھاجب ، 20 مارچ 1970ء کو مشرقی پاکستان سے نیشنل عوامی پارٹی کے سربراہ مولانا عبدالحمید خان بھاشانی ڈھاکہ سے لاہور ائیر پورٹ پر اُترے تو، اُن کی پارٹی اور جنابِ ذوالفقار علی بھٹو کی ’’پاکستان پیپلز پارٹی ‘‘ کے کارکنوں نے ’’بھٹو ، بھاشانی ، بھائی بھائی‘‘ کے نعرے لگائے تو، مولانا بھاشانی نے کہا کہ ’’ میرے عزیزو!۔ ذوالفقار علی بھٹو ایک جاگیر دار ہے اور مَیں ایک کسان کا بیٹا ۔ بھٹو محل میں رہتا ہے اور مَیں جھونپڑی میں ، پھر ۔ ’’بھٹو ، بھاشانی ، بھائی بھائی ‘‘ کیسے ہوسکتے ہیں ؟۔ معزز قارئین!۔ وزیراعظم عمران خان کو ، چودھری محمد سرور اور سردار عثمان بزدا ر کا ’’ بھائی چارا ‘‘ مبارک ہو؟ لیکن ، کیا ریاست ِ پاکستان کو ’’ ریاست ِ مدینہ‘‘ بنانے کا خواب کو شرمندۂ تعبیر ہونے کے بعد واقعی ، صدرِ پاکستان ، وزیراعظم ، چاروں صوبوں کے گورنروں اور وزرائے اعلیٰ اور پاکستان کے مفلوک اُلحال عوام میں ’’ بھائی چارا ‘‘ قائم ہو جائے گا؟۔