زمیندارانہ معاشرہ، جو ہم نے اپنے بچپن میں دیکھا، اس کا سب سے بڑا مسئلہ چوری تھا۔ صدیوں سے اس معاملے کو عدالتی بکھیڑوں سے دور رکھا گیا تھا۔ یہ معاملہ برادری سطح پر حل کیا جاتا تھا اور وہ بھی عدل وانصاف کے تقاضوں کے عین مطابق۔ ایک توچوری سے مالی نقصان وابستہ تھا دوسرے متاثرہ شخص کی عزت بھی کہ آخر کوئی کیوں اس کی ملکیت پر دست درازی کرے۔ یوں چوری کو ایک اجتماعی مسئلہ گردانا جاتا تھا۔ جیسے ہی کسی کی چوری ہونے کی خبر ملتی لوگ نہ صرف اس سے ہمدردی جتاتے بلکہ چور کو ڈھونڈنے میں ہمہ قسم کے تعاون کی بھی یقین دہانی کراتے۔ برادری سے وابستہ ہر فرد اس بات کے لیے بھی تیار ہوتا کہ اگر اس پر الزام لگ جائے تو وہ نہایت نیک نیتی سے اس کی صفائی بھی دے۔ سب سے پہلی اطلاع کھوجی کو دی جاتی جو موقع واردات پر چور کے پاوں کے نشانات ڈھونڈنے کی کوشش کرتا۔ اگر مل جاتے تو کام تقریباً آسان ہوجاتا۔ فوراً بدنام چوروں کو بلا لیا جاتا، انکے پیروں کے نشانات لیے جاتے اور اس طرح چور پکڑا جاتا۔ لیکن اگر چور چالاک ہے اور اس نے کوئی نشان نہیں چھوڑا ، تب بھی برادری حوصلہ نہ ہارتی۔ برادری میں ایسے ماہرین پائے جاتے تھے جوحالات و واقعات کی روشنی میں چور کا پتہ لگا لیتے۔ ہم نے ایک ایسے ہی شخص سے اسکی کامیابی کا راز پوچھا تو اس نے بتایا کہ چوری بغیر مخبری کے ممکن نہیں ہوتی ،مخبر کہیں آس پاس ہی موجود ہوتا تھا۔ تندہی سے 'نگرانی ' ، 'سن گن' اور 'پوچھ تاچھ' کی جائے توچور کو پکڑا جاسکتا ہے۔ چور کے تعین کے بعد اگلا مرحلہ پنچائت بلانا ہوتا تھا۔ طریقہ کار یہ ہوتا کہ مدعی کسی پر اپنے شک کا اظہار کرتا کہ یا اس نے چوری کی ہے یا پھرکرائی ہے۔ پنچائت ، جو کہ معزز افراد پر مشتمل ہوتی، کے سامنے کچھ سوال رکھتا کہ وہ اسے ملزم سے ان سوالات کے جواب لے دے۔ چونکہ چوری کا الزام نہایت سنجدیدہ ہوتا تھا تو شک کی وجوہات بھی بتانا ضروری ہوتا تھا۔ ایک چوری ہوئی تو اس میں یہ دلیل اپنائی گئی کہ اگرچہ ملزم چور نہیں ہے لیکن وہ مدعی کا 'مخالف' ہے۔ کوئی ماضی میں کبھی مرغی یا بھوسہ چوری میں بھی ملوث رہا ہو ، تب بھی اس پر شک کا اظہار کرنا 'جائز 'سمجھا جاتا تھا۔ 'ننھیال 'کی خصلتیں بھی ذہن میں رکھی جاتیں۔ زمیندارانہ معاشرے میں بچوں کو نصیحت کی جاتی تھی کہ کچھ بھی کرلینا ہم بھگت لیں گے لیکن چوری' مت' کرنا کیونکہ اس صورت میں اس خاندان کی عاقبت ہی خراب ہوجاتی۔ یوں کسی پرظاہر کیے گئے شک پر کافی بحث و تمحیص ہوتی اورپنچائت کے بلائے جانے سے پہلے ہی صلح و صفائی سے معاملہ 'دبانے' کی کوشش کی جاتی۔ کرپشن اس وقت ریاست کا سب سے بڑا مسئلہ ہے۔ اداروں میں سفارشی بھرتیوں، فنڈز کی خرد برد ، رشوت خوری اور فرائض سے تجاوز اور غفلت عام ہے۔ اعداد و شمار اتنے بھیانک ہیں کہ شفافیت اور انصاف کی فراہمی کے حوالے سے ملک کی ساکھ کو عالمی سطح پر نقصان ہو رہا ہے۔ نہ ہی سیاح ادھر کا رخ کرتے ہیں اور نہ سرمایہ کار۔ سب سے بڑا نقصان تو یہ ہے کہ محصولات ملک کی استعداد سے کم وصول ہوپاتے ہیں۔ زیادہ تر وہی ٹیکس وصول ہوپاتے ہیں جو عام آدمی پر لاگو ہوسکتے ہیں، یعنی لازمی اشیا جیسا کہ دالیں، خوردنی تیل، پٹرول و ڈیزل یا پھر تنخواہ دار طبقے کی آمدنی پر۔ تاجر، سرمایہ دار، برآمد کنندگان اور بڑے زمیندار اپنی آمدنی چھپانے اورٹیکس چوری میں کامیاب رہتے ہیں۔ دوسرا ظلم یہ ہورہا ہے کہ عوام سے حاصل کردہ ٹیکس ان کی بنیادی ضروریات زندگی کی فراہمی پرخرچ نہیں ہوتے۔ چوروں کی' ریشہ دوانیوں ' کی وجہ سے یا تو قائم نہیں ہو پارہیں یا پھر اپاہج ہوچکی ہیں۔ تعلیم، صحت و صفائی اور صاف پانی کی ترسیل مناسب طریقے سے نہیں ہو پارہی۔ صوبائی مراکز سے فنڈ جب نچلی سطح پر پہنچتے ہیں تو انکا حجم 'چوری' کی وجہ سے نہ ہونے کے ماند رہ جاتا ہے۔ ایک تو مقامی سطح کی حکومتیں بھوک ، بیماری اور جہالت کے تدارک کے حوالے سے کچھ نہیں کرپاتیں دوسرے حق وانصاف کا مناسب ڈھانچہ نہ ہونے کی وجہ سے بہت کچھ عدالتوں پر چھوڑدیا گیا ہے۔ انصاف نہیں ملتا تو لڑائی جھگڑے لوگوں کے معاشی بوجھ میں اضافے کا باعث بنتے ہیں۔ ذرا تصور کریں اگر سستے یا مفت آٹے کی فراہمی منتخب مقامی حکومتوں کے ذریعے ہو پاتی تو تنائج کیا ہوتے اور اب کیا ہورہا ہے؟ اسی طرح سستی کھاد اور بیجوں کا مسئلہ بھی ہے۔ اگر مقامی حکومتوں کا کردار عدل کی فراہمی میں بھی ہوتا تو عدالتوں پر کیسز کا بوجھ کیوں اتنا زیادہ ہوتا؟ شہر اور قصبے غلاظت میں اٹے ہوں تو زیر زمین پانی بھی خراب ہوجاتا ہے۔ اب اگر صاف پانی کی فراہمی ہی مسئلہ ہو تو جتنے ہیلتھ مراکز قائم کرلیں یا پھر ہسپتال بنالیں ، لوگوں کو صحت تو نہیں ملے گی البتہ ادویہ ساز کمپنیوں کا بھلا ضرور ہوگا۔ لوگوں کا معیار زندگی بلند کرنے اور اقوام عالم میں پاکستان کا قدو کاٹھ بڑھاکر باہر سے سیاح اور سرمایہ لانے کے لیے ٹیکس نظام میں بہتری کی بات تو کی جاتی ہے، جو کہ ہونا چاہیے ،لیکن اس بنیادی مسئلہ کی طرف کوئی دھیان نہیں دیتا جو خرابی کی جڑ ہے ،یعنی چوری۔ یہ اتنا وسیع نیٹ ورک ہے کہ اس نے تمام نظام کو اپاہج کرکے رکھ دیا ہے۔ ان کی جڑیں بلا تخصیص تمام اداروں تک پھیلی ہیں۔ چوری کی روک تھام کے لیے قانون سازی کی بات ہو توچور اتنا شور مچاتے ہیں کہ 'نظریہ ضرورت' اپنائے بنا چارہ نہیں رہتا۔ مقصدیہ بتانا ہے کہ اگر قومی اور صوبائی سطح کے انتخابات کرانے یا نہ کرانے پر شور مچانے کی بجائے مقامی حکومتوں کے قیام اور آئین میں درج وسائل اور اختیارات ان کے حوالے کرنے پر توجہ دی جائے تو اس سے بڑا فائدہ یہ ہوگا کہ اس سے چوری کے دروازے بند ہوجائیں گے ،قومی خزانے کا بے جا استعمال رکے گا اور ملک کا مجموعی معیار زندگی بلند ہوگا۔ لوگ اپنے قدرتی اور تہذیبی وسائل کی ترقی میں کردار ادا کریں گے تو نہ صرف پاکستان میں قانون کی عملدار ی بہتر ہوگی بلکہ باہر سے سیاح اور سرمایہ بھی کھنچا چلا آئے گا۔