دنیا کارخانہ ہے عبرت کا اور قبرستان ہے حسرتوں اور عزائم کا! عبرت کے مضمون، ہر پل اس سے ڈھل ڈھل کر نکلتے ہیں۔ بے شمار آرزوئیں اور تمنائیں، سروں کا سارا سودا، سب یہیں رہ جاتا ہے۔ کل پائوں، ایک کاسہ ء سر پر جو آ گیا یک سر، وہ استخوان، شکستوں سے چْور تھا کہنے لگا کہ دیکھ کے چَل راہ، بے خبر! میں بھی، کبھو، کسو کا، سر ِپْرغرور تھا چار دن کی یہ حیات، ہزار صفحوں کی کتاب ہے۔ مگر ع اول و آخر ِاین کْہنہ کتاب افتادہ ست جنہیں دیکھا، جن کو سْنا، جس جس کو پڑھا، وہ البتہ اس کا حصہ ہوتے گئے۔ اب اس کتاب کے کتنے ہی حرف عبرت نامہ ہیں۔ عبارتیں کی عبارتیں حسرت کی تصویر۔ ذرا دیکھیے، ان میں ایسے بھی ہیں، جو چلتے تھے تو ایک عالَم بیٹھ کر، انہیں تکتا تھا۔ ان کی شان کے سامنے، بڑے بڑے ماند پڑ جاتے تھے۔ زمین کو تو فتح کر چکے تھے، ان کا بَس چلتا تو آسمان کی گردش کو بھی تھام آتے۔ لیکن اسی گردش نے انہیں، یوں زمین پر پٹخا کہ عبرت کا نشان، صرف ہڈیاں باقی ہیں! اسی کتاب میں کچھ نقوش بہت دْھندلے ہیں۔ انہیں دیکھا تھا، لیکن کیا واقعی دیکھا تھا؟ مجبوری، بے کسی، بے نوائی کے یہ اشتہار تھے۔ یہ کیوںیاد رہتے؟ ہاں! یہ تب ضرور یاد آئے، جب خود مجبور ہوئے! اور اْدھر دیکھیے! وہ نازنین، جو دھرتی کی نبض روک دیتے۔ انہیں کیا ہوا؟ یہ پْتلے بھی ٹوٹ کر رہے؟ آدمی مغرور ہے اور بہت مغرور! وقت ظالم ہے اور بہت ظالم! ہر غرور کا سَر، یہ نیچا کر کے چھوڑتا ہے! پھر چو آہنگ ِرفتن کْند جان ِپاک چہ بر تخت مْردن، چہ بَر رْوی ِخاک جب مرنا ہی ٹھہرا، تو تخت ہی تختہ ہو جائے یا مٹی مٹی میں مِل جائے؟ ڈرو اس وقت سے، جب ہر ایک کو صرف اپنی فکر ہو گی۔ تب انسان کی سب سے بڑی سفارش، اس کے اپنے اعمال ہوں گے۔ زاد ِسفر، کِبر ہو؟ وہی کِبر جو مٹی میں مِل کر رہا، یا خاکساری، جس کا سفر مٹی سے مٹی تک کا رہا۔ اے انسان نما آدمی! کچھ کر لے۔ اس سے پہلے کہ آخری صدا، جس پر لبیک نہ کہنے کی گنجائش ہی نہیں، پْکار لے جائے! ع خاک شو، پیش ازان کہ خاک شوی بعض لوگوں کی آنکھیں، اس دنیا میں کھْلنا محال لگتی ہیں! دو عدد لیڈر بھی ایسے متکبرانہ دعوے کر بیٹھے ہیں، جنہیں پورا کرنے کی نہ ان میں طاقت ہے نہ استطاعت۔ مگر تیور ایسے ہیں ع کہ جیسے جائے کوئی مست فیل بے زنجیر ایک کہتا ہے کہ لات مار کر، حکومت گرا دوں گا۔ دوسرے کو زْعم اور ضد ہے کہ ملین مارچ کروں گا! یہ غرور اور ٹھسے داری، اگلے چند روز میںہوا ہو کر رہے گی۔ یہ اَور بات کہ سبق پھر نہیں سیکھا جائے گا۔ انہیں عوام کی فکر، صرف اپوزیشن میںآ کر لاحق ہوتی ہے! سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ انہیں موقع دوبارہ کیوں دیا جائے؟ بِل کلنٹن کا تاریخی فقرہ یاد کیجیے۔ دو ہزار بارہ کے صدارتی انتخابات کی مہم کے دوران انہوں نے کہا تھا کہ ہماری مخالف جماعت ریپبلکن کا پیغام، دراصل یہ ہے۔"ہم نے جو گند آٹھ برسوں میں پھیلایا تھا، وہ تم چار سال میں صاف نہیں کر سکے، اس لیے ہمیں دوبارہ موقع دیا جائے"۔ اس ایک فقرے سے، ریپبلکن جماعت جانبر نہ ہو سکی! خود مِٹ رومنی نے اعتراف کیا تھا کہ بل کلنٹن کی کہی ہوئی بات، بڑی اثر انگیز ثابت ہوئی۔ یہی سوال، پاکستانیوں کو بھی درپیش ہے۔ کب تک ہم، بقول ِمیر "عطار کے لڑکے" سے دوا لیتے رہیں گے؟ اس دوا سے، اگر آج تک فائدہ تو کجا، نقصان ہی ہوا ہے، تو آئندہ دوا کیوں نہ بدلی جائے؟ موجودہ حکومت اگر ناکام رہتی ہے تو نئے لوگ تلاش کیے جائیں۔ نہ یہ کہ انہی پرانے سوراخوں سے خود کو دوبارہ ڈسوایا جائے! "بھاری صاحب" تعلی سے کہ رہے ہیں کہ ہم نے "پاکستان کھپے"، اس وقت کہا تھا، جب زخموں سے ہم چْور تھے۔ مگر پلٹ کر ان سے یہ کیوں نہ پوچھا جائے کہ اس "زخم خوردگی" کا باعث کیا تھا؟ اور اس سے، بمبینو سینما سے آدھے کلفٹن کی مِلکیت تک کا سفر، جائز کیوں ہو؟ وہی بات کہ تمہارے کھیت سے، لے جاتے ہیں بندر چنے کیوں کر یہ بحث اچھی ہے اس سے "حضرت ِآدم بنے کیوں کر"؟ دوسرے صاحب حضرت ِمولانا ہیں۔ یہ ویسے مولانا ہرگز نہیں، جنہیں ظفر علی خاں ’’بالفعل اولانا‘‘ کہا کرتے تھے۔ بلکہ یہ اتنے روشن خیال اور ترقی پسند ہیں کہ جبہ و دستار سمیت، پرویز مشرف سے بھی آ مِلتے ہیں۔ ترقی کے قدم ان کو امریکن خاتون سفیر کی چوکھٹ سے بھی گزار کر رہتے ہیں۔ دست ِطلب، وہاں بھی دراز ہوا، لیکن قسمت نے یاوری نہ کی۔ بلکہ کہنا چاہیے کہ آمادگی، مجھے تو رہی ہر گناہ پر فضل ِخدا سے، بْت ہی نہیں آئے راہ پر! عوام کے حال سے انہیں بھی اتنی ہی دلچسپی ہے، جتنی "بھاری صاحب" کو! حد یہ ہے کہ خود تو یہ کشمیر کمیٹی کی "موٹی اسامی" سنبھالتے رہے اور اپنے چھوٹے بھائی کو، جو دیکھنے میں اور برتنے میں بھی ان کی کاربن کاپی ہیں، چھے عدد قائمہ کمیٹیوں میں دھنسواتے رہے۔ ان کے یہ وظائف برسہا برس سے جاری تھے۔ جیسے ہی یہ کھاتے بند ہوئے، حضرت پھریری لے کر کھڑے ہو گئے۔ اب یہ زندگی میں پہلی دفعہ بھارت کے خلاف بولے ہیں۔ کہاں حضرت ِمولانا اور کہاں بھارت کا نام بھی زبان پر لانا؟ ان کے نامئہ اعمال میں یہ اتنی بڑی بدعت ہوئی ہے کہ صرف اس ایک خدمت کے بدلے، انہیں واقعی دوبارہ کشمیر کمیٹی کا چیئرمین بنا دینا چاہیے! بھاری صاحب ہوں یا حضرت ِمولانا، بظاہر، ان کا زمانہ لَد چکا۔ اور ان کا معاملہ، بقول ِشیخ سعدی ع کہ دگر ناید آب ِرفتہ بجْوی کا سا ہے۔ عوام انہیں رد کر چکے ہیں، سو جھنجھلاہٹ اور کھسیاہٹ میں، یہ کچھ بھی کر سکتے ہیں۔ ان کی یہ تگ و دو اور جستجو، دراصل وہی مضمون ہے، جو عدیم ہاشمی نے نظم کیا تھا۔ بچھڑ کے تجھ سے، نہ دیکھا گیا کسی کا ملاپ اْڑا دیے ہیں پرندے شجر پہ بیٹھے ہوئے