مکرمی! چولستان کا ماخذ ترکی زبان کا لفظ چول ہے جسکے معنی ہیں ریت۔ ریت کے اس سمندر میں کئی جزیرے بھی ہیں جنہیں مقامی زبان میں ٹبہ کہتے ہیں۔ انہی ٹبوں کی بھول بھلیاں میں اگر کہیں پانی مل جائے تو وہ جگہ سفید اور پختہ ہو جاتی ہے اور اسکے قرب و جوار کی زمین سبزے کی چادر اوڑھ لیتی ہے اسطرح یہ چھوٹا سا نخلستان انسانوں اور جانوروں کو اپنی طرف کھینچ لیتا ہے۔ یہاں رہنے کی ایک ہی شرط صحرا نوردی کی خواہش ہے۔ عام لوگوں کو نظر آنے والی یہ انتہائی پرسرار زندگی روہی واسیوں سے باتیں کرتی ہے۔اس بیابان کے مکین اتنے مہمان نواز ہیں کہ 55 خشک ساون جھیلنے کے بعد بھی جس سے ملیں پہلے پانی کا پوچھتے ہیں انکا ذریعہ معاش لائیو سٹاک ہے۔ یہاں میلوں تک اڑتی ریت اپنے اندر کئی تہذیبوں کو دفن کیے ہوئے ہے جن میں سر فہرست ہاکڑہ کی تہذیب ہے۔ دریائے ہاکڑہ کے کنارے بسا یہ بوند بوند پانی کو ترستا چولستان ماضی میں چھتنارے درختوں سے بھرا ہوتا تھا پانی کی لہریں کبھی قلعہ دراوڑ کی مضبوط دیواروں سے سر پٹخا کرتی تھیں یہاں چوکڑیاں بھرتے کالے ہرن بارہ سنگے چنکارے خرگوش خوب پھل پھول رہے تھے دوسری طرف تیتر تلور مرغابی کشمیرا چڑگ بھوکڑ چکری اور باز جیسے نایاب پرندے آسمان کی وسعتوں میں اڑانیں بھرتے اور شکاریوں کو منہ چڑاتے نظر آتے تھے اور اپنی دلفریب آوازوں سے سماں باندھ دیتے تھے۔ مگر اب یہاں صرف روہی کی کوک سنائی دیتی ہے دکھ سے بھری کوک۔ روہی واس ہی اس درد کوسمجھ سکتے ہیں۔ وہی روہی واس وہی آدم زادے جو اپنی مٹی کی محبت میں گرفتار اسکا دامن چھوڑنا نہیں چاہتے مگر اپنی سرشت سے مجبور اپنی نسل کو آگے بڑھاتے ہیں گھر بنانے کی سکت نہیں تو دائروں کی صورت سرکنڈوں کی دیواریں بنا کر درمیان میں بانس گاڑ کر چھٹیوں کی چھتیں بنالیتے ہیں اور یہاں کی آبنوسی مٹیار آج بھی شوخ رنگوں کے کپڑے پہنتی ہے اور اسکی ہوا میں ہلکورے بھرتی آوازوں میں ایک لوچ ہے جسکو وہی سمجھ سکتا ہے جس کے اندر کوئی صحرا بسا ہو۔ لیکن جو ایک بار اسکی محبت میں گرفتار ہو جائے پھر رہا نہیں ہونا چاہتا ۔ یہاں اگی ہوئیں جھاڑیاں یوں آسمان کی طرف بلند ہیں کے دیکھنے والے کو گماں ہوتا کے جیسے کوئی برہا کی ماری دامن پھیلائے کھڑی ہو اور نامراد لوٹے۔ صحرا کی مقدس خاموشی اور کنواری ہوا کی تقدیس یوں تو ہر حساس دل کو تخلیق پہ آمادہ کرتی ہے مگر ریگستان بسانے کا فن فقط ریشماں کو آیا یا ان من چلوں کو جو آج بھی اپنے اچھے دنوں کو یاد کرتے ہیں اور روہی کی بے رنگ شاموں میں رنگ بھرنے کیلیے جھومر ڈالتے ہیں۔ (مصباح چوہدری پاکپتن )