سرزمین گجرات کو یہ شرف حاصل ہے کہ اس شہر ذی وقار نے جہاں علوم و فنون کی دولت تقسیم کی ،وہیں اس شہر نے ایسی ایسی درخشاں شخصیات کو جنم دیا جن کے تذکرے ملک کی تاریخ،قانون اور سیاست میں ہمیشہ ہوتے رہیں گے۔ انہی میں سے ایک پیکر وفا و سخا اور غربا و مساکین کے داد رس عظیم سیاستدان چودھری ظہور الٰہی شہید کی شخصیت ہے۔ چودھری ظہور الٰہی شہید اپنی وجاہت اور ذہانت و فطانت کے لحاظ سے بھی ہر دلعزیز شخصیت کے مالک تھے۔جو ان سے ملتاچودھری صاحب کی محبت اس کے دل میں اتر جاتی ۔ بات کرتے تو دلیل سے کرتے۔ حق گوئی ان کا خاصا تھا۔ وہ ہمیشہ اپنے دین‘ ملک اور عوام الناس کے مفاد کیلئے سرگرم عمل رہتے تھے‘ وہ عظیم سیاسی رہنما ہونے کیساتھ ساتھ سعی پیہم کا پیکر تھے اور انہوں نے ہمیشہ ملکی تعمیروترقی کیلئے کام کیا۔ راہ حق کے اس مسافر کو جب شہید کیا گیا تو لاکھوں لوگوں نے اشک بار آنکھوں کیساتھ ان کا جنازہ اٹھایا۔ چودھری ظہور الٰہی نے اپنی محنت و مشقت کی کمائی سائلوں‘ محروموں‘ یتیموں‘ مسکینوں اور بیوائوں پر خرچ کی اور مفلس گھرانوں کے وظیفے مقرر کئے۔ چودھری شجاعت حسین اور چودھری پرویزالٰہی نے ان کی اس روایت کو برقراررکھا۔ 25 ستمبر 1981ء جمعہ کا دن تھا۔ جب چودھری پرویزالٰہی کو شہید کردیا گیا۔ چودھری صاحب سارا دن لوگوں سے ملتے رہے۔ تقریباً 12 بجے فارغ ہوئے‘مجھے بھی حکم دیا کہ صوفی جی آپ بھی جمعہ پڑھ آئیں۔ میں نے کسی دوست کو ملنے جانا ہے۔ ادھر میں جمعہ پڑھ لوں گا اور اسی دن ریکی کرنے والے لوگوں نے چودھری صاحب کو ماڈل ٹائون موڑ پر ان کی گاڑی پر حملہ کر کے شہید کردیا۔ دوپہر کا ٹائم تھا۔ یہ خبر جنگل میں آگ کی طرح ملک بھر میں پھیل گئی۔ ہر طرف صف ماتم بچھ گئی۔ میں بھی اپنے گھر اچھرہ کی مسجد سے جمعہ پڑھ کرنکلا تو ایک رکشا ڈرائیور نے مجھے بتایا کہ چودھری ظہور الٰہی کی کار پر ماڈل ٹائون میں کچھ لوگوں نے حملہ کردیا ہے۔ میں گلبرگ ان کے گھر پہنچا۔ خاندان کے تمام افراد ہسپتال کی طرف جا چکے تھے اور ان کی رہائش گاہ پر دوستوں‘ رشتہ داروں‘ سیاسی رہنمائوں‘ کارکنوں اور اخبار نویسوں کا جم غفیر تھا۔ ان کی پوری زندگی جدوجہد کی ایک لازوال داستان تھی جو جمہوریت کے طالب علموں کے لیے ایک جادۂ راہ ہے۔لاہور سے اسلام آباد جاتے ہوئے چناب کے پل سے ریلوے لائن کراس کر کے گجرات شہر کو جانے والی سڑک پر ایک سڑک گورالی گائوں کو جاتی ہے۔ اس سے آگے دریائے چناب کے کنارے پر نت نامی گائوں ہوتا تھا۔ اس گائوں میں چودھری برادران نے نت ہائوس کے نام پر بلڈنگ ڈیرہ‘ محل فارم ہائوس تعمیر کیا۔ اسی نت گائوں میں 7مارچ 1920ء کو چودھری سردار خان کے گھر ان کا سب سے چھوٹا بیٹا چودھری ظہور الٰہی پیدا ہوا۔ چودھری ظہور الٰہی شہید کے دادا چودھری حیات محمد خاں موضع نت وڑائچ کا شمار علا قہ کی علم دوست شخصیات اور معززین میں ہوتا تھا۔ ان کا گھرانہ مہمان نوازی کے لیے بھی بہت مشہور تھا۔ باپ کی اچھی تربیت نے چودھری ظہور الٰہی کی طبیعت میں گہرے نقوش چھوڑے۔ انہوں نے ابتدائی تعلیم گورنمنٹ پرائمری سکول نت میں حاصل کی۔ پانچویں جماعت میں انہیں زمیندار ہائی سکول گجرات میں داخل کروا دیا گیا۔ اپریل 1936ء میں وہ انٹر کالج میں داخل ہوئے۔ قد آور چوھدری ظہور الٰہی کالج میں کبڈی اور فٹ بال کے اچھے کھلاڑی گنے جاتے تھے۔ اپنے سے طاقتور سے ٹکر لینے کی عادت ان کے اندر بچپن سے ہی تھی۔ 1938ء میں خاندان کی آبائی زمین اور مکانات دریا برد ہونے کے باعث چودھری ظہور الٰہ پر بھاری ذمہ داریاں آن پڑیں جس کی وجہ سے انہیںعملی زندگی میں قدم رکھنا پڑا ،وہ اس وقت سال دوم کے طالب علم تھے۔ انہوں نے اپنے بڑے بھائی چودھری منظور الٰہی کے مشورے سے صنعت و تجارت کے میدان کا رخ کیا اور امرتسر میں کھڈیوں کی چھوٹی فیکٹری لگا کر کام شروع کردیا۔ امرتسر اس زمانے میں پارچہ بانی کی صنعت کا بڑا مرکز تھا۔ جلدی ہی ان کا کاروبار ترقی کی راہوں پر گامزن ہو گیا۔ امرتسر میں ہی چودھری ظہور الٰہی کو سیاست کا شوق پیدا ہوا۔ وہ سیاست میں شرافت اور اصولوں کے قائل تھے۔ کاروباری مصروفیات کے باوجود چودھری ظہورالٰہی ملک و قوم کی فلاح و بہبود کے لیے نکلنے والے جلوسوں میں باقاعدگی سے شرکت کرتے‘ وہ ایک خوش لباس آدمی تھے۔چودھری ظہور الٰہی شہید نے قیام پاکستان سے قبل 1946ء کے انتخابات کے دوران گجرات کے حلقے میں مسلم لیگ کی کامیابی کے لیے کام کیا اور قائداعظمؒ کا پیغام گھر گھر پہنچایا۔ اگست 1947ء میں جب انہیں امرتسر چھوڑ کر پاکستان آنا پڑا تو ان کا کاروبار عروج پر تھا۔ ۔ چودھری ظہور الٰہی ستمبر 1947ء کے اوائل میں اکتوبر کے آخرتک مشرقی پنجاب سے مسلمان مغویہ خواتین کی بازیابی کی مہم میں حصہ لیا۔ اپنے گروپ کی مدد سے چھ ہفتوں میں اڑھائی سو سے زائد مغویہ خواتین کو سکھوں اور ہندوئوں کے چنگل سے چھڑایا۔ دو بچیاں اپنے گھر لے آئے۔ ان کے نام نذیراں اور بشیراں تھے۔ ان کی اپنے بھائی منظور الٰہی کے ساتھ مل کر پرورش کی اور دونوں کی اچھے گھرانوں میں شادیاں کیں۔چودھری ظہور الٰہی شہید کی زندگی کے مفصل حالات و واقعات چودھری شجاعت اور چودھری پرویز الٰہی کی کتاب’’ صاحب عزم و ہمت چودھری ظہور الٰہی شہید ‘‘میں تحریر کئے گئے ہیں۔ چودھری ظہور الٰہی شہید کی ملازمت ملنا میرے لیے بہت بڑا معجزہ تھا۔ چودھری ظہور الٰہی کے ساتھ میں نے جو چند سال گزارے انہوں نے مجھے جینے کا ڈھنگ اور عزت سے رہنے کا سلیقہ سکھایا اور اب تک اس خاندان کا خدمت گزار ہوں۔ اللہ تعالیٰ کا لاکھ لاکھ شکر ہے مجھے کسی بھی عہدے کی ضرورت محسوس نہیں ہوئی اور نہ ہی کبھی خواہش کی۔ چودھری ظہور الٰہی نے اپنی سیاسی زندگی میں عہدوں کی سیاست نہیں کی بلکہ دوسروں کو آگے لانے کی کوشش کرتے رہے۔ ان کی توجہ اور کوشش انسانوں کی بھلائی‘ بہتری اور ملک کی ترقی تھی۔ وہ کہا کرتے تھے کہ پاکستان ایک نظریہ پر قائم ہوا ہے اوراس نظریے کو قائم رکھ کر پاکستان کو بچایا جا سکتا ہے اور ملک ترقی کرسکتا ہے۔ انہوں نے ساری زندگی قائداعظمؒ کے اصولوں کو اپنانے کی کوشش جاری رکھی ۔ انہی اصولوں اور صحیح بات کرنے اور اس پر ڈٹے رہنے کی وجہ سے ان کے کئی سیاسی مخالفین ہو گئے لیکن چودھری صاحب نے ان کابھرپور مقابلہ کیا ۔وہ ہمیشہ اصولوں کی سیاست کے لیے راہ حق پر ڈٹے رہے اور شہادت کا درجہ حاصل کیا۔