پچھلے عام انتخابات کے ساتھ در آئی سیاسی کدورتوں اور رنجشوں میں تاحال کوئی کمی دیکھنے میں نہیں آرہی۔ جس طرح کا عامیانہ پن پارلیمان میں نظر آرہا ہے پتہ نہیں اسے ملک کی مالی صورتحال کا عکس قرار دیا جائے یا پھر وجہ۔ سیاسی پارٹیوں کو نہ تو وبا کا کوئی خوف ہے اور نہ ہی اپنی ساکھ کی پرواہ۔ عوام کیا تاثر لیتے ہیں، کسی کو پرواہ نہیں ۔ گالی گلوچ ، گریبان پکڑنا ، ہلڑ بازی کرنا عام سی بات ہے۔ پارلیمان جیسا مقدس ادارہ مچھلی منڈی کا روپ دھار چکا ہے تو سیاسی پارٹیاں اپنے سوا کسی پر انگلی نہیں اٹھا سکتیں۔ نہ ان کے اندر کوئی جمہوری اقدار ہیں اور نہ ہی کارکنان کی تربیت کا انہوں نے کوئی انتظام کر رکھا ہے۔ فیصلہ سازی کس کے ہاتھ میں ہے ، نہ ہی کارکن سوچتے ہیں اور نہ ہی عدلیہ کا دھیان اس طرف جارہا ہے کہ جیت جانے کی صورت میں بننے والی حکومت اصل میں کس کی ہوگی۔ کھرا کہیں باہر جانکلے تو بھی کچھ بعید نہیں۔ سیاسی تجزیہ نگار دور کی کوڑیا ں لاتے ہیں لیکن سیاسی پارٹیوں میں فیصلہ سازی کے عمل میں جو دراڑیں مگر ان کی توجہ حاصل نہیں کر پاتیں۔ کاغذات نامزدگی کی جانچ پڑتا ل پر تکیہ کیا جاتا ہے لیکن تین یا چار سال ملکی معاملات چلانے کے بعد پتہ چلتا ہے کہ موصوف تو صادق و امین ہی نہیں تھے ، عوام کی آنکھوں میں تو انہوں نے دھول جھونکی ، الیکشن کمیشن کو بھی دھوکہ دے گئے۔ اس ساری صورتحال کا کیا مطلب ہوسکتا ہے سوائے اسکے کہ اس ملک، ریاست اور اس کے عوام کو کوئی سنجیدہ لینے کے لیے تیار ہی نہیں۔ قوانین کی حد تک کمی نہیں لیکن انکا اطلاق تو انسانوں نے ہی کرنا ہے۔ اگر سرکاری اہلکار ذمہ داری پوری نہ کریں ، فرض کو سنجیدگی سے نہ لیں اور نہایت دیدہ دلیری سے غفلت کا ارتکاب کرنے لگ جائیں تو سمجھ لیں کہ پورا کا پورا آوا بگڑ ہوا ہے۔ معاملہ اصلاح سے کوسوں دور نکل گیا ہے، نقشِ کہن مٹانے اور تعمیر نو کا وقت ہے۔ ایسا آج لازم نہیں ہوا بلکہ اس وقت سے ہے جب سے یار لوگوں نے جمہوری طور طریقوں سے حاصل کیے گئے ملک کو تجربات کی نظر کردیا۔ پہلی آئین ساز اسمبلی سے بانی پاکستان کے خطاب کو نظر انداز کرکے منافرت اور فتنوں کی روش اختیار کرلی۔ سیاست کا مقصد بنیادی حقوق کی آبیاری کرنے کے علاوہ کیا ہے؟ اس مقصد کے حصول کے لیے انتظامی مشینری چاہیے۔ اہلکاروں کی تنخواہوں اور ترقیاتی کاموں کے لیے محصولات چاہییں۔ تنازعات اور جھگڑوں سے بچنے کے لیے عدل چاہیے۔ کمال تو یہ ہوتا کہ ریاست کے بنیادی فرائض کو انجام دینے کا کام سائنسی بنیادوں پر کیا جاتا۔ اداروں اور اقتصادی ڈھانچے کی تعمیر کے لیے منصوبہ بندی کی جاتی۔ فیصلہ سازی میں تعلیمی اور تحقیقی اداروں کے کردار کو بڑھایا جاتا۔ لیکن قیام پاکستان کے ساتھ ہی مملکت خداداد کی بنیادیں کھوکھلی کرنے کا کام شروع ہوگیا۔ سیاست طبقاتی مفادات کے تابع کردی گئی ، آزادی کی تحریک کو منطقی انجام تک پہنچنے سے پہلے ہی دبانے کی جدوجہد شروع ہوگئی۔ صدیوں کی غلامی کے نتیجے میں در آئی عدم مساوات ، ظلم اور جبر کو فروغ دینے والے قوانین اور محصولاتی نظام کو ختم کرنے کا وقت آیا تو نہایت ہوشیار ی سے معاملہ ٹال دیا گیا۔ ادارے ، انتظامیہ اور عدلیہ سب بے بس کردیے گئے۔ ملک دو لخت ہوگیا ہے لیکن ذمہ داران کا تعین ابھی تک نہیں ہو پایا ۔ اس ساری جدوجہد کا مقصد غلامانہ دور کے نظام کو برقرار رکھنا اور تبدیلی کا راستہ روکنا تھا۔ ایک طرف ریاست اور عوام کے درمیان خلیج کو برقرار رکھا گیا دو سری طرف عوام کی نظروں میں جمہوریت کی بے توقیر کر دی گئی ۔ پارلیمان میں چور چور کے شورِ قیامت، میڈیا پر نیم حکیمانہ تبصروں اور سیاسی جلسوں میں اختیار کیے گئے لب و لہجے سے بہت کچھ اندازہ لگایا جاسکتا ہے۔ سیاست بنیادی حقوق کے تحفظ کی بجائے ٹرک کی بتی کے پیچھے لگ گئی ہے ، انتظامی مشینری باقاعدہ منصوبہ بندی کے ذریعے ناکارہ کر دی گئی ہے۔ احتساب کا عمل منجمد کر کے کرپشن کو کلچر بنادیا گیا ہے ، اخراجات اور آمدنی کا توازن مستقل طور پر بگاڑکر جمہوریت کو ہی خطرے میں ڈال ہی دیا گیا ، ملکی سلامتی بھی داو پر لگ گئی ہے۔ بنیادی سہولتوں کی عدم دستیابی کی صورتحال یہ ہے کہ ملک کی بیشتر آبادی کو پینے کا صاف پانی تک میسر نہیں، خالص اور متناسب خوراک نہ ملنے کی وجہ سے بچوں کی جسمانی ، فکری اور نفسیاتی صلاحیتیں ماند پڑگئی ہیں۔ خزانے میں سرکاری ملازمین کے پاس تنخواہیں دینے کی بھی پیسے نہ ہوں تو کہاں کی سیاست اور کہاں کی خود مختاری؟ صورتحال جتنی نازک ہے ، یہ بات فطری ہے کہ ریاست ذمہ داران کا تعین کرے، ان کرداروں کا تعین کرے جنہوں نے ملکی سلامتی کے خلاف سازش رچائی اور اسکی بنیادوں میں پانی چھوڑا۔ ریاستی معاملات میں آئے بگاڑ کو سدھارنے کے لیے لازم ہے کہ آئین و قانون کی حکمرانی قائم ہو، بے لاگ احتساب ہو ، کرپشن اور ٹیکس چوری کا خاتمہ ہو اور عوام کا اعتماد جیتنے اور انہیں ملک کی تعمیر و ترقی میں حصہ دار بنانے کے لیے خود مختار مقامی حکومتوں کا نظام قائم ہو۔ اب اگر ریاست کے ایسے ارادوں اور اقدامات سے جمہوریت خطرے میں پڑجائے تو اہل بصیرت کا اگلا کام ایسی جمہوریت کی نوعیت پر غور کرنا بچ جاتا ہے جو عوام کی دسترس سی کہیں دور پروان چڑھی ہے اور صرف الیکش کے دنوں میں ہی گھونگھٹ اٹھاتی ہے۔ صوبائی اور قومی اسمبلی کے انتخابات تو جمہوریت کے لیے لازم ہیں لیکن مقامی حکومتیں شجر ممنوعہ ، ضروریات زندگی پر ٹیکسوں کی بھر مار ہے لیکن انکم ٹیکس کا قومی خزانے میں حصہ نہ ہونے کے برابر، محصولات عوام دے رہیں لیکن اسے خرچ کرنے کا اختیار ٹیکس چوروں کے پاس۔ پارلیمان میں اٹھنے والا چور چور کا شور اور اس کے ردعمل اور شدت میں اضافہ صاحبان ِ عقل وخرد کے لیے بہت سی نشانیاں رکھتا ہے! محبت میں ہر اک نقشہ الٹا نظر آتا ہے مجنوں نظر آتی ہے ، لیلیٰ نظر آتا ہے