ہمارے فیصلہ ساز پاکستان کی جغرافیائی حیثیت ، جو اسے ایشیائی خطوںکا چوراہا بناتی ہے،کا فائدہ سوویت یونین کے افغانستان سے انخلا کے وقت سے ہی اٹھانے کا سوچ رہے ہیں لیکن اس کے تقاضے ہی ایسے ہیں جو پورے نہیں ہو پارہے۔ اس سے بڑا اور اہم سوال جس کا ہمارے پالیسی ساز جواب نہیں دے پارہے وہ یہ ہے کہ آیا ہم ایک 'نظریاتی' قوم ہیں یا 'حقیقی'۔ یعنی ہم اپنی سرحدیں وہیں پر دیکھتے ہیں جہاں وہ واقعی ہیں یا پھر ہم نے نیل کے ساحلوں اور خاکِ کاشغر کو سپنوں میں سجالیا ہے۔ قومیت کا تصور ہی گڈ مڈ ہوکر رہ جائے تو وہ قومی غیرت کہاں سے آئے گی جو ملک کی سلامتی اور پائیدار اور ہمہ جہت ترقی کی ضامن ہوتی ہے؟ یہ تو حقیقت ہے کہ ہم اندرونی کشمکش میں مبتلا ہیں۔ شاید چوراہے پر بیٹھے لوگوں کا اس حالت میں ہونا فطری بات ہو۔ لیکن دنیا کی چھٹی بڑی فوج اور ایٹمی ہتھیاروں سے لیس ہوکرزیادہ دیر اس حالت میں رہنے سے دنیا ہمارے بارے میں شکوک وشبہات میں مبتلا ہوسکتی ہے کہ آیا ہم واقعتاً بیمار ہیں یا پھر کچھ عجیب کرنے جارہے ہیں۔ سرد جنگ کے دوران جب ہم نے ایک عرصے تک امریکہ کا ساتھ دیا تو دینا ہمیں ایک نادان بچہ ہی سمجھتی رہی کہ ہمیں ایک سہارے کی ضرورت تھی اور اگلوں نے اپنے عالمی اور نظریاتی مفادات کی خاطر ہمیں افغانستان کی بھٹی میں جھونک دیا۔ کہا جارہا ہے کہ امریکہ کا افغانستان سے واپسی کا اعلان ہماری شعوری زندگی کا نقطہ آغاز ہے۔ سکیورٹی اداروں کی طرف سے گھنٹوں لمبی بریفنگس، پہلے بزرگ صحافیوں اور پھر پارلیمانی پارٹیوں کے نمائندگان کو، کا لب لباب یہی تھا کہ ہم نے دائیں یا بائیں نہیں جھانکنا اور سیدھے راستے پر چل کر اقوام عالم میں اپنی ساکھ بنانی ہے۔ اپنی جغرافیائی حیثت اور جنگی وسائل کے تناظر میں ہمیں اس خطے کی ذمہ دار قوم کے طور پر ابھرنا ہے۔ ہم نے امریکہ کو اپنے طور پرنہ کردی ہے، عربوں سے ہم اسی طرح ہی کہہ چکے ہیں کہ اب ہم دنیا کے ساتھ تنازعات نہیں بلکہ امن کے فروغ میں ساتھ ہیں۔ ایک امن پسند ملک کے تشخص کو اجاگرکرنے کے لیے یہ بھی ضروری گردانا گیا ہے کہ ہم اپنے گھر کو درست کریں گے۔ انتظامی، مالی اور سیاسی اصلاحات سے ہم اپنے معاملات میں استحکام لائیں گے۔ آئین و قانون کی عملداری سے معاشرتی امن آئے گا جو ہماری پائیدار ترقی کی بنیاد بنے گا۔ لیکن منزل کے واضح تعین اور سیاسی و عسکری قیادت کے عزم و ارادوں کے منظر عام پر آنے کے بعد بھی وسوسے اور وہم دامن گیر ہیں۔ یہ اندرونی تنازعات اور خلفشار ہی تو ہے جو ہماری خارجہ پالیسی میں بے عملی کا باعث بنتا ہے اور ہم گھوم پھر کر واپس اسی مقام پرآجاتے ہیں جہاں سے ہم نے اپنے سفر کا آغاز کیا ہوتا ہے۔ نوے کی دہائی سے ہم سرمایہ داری نظام کا حصہ بنے اور عالمی مالیاتی اداروں کے قرضے لیکر مالی اور انتظامی اصلاحات کے عمل کا آغاز کیا لیکن ان شرائط کو ہر گز پورا نہیں کیا جس سے سرمایہ دارانہ نظام کی سفاکی کم ہوتی ہے یا ترقی کے اثرات عام لوگوں تک پہنچتے۔ ان شرائط میں سب سے اولین جمہوریت ہے جو بنیادی حقوق کے تحفظ کو یقینی بناتی ہے۔ آئین و قانون کی حاکمیت ، احتساب ، مرکزیت کا خاتمہ اور علاقائی تجارت ایسے دیگر لوازمات ہیں جس سے نہ صرف معاشی استحکام آتا ہے بلکہ زندگی کے معیار میں بھی اضافہ ہوتا ہے۔ لیکن ہمارے ہاں قرضوں کے زور پر لائی گئی اصلاحات اور مغرب کے دبائو پر لائی گئی جمہوریت کا فائدہ اشرافیہ کو ہی ہوا ہے۔ صوبائی اور قومی اسمبلی و سینٹ کے انتخابات پر ہی زور ہے۔ ٹیکسوں کا بوجھ عوام کے کندھے پر دھرا ہے۔ حق نمائندگی آبادی کے اس ایک فیصد کے پاس ہے جس نے معاشی وسائل پر قبضہ کر رکھا ہے اور تمام مراعات بھی اپنے حد تک ہی محدود کر لی ہیں۔ کون نہیں جانتا کہ معاشرتی بدامنی استعماری طاقتوں کے پروردہ طبقے کو ہی راس آتی ہے اور ہمسائیوں کے ساتھ تعلقات میں بگاڑ بھی۔ یہ طبقہ عوام کے معیار زندگی بڑھانے کی بجائے ایٹیمی ہتھیاروں اور مضبوط فوج میں ملک بقا کو دیکھتا ہے، اداروں کو مضبوط کرنے کی بجائے ملازمین کی وفاداریاں خریدتا ہے، انصاف کے فروغ کی بجائے پولیس کی مراعات اور اختیارات میں اضافہ کرتا ہے، بھوک اور غربت کے خاتمے کے لیے عملی اقدامات کی بجائے جرائم کی بیخ کنی پر زور دیتا ہے۔ اٹھارویں ترمیم سے ابھر کر سامنے آنے والا نسلی وفاق ، مرکز کی جوابدہی سے مبرا خود مختار صوبے، بھوک اور بیماری کے خوف سے لرزتی عوام سوویت یونین کے انخلا کے بعد بنے گئے خوابوں کی بھیانک تصویر پیش کرتے ہیں۔ ہمیں اب تک اشرافیائی جمہوریت ہی ملی ہے اور اس کے نتیجے میں بے رحم سرمایہ دارانہ نظام جس کے سامنے عمرانی انقلاب بھی ریت کی دیوار ثابت ہوتا دکھائی دیتا ہے۔ ضروریات زندگی سستی نہیں ہوسکتیں، توانائی مہنگی رہے گی اور ٹیکسوں کا بوجھ عوام کے کندھوں سے نہیں ہٹا یا جاسکتا تو ایوان نمائندگان میں تقریریں کرنے سے تبدیلی بھی نہیں آئیگی۔ پیداواری وسائل چھوٹی سی اشرافیہ کے ہاتھوں میں رہیں گے اور اختیارات و وسائل صوبائی دارلحکومتوں سے نکل کر دور دراز کے خطوں اور علاقوں تک نہیں پہنچیں گے تو معاشرتی استحکام خواب ہی رہے گا۔ ٹیکسوں اور اختیارات کی تقسیم میں انصاف نہیں ہوگا اور جمہوریت کے ثمرات نچلی سطح تک نہیں پہنچیں گے تو لوگوں کا ہجوم ایک قوم میں کیسے تبدیل ہوگا؟ ملکی استحکام کے لیے حب الوطنی کے چشمے کہاں سے پھوٹیں گے؟ ایشائی خطوں کے چوراہے پر بیٹھے ابھی تک تو ہماری حییثت محض ایک کبوتر کی سی ہے جو بلی کو سامنے دیکھ کر اڑان بھرنے کی بجائے اپنے آنکھیں بند لیتا ہے اور تصور کرلیتا ہے کہ شکاری چلاگیا ہے۔ بھلا آنکھیں بند کرلینے سے بھی حقائق بدلتے ہیں؟