کوئی چودھری نثار علی خان سے پوچھے کہ وہ ایک ہی بار پریس کانفرنس کرکے بتاکیوں نہیں دیتے کہ کہنا کیاچاہتے ہیں۔ عرصے سے ایک تھیٹر لگایا ہوا ہے۔ ناراض ہونے پر جلد ہی راضی ہونے کی نوید بھی سنادیتے ہیں۔ فرماتے ہیں کہ عورت کی لیڈرشپ قبول نہیں اور کبھی عندیہ دیتے ہیں کہ سب ٹھیک ہوچکا ہے۔ ایک دوست نے چودھری نثارکی موجودہ کیفیت پر تبصرہ کرتے ہوئے کہا :وسدی وی نئیں۔نسدی وی نئیں۔تے کْج دَسدی وی نئیں۔ ان کی پریس کانفرنسوں سے اب تک ایک ہی نکتہ ابھر کرسامنے آیا کہ مسلم لیگ نون میں انہیں نوے کی دہائی میں جو مقام اور مرتبہ حاصل تھا وہ بحال کیا جائے۔ ان جیسا جہاندیدہ سیاستدان کیوں نہیں سمجھتاکہ ماضی کی شان وشوکت اب قصہ پارینہ بن چکی ہے۔ حالیہ برسوں میں نئے لیڈر ابھرے ہیںجنہیں نوازشریف کا اعتماداور پشت پناہی حاصل ہے بالخصوص مریم نوازنے پارٹی کے تنظیمی معاملات میں گہرا اثر ورسوخ حاصل کرلیا ہے ۔ وہ نوازشریف کی آنکھ، کان اور زبان بن چکی ہیں۔ نوازشریف جو سننا یا کہنا چاہتے ہیں مریم ان جذبات اور احساسات کو الفاظ کا روپ دینے میں دیر نہیں کرتیں۔ چودھری نثار علی کا مسئلہ یہ ہے کہ وہ ملک کے طاقتور حلقوں سے تعلقات خوشگوار رکھناچاہتے ہیں جو کہ پاکستان کے ماحول میں ایک دانشمندانہ فیصلہ نظر آتاہے لیکن مسئلہ یہ ہے کہ نون لیگ پر بتدریج سویلین بالادستی کے علمبرداروں کا غلبہ ہوچکا ہے۔ نوازشریف جو تین بار وزیراعظم منتخب ہوئے لیکن ایوان اقتدار سے نکال دیئے گئے ‘ زخم خوردہ ہیں اور انتقام کے جذبے سے سرشار بھی ۔ وہ پارٹی کے اندر اسی طبقے کی سرپرستی کرتے ہیں جو ٹکراؤ کی پالیسی پر گامزن ہے۔مریم نواز اس پارٹی دھڑے کی کمان کرتی ہیں۔ چودھری نثار کو پارٹی نے طویل عرصے سے سائیڈ لائن کیا ہوا تھا۔ امور مملکت ہوں یا پارٹی پالیسی سازی کے معاملات پر ان سے کوئی مشاورت نہیں کرتا۔ حتیٰ کہ نوازشریف کے ساتھ ان کی معمول کی بات چیت بھی بند ہے۔ چودھری نثار نے بھی دل کی بھڑاس نکالنے میں کوئی کسر نہ چھوڑی۔ ایسا محسوس ہوتاتھا کہ وہ نون لیگ چھوڑنے کی منصوبہ بندی کرچکے ہیں محض رسمی اعلان باقی ہے۔تحریک انصاف والے بھی امید کرتے تھے کہ عمران خان سے دوستی کے دعویٰ دار چودھری نثار پی ٹی آئی میں شامل ہوں گے۔ اس طرح پی ٹی آئی کی کامیابی کے امکانات مزید روشن ہوجائیں گے۔ عمران خان جلسوں اور پریس کانفرنسوں کے ذریعے چودھری نثار کو تحریک انصاف کے قافلے میں شامل ہونے کی دعوت دیتے رہے ہیں لیکن چودھری صاحب کوئی فیصلہ نہ کرسکے۔وہ تذبذب کا شکار تھے اور اس مخمصے سے باہر نہ نکل سکے حتیٰ کہ پی ٹی آئی میں الیکٹ ایبلز کا ہجوم امنڈ آیااور تل دھرنے کی جگہ نہ رہی۔ شہباز شریف کی کوششوں سے ان کے خلاف امیدوار کھڑے نہ کرنے کا فیصلہ کیاگیا۔ ممکن ہے کہ اس طرح چودھری نثار پارلیمنٹ میں پہنچنے میں کامیاب ہوجائیں لیکن سیاست میں جو اعلیٰ مقام چودھری نثار علی پانا چاہتے ہیں اب ان کے نصیب میں نہیں رہا۔نون لیگ کے اندر طاقتور لابی انہیں لیڈر شپ کے قریب پھٹکنے بھی نہ دے گی۔ نوازشریف کے بارے میں کہاجاتاہے کہ وہ تلخ یادوں کو فراموش نہیں کرتے بلکہ دہراتے رہتے ہیں۔مشاہد حسین سیّد کو مشترکہ دوستوں نے پارٹی میں دوبار ہ شامل کرایا تو میاں نوازشریف اس موقع پر بھی خوش دکھائی نہ دیئے۔ انہوں نے شکوہ کیا کہ کچھ لوگ مجھے کہتے تھے کہ میاں صاحب کڑاکے کڈ دیو۔ آزمائش اور مقابلے کا وقت آیا تو ان میں سے ایک بھی ہمرکاب نہ تھا۔ نون لیگ کے اندر بائیں بازو کی لابی کا اثر ورسوخ بہت بڑھ گیا ہے۔کاروباری لابی بھی نوازشریف کے ذریعے خطے کے تجارتی راستے کھلوانے کی متمنی ہے۔وہ بھارت کے ساتھ تجارت اور کاروبارکو نئی جہت دینا چاہتی ہے۔ چنانچہ وہ میاں نوازشریف کو ایک قابل بھروسہ اتحادی تصور کرتی ہے۔ میاں نوازشریف اگرچہ مروجہ معنوں میں کوئی نظریاتی یا فکری اٹھان نہیں رکھتے لیکن رفتہ رفتہ وہ روایتی سیاسی اور سماجی نظریات کو مسترد کرکے ایک زیادہ روشن خیال اور ترقی پسند شخصیت کے طور پر ابھرے ہیں۔ تجربات اور مشاہدات ان کے سیاسی نظریات میں نمایاں تبدیلی لائے ہیں۔ مریم نوازان کی بدلی ہوئی سیاسی فکر اور رجحانات کی نمائندگی کرتی ہیں۔ وہ جرأت کے ساتھ عوام سے مخاطب ہوتی ہیں ۔ رفتہ رفتہ انہیں عوامی جلسوں اور مظاہروں سے خطاب اور سامعین کو متاثر کرنے کا ہنر بھی آگیا ہے۔خاص طور پرنوازشریف کی نااہلی اور وزارت عظمیٰ سے فراغت کے بعد مریم نواز نے پارٹی کو نیا حوصلہ دیا ۔ کارکنوں کو متحرک کیا اور سینئر پارٹی لیڈروں کو بکھرنے نہیں دیا۔ نون لیگ غالباً یہ جانتی ہے کہ اس دفعہ اقتدار اسے نہیں ملے گا۔ اسی لیے وہ ابھی تک پوری طرح لنگوٹ کس کر انتخابی میدان میں نہیں اتری۔نوازشریف اور مریم بیگم کلثوم نواز کی خرابی صحت کے باعث لندن میں مقیم ہیں۔ لہٰذا نون لیگ ملک گیر الیکشن مہم چلانے کے موڈ میں نظر نہیں آتی۔ شہباز شریف کی کوشش ہے کہ کسی طرح پنجاب پر اپنا اقتدار برقراررکھاجاسکے۔پنجاب میں نون لیگ کی جڑیں بہت مضبوط ہیں۔ بیوروکریسی اور پولیس میں ان کے ہمدردوں کا ایک بہت بڑا حلقہ پایاجاتاہے جو نون لیگ کی کامیابی کے لیے کوشاں تھا۔پنجاب کی حد تک متقدر حلقے بھی نون لیگ کو برداشت کرنے کے لیے تیار ہیں تاکہ الیکشن کا عمل ڈس کریڈٹ نہ ہوجائے۔ اکثر تجزیہ کاروں کی رائے ہے کہ پنجاب میں نون لیگ بری طرح شکست فاش سے دوچار ہوگئی لیکن مجھے عام شہریوں میں نون مخالف رجحان نظر نہیں آتا۔تحریک انصاف پر جس بڑے پیمانہ پر الیکٹ ایبلز کا’’نزول‘‘ ہوااس نے پی ٹی آئی یا عمران خان کی انفرادیت کاکام تمام کردیا۔ اب نون لیگ اور تحریک انصاف کے درمیان کوئی خاص فرق باقی نہیں رہا۔جو لوگ کل تک نون لیگ یا پیپلزپارٹی کے گیت گاتے تھے وہ ہی آج تحریک انصاف کے پرچم تلے الیکشن لڑرہے ہیں اس لیے عام شہری تبدیلی کی لہر کا حصہ بنتے نظر نہیں آتا۔ معاشرے کے فعال طبقات میں الیکشن کے حوالے سے سخت تحفظات پائے جاتے ہیں۔ایسا محسوس ہوتاہے کہ ون وے ٹریفک چلائی جارہی ہے۔ تمام جماعتوں اور شخصیات کو الیکشن لڑنے اور مقابلہ کرنے کی یکساں آزادی اور سہولتیں دستیاب ہونی چاہیں۔ریاستی اداروں کا پلڑا کسی بھی ایک جماعت یا شخصیت کی جانب نہیں جھکنا چاہیے۔یہی جمہوریت کی روح ہے۔ ملک اس مرحلے پر متنازعہ الیکشن کا متحمل نہیں ہوسکتا۔ ایسا ہونے کی صورت میں ایک بار پھر سیاسی بحران سراٹھائے گا اور شہریوں کا ریاستی اداروں پر سے اعتماد اٹھ جائے گا۔پاکستان کے مخالفین کی اس سے بڑی کوئی خدمت نہیں ہوگی کہ ملک کی بڑی سیاسی جماعتیں الیکشن کو شفاف اور آزادانہ تسلیم کرنے سے انکار کردیں۔