چولستان کے نامور گلوکار آڈو بھگت گزشتہ روز چک 177 چولستان میں انتقال کر گئے ۔ آنجہانی عالمی شہرت یافتہ فنکار فقیرا بھگت کے استاد تھے۔ انہوں نے چولستانی ثقافت کو پوری دنیا میںمتعارف کرانے میں اہم کردار ادا کیا ۔ آڈو بھگت کے انتقال پر چولستانی فنکار موہن بھگت کا کہنا ہے کہ ان کی وفات سے چولستانی موسیقی کا ایک عہد ختم ہو گیا ہے۔ انہوں نے کہا کہ وہ میرے والد فقیرا بھگت کے استاد تھے اور میرے والد کو موسیقی میں جو مقام ملا ان کی وجہ سے ملا ۔ آنجہانی آڈو بھگت نے ریڈیو پاکستان بہاولپور، ملتان اور پی ٹی وی لاہور پر اپنے فن کا مظاہرہ کیا ۔ ان کی عمر 65 سال تھی ، وہ عرصہ سے دمہ کے مرض میں مبتلا تھے ، حکومت سے درخواستوں کے باوجود ان کے علاج پر توجہ نہ دی گئی ۔ 19 جنوری 2020 ء کو ان پر فالج کا حملہ ہوا اور وہ اس جہان فانی سے رخصت ہو گئے ۔آنجہانی آڈو بھگت کے چار بیٹے اور تین بیٹیاں ہیں ۔ ان میں سے ایک بیٹا کوڑا بھگت موسیقی کی طرف رغبت رکھتا ہے ۔ آڈو بھگت کے ذاتی کوائف سے معلوم ہوتا ہے کہ وہ 1955ء میں عالم رام کے گھر ٹوبہ تال والا موضع نواں کوٹ چولستان میں پیدا ہوئے ۔ بچپن سے موسیقی کی طرف راغب تھے اور سندھ کے عالمی شہرت یافتہ لوک فنکار کنور بھگت کو اپنا روحانی استاد کہتے تھے ۔ بعد میں انہوں نے چولستان کے فنکار حسو بھگت کی شاگردی اختیار کی ۔ ان کو فوک اور عارفانہ کلام خصوصاً کافی گانے پر عبور حاصل تھا ۔ وہ کافی، بھجن اور گیت چولستان اور مارواڑی انگ میں گانے پر مہارت رکھتے تھے ۔دیگر چولستانی فنکاروں کی طرح یکتارا اور چپڑی پر وہ اپنے فن کا مظاہرہ کرتے ۔ تنبورا جو کہ چولستان اور سرائیکی خطے کا قدیم ساز ہے ، سے بھی ان کو بہت رغبت تھی ۔ ان کا کہنا تھا کہ تنبورا مجھے اس لئے بھی پسند ہے کہ یہ حضرت شاہ عبداللطیف بھٹائی کا پسندیدہ راگ ہے ، وہ یہ بھی بتاتے کہ بعض روایات کے مطابق تنبورا کے موجد بھٹائی سئیں تھے۔ چولستان قدیم ثقافتی سرزمین ہے ‘ اس خطے نے بڑے بڑے فنکاروں کو جنم دیا ۔ جن میں آڈو بھگت اور آڈو بھگت کے ساتھ ان کے شاگرد فقیرا بھگت کا بہت بڑا نام ہے ‘ انہوں نے اپنے فن کے ذریعے پوری دنیا میں اپنے استاد ، اپنے خاندان اور اپنے چولستان کا نام بلند کیا ۔ فقیرا بھگت ایسا شاگرد تھا جو کہ اپنے استاد کی بھی پہچان بنا ۔ فقیرا بھگت کی آواز میں سوز و گداز تھا ، وہ بہت بڑا فنکار ہونے کے ساتھ ساتھ بہت اچھا انسان بھی تھا ۔ اپنی دھرتی ،اپنی مٹی اور اپنی سرزمین سے محبت کرتا تھا ۔ 1996 ء میں دہلی کی عالمی سرائیکی کانفرنس کے موقع پر وہ ہمارے ساتھ ہندوستان گیا ، وہاں اس کی بہت آؤ بھگت ہوئی ، اس کی آواز اور اس کے فن کو بہت پسند کیا گیا ،چند دن بعد میں نے دیکھا کہ فقیرا بھگت کمرے کے ایک کونے میں بیٹھ کر رو رہا ہے ‘ میں نے پوچھا کیا ہوا تو فقیرا بھگت نے سرائیکی میں کہا ’’ سئیں میکوں اپنے وطن پاکستان گھن جلو ، ڈاڈھی مونجھ آئی اے ۔ ‘‘ میں نے کہا کہ کیا ہندوستان آپ کو اچھا نہیں لگا تو اس نے کہا کہ’’ نہیں بالکل نہیں ، میرے چولستان اور میرے پاکستان کے مقابلے میں یہ کچھ بھی نہیں ۔ ‘‘ گزشتہ دور حکومت میں راجہ جہانگیر انور سیکرٹری اطلاعات بنے تو انہوں نے آرٹسٹ سپورٹ پروگرام شروع کیا ، جس سے صوبے کے ہزاروں آرٹسٹوں کو ریلیف ملا ، یہ اس لئے بھی ضروری تھا کہ ملک میں ساؤنڈ ایکٹ کے بعد فنکاروں کے چولہے ٹھنڈے ہو گئے تھے اور نوبت فاقہ کشی سے خود کشیوں کی طرف جا پہنچی تھی اور اس دوران بہت سے فنکار کسمپرسی اور فاقہ کشی میں فوت ہوئے ۔ سپورٹ پروگرام سے ان کو ریلیف ملا تھا مگر تحریک انصاف کے بر سر اقتدار آنے کے بعد صوبے کی وزارت اطلاعات و ثقافت کا قلمدان فیاض الحسن چوہان کے پاس آیا تو انہوں نے آرٹسٹ سپورٹ پروگرام ختم کر دیا ، جس سے فن سے وابستہ افراد کو جو تھوڑا بہت ریلیف ملتا تھا وہ بھی بند ہو گیا ۔ یہ بات قابل تعریف ہے کہ سیکرٹری اطلاعات راجہ جہانگیر انور نے دوبارہ آرٹسٹ سپورٹ فنڈ 2019-20 ء کی منظوری حاصل کر لی ہے ۔ اور آرٹسٹوں سے درخواستیں طلب کی گئیں۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ یہ عمل شفاف ہو اور اس اس کا دائرہ پورے صوبے تک پھیلایا جائے خصوصاً دور دراز دیہی علاقوں کے فنکاروں کو کسی صورت نظر انداز نہیں ہونا چاہئے ۔ یہ بات خوش آئند ہے کہ سیکرٹری اطلاعات و ثقافت راجہ جہانگیر انور آرٹ سے محبت کرتے ہیں اور آرٹسٹوں کی فلاح و بہبود کیلئے سابقہ دور کی طرح موجودہ دور میں بھی انہو ںنے اقدامات کئے ۔ جس سے صوبے کے ہزاروں آرٹسٹوں کو ریلیف ملا تھا ۔ آرٹسٹ سپورٹ فنڈز کے قیام کا یہ فائدہ ہوا ہے کہ آرٹسٹوں کی مدد شروع ہو چکی ہے ۔ روزنامہ 92 نیوز کی ایک خبر کے مطابق وزیراعلیٰ نے آرٹسٹ سپورٹ فنڈ کے تحت مستحق فنکاروں میں مالی امداد کے چیک تقسیم کئے ، 90 شاہراہ قائد اعظم پر منعقد ہونے والی تقریب کے دوران وزیراعلیٰ عثمان بزدارنے اداکار ہما ڈار ،گلوکار ظہور احمد الیاس ( سائیں ظہور ) ، ادکار جاوید کوڈو اور ناصر شیرازی کو مالی امداد کے چیک دیئے ۔ وزیراعلیٰ نے آرٹسٹ سپورٹ فنڈ میں مزید اضافے کا اعلان کرتے ہوئے کہا کہ اس فنڈ کو مزید بڑھایا جائے گا اور آرٹسٹ سپورٹ فنڈ میں اضافہ آئندہ مالی سال میں کیاجائے گا ۔وزیراعلیٰ کا اعلان خوش آئند ہے ، بہتر ہوتا کہ آنجہانی آڈو بھگت بھی سپورٹ فنڈز سے مستفید ہوتا ۔ میں پھر گزارش کروں گا کہ فنکاروں کی مالی امداد کے موقع پر دور دراز کے فنکاروں کو نظر انداز نہیں کیا جانا چاہئے ۔ میں نے پہلے بھی لکھا تھا اور اب بھی عرض کر رہا ہوں کہ وزارت اطلاعات و ثقافت کے ذیلی ادارے خصوصاً آرٹس کونسلوں کے قیام کا مقصد مصوری ، ادبی ، موسیقی ، ڈرامہ ، نئی کتب کی تقریب رونمائی ، قومی تہواروں پر تقریبات کا انعقاد ، حسن قرات، نعت خوانی کے مقابلے ، غیر ممالک میں فنی نمائشوں کا انعقاد شامل ہے سرائیکی وسیب میں آرٹ اور موسیقی سے وابستہ افراد کسمپرسی کا شکار ہیں۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ محروم اور پسماندہ علاقوں کو بھی پاکستان کا حصہ سمجھا جائے اور ان فنکاروں کو بھی اس عمل میں شامل کیا جائے کہ کسی بھی فن کو فنی جِلا محروم اور پسماندہ علاقوںمیں ملتی ہے ۔ بڑے شہروں میں مصنوعی اور نمائشی سلسلے زیادہ ہوتے ہیں جبکہ اصل فنکار اور سننے والے دور دراز کے غریب اور پسماندہ علاقوں میں پائے جاتے ہیں ۔ گودڑی کے یہ لعل ضائع نہ ہو جائیں ، ان کو محفوظ کرنے اور آگے لے آنے کی ضرورت ہے۔اگر میری درخواست پر غور کیا گیا ہوتا تو چولستان کا عظیم فنکار آڈو بھگت کسمپرسی کی حالت میں فوت نہ ہوتا۔