ہر سال فروری میں منعقد ہونے والا چولستان ریلی ملک کا بہت بڑا ایونٹ بن چکا ہے۔ لاکھوں افراد اس ایونٹ میں شریک ہوتے ہیں۔ اب اس ایونٹ کو بین الاقوامی ایونٹ کا درجہ حاصل ہونا چاہئے۔ اس میں غیر ملکی ٹیموں کو بھی حصہ لینے کی دعوت دینی چاہئے۔ سالہاسال سے یہ ایونٹ یکسانیت کا شکار ہوتا جا رہا ہے۔ ایک ہی طرح کے لوگ کامیاب ہوتے ہیں۔ سب سے بڑھ کر ضرورت اس بات کی ہے کہ اس ایونٹ کو چولستان کے تعارف کا تو ذریعہ ہونا چاہئے مگر چولستان میں تفریح کے نام پر ہلڑ بازی نہیں ہونی چاہئے۔ حکمرانوں کو چولستان جیپ ریلی کا ایونٹ کرانے کے ساتھ ساتھ چولستان میں بسنے والے لوگوں کو بنیادی سہولتیں بھی فراہم کرنی چاہئیں۔ چولستان میں تعلیم، صحت اور روزگار کے مسائل بھی ان کی ترجیحات میں شامل ہونے چاہئیں۔ کمشنر بہاولپور کیپٹن (ر) ظفر اقبال اس علاقے کی تہذیب و ثقافت سے آشنائی رکھتے ہیں کہ وہ رحیم یار خان میں ڈپٹی کمشنر رہ چکے ہیں۔ موصوف کا یہ کہنا بھی درست ہے کہ چولستان ڈیزرٹ ریلی سے جہاں چولستانی کلچر کی دنیا بھر میں شناخت ہوتی ہے وہاں ملک بھر کی صاحب استطاعت اور اثر رسوخ رکھنے والی شخصیات میں باہمی اتحاد و یکجہتی کے جذبوں کو بھی فروغ ملتا ہے۔ صاحبزادہ شیر میاں عباسی نے بھی بجا کہا کہ چولستان جیپ ریلی سے چاروں صوبوں سے صاحب ثروت اور اہم سرکردہ شخصیات شریک ہوتی ہیں اس موقع پر باہمی گفت و شنید اور باہمی میل ملاپ ہوتا ہے ، اس سے نفرتوں کا خاتمہ ہوتا ہے۔ اس طرح جیپ ریلی سے بہاولپور بالخصوص چولستان کی معاشی حالت بہتر بنانے میں مدد ملتی ہے۔ اس بار چولستان جیپ ریلی میں تقریباً تین لاکھ افراد سے زائد کی ملک بھر سے آنے کی تواقع ہے ۔ یوں اس موقع پر ڈیر سمیت بہاولپور ڈویژن کے تینوں اضلاع کے اہم چولستانی مقامات میں کئی شہر آباد ہو رہے ہیں ۔ علاقے کے لوگوں کو کھانے پینے کے سٹالوں سے لے کر علاقہ کے مویشی ، دودھ اور دیگر خوردونوش فروخت کرنے کے مواقع ملیں گے۔ دوسرا عوامی نقطہ نظر یہ ہے کہ چولستان جیپ ریلی سے مقامی لوگوں کو قطعی طورپر نظر انداز کر دیا جاتا ہے ۔ ٹور ازم ڈویلپمنٹ کارپوریشن پنجاب کی بیورو کریسی جو کہ لاہور میں بیٹھتی ہے تو وہاں بیٹھ کر تمام فیصلے کئے جاتے ہیں جو کہ مقامی ماحول کے بالکل بر عکس ہوتے ہیں ۔ مقامی سپانسرز سے ہونے والے کثیر سرمایہ اور آمدنی کا کوئی حساب کتاب نہیں ۔ کیا ایسا بھی کبھی ہوا ہے کہ ایونٹ چولستان کا ہو اور افتتاحی تقریب لاہور میں منعقد کی جائے اور اس کیلئے بہاولپور کو سجانے کی بجائے لاہور کو بینروں اور آرائشی محرابوں اور رنگ برنگے قمقموں سے سجایا جائے ۔ اس افتتاحی تقریب میں ریلی کے لئے سپانسر حضرات کو بھی نہیں بلایا جاتا ۔ بہاولپورپر تین روز کیلئے کچھ ہلچل دکھائی دیتی ہے اور وہ بھی اس لئے کہ یہاں ریلی کا انعقاد ہونا ہوتا ہے ۔بہاولپور کے لوگوں کو ریلی میں حصہ لینے والی گاڑیوں کو صرف ایک جھلک دکھائی جاتی ہے جبکہ قلعہ ڈیراور پر جو بھی تقریبات ہوتی ہیں ، ان کا اہتمام کرنے کی ذمہ داری لاہور کے لوگوں پر ہوتی ہے ۔ کیٹرنگ اور صحرائے چولستان میں خیمہ بستی بسانے کے ٹھیکے بھی لاہور کے ٹھیکیداروں کو دیئے جاتے ہیں ۔ میری درخواست پر سابق کمشنر چودھری آصف اقبال نے گزشتہ سال کی جیپ ریلی میں مسائل کے حل کی طرف توجہ دی تھی اور ٹورازم کارپوریشن کی طرف سے وسیب کے فنکاروں کو نظر انداز کرنے کا ازالہ انہوں نے اس طرح کیا کہ بہاولپور میں تین چار سرائیکی ایونٹ کرا دیئے اور وسیب کے شاعروں، ادیبوں، دانشوروں اور فنکاروں کو اکاموڈیٹ کیا۔ چولستان جیپ ریلی کے بارے میں مسلسل لکھ رہا ہوں ، میں نے پہلے بھی لکھا تھا کہ ریلی سے مقامی لوگوں کو فائدہ ملنے کی بجائے انہیں دوری اور اجنبیت کا احساس ہوتا ہے ۔ وہ کروڑوں روپے کی گاڑیوں میں آنے والے لوگوں کو محض حسرت بھری نگاہوں سے دیکھتے رہتے ہیں ۔ چولستان ڈیزرٹ ریلی کے نتیجے میں چولستان میں آلودگی بھی پیدا ہوتی ہے ‘ جس سے انسان اور جانور بیمار ہوتے ہیں ۔ حالانکہ چولستان ڈیزرٹ ریلی کا مقصد یہ بتایا گیا تھاکہ اسے چولستان کی تہذیب و ثقافت کو فروغ ملے گا اور چولستان کے مسائل کے بارے میں لوگوں کو آگاہی ہوگی ۔ عرصہ 16 سال سے ایک ہی بات کہی جا رہی ہے مگر سوال یہ ہے کہ اگر 16 برسوں میں بھی یہ مقصد پورا نہیں ہو سکا تو پھر کب ہو گا؟ موجودہ وزیر اعلیٰ سردار عثمان خان بزدار کا تعلق اس علاقے سے ہے اب تو تخت لاہور اور تخت لاہور کے حکمرانوں کا شکوہ بھی بے جا ہو چکا ہے۔ حکومت کو بلا تاخیر ان مسائل کی طرف توجہ دینا ہو گی۔ باردیگر کہوں گا کہ چولستان جیپ ریلی کے نام پر چولستان میں عیاشی کے اڈے قائم نہیں ہونے چاہئیں اور مقامی تہذیب و ثقافت کو فروغ حاصل ہونا چاہئے اور ٹورازم کارپوریشن کو بھی مقامی تہذیب و ثقافت کے مطابق انتظامات کرنے چاہئیں۔ افسوس کہ ٹورازم کارپوریشن کی طرف سے چولستان میں اس طرح کی کوئی کانفرنس ، سیمینار یا سمپوزیم نہیں کرائے جاتے البتہ ایک کلچرل نائٹ کا انعقاد کیا جاتا ہے جس میں تمام فنکار باہر سے آتے ہیں ۔ چولستان ڈزیرٹ ریلی کے موقع پر اس طرح کے اقدامات کی ضرورت ہے جس سے مقامی دستکاری کو فروغ حاصل ہو ، لائیو سٹاک کی ترقی ہو اور چولستانیوں کیلئے تعلیم ،صحت اور روزگار کے ساتھ ساتھ پینے کے پانی کے مسائل کا احاطہ کیا جائے ۔مگر افسوس کے ساتھ کہہ رہا ہوں کہ ہماری گزارشات پر توجہ نہیں دی گئی اور وسیب کے لوگوں میں احساس محرومی بڑھ رہا ہے ۔ اگر چولستان جیپ ریلی کا حاصل یہی احساس محرومی ہے تو یہ وہ ملک و قوم کیلئے فائدہ کی بجائے نقصان دہ ہے۔ اس موقع پر یہ بھی کہوں گا کہ وسیب کے لوگ خواجہ فرید کی روہی (چولستان) سے محبت کرتے ہیں اب وقت آگیا ہے کہ چولستان کے مسائل حل کئے جائیں۔ چولستان میں رہنے والے افراد کو بنیادی انسانی ضرورتیں ملنی چاہئیں اور چولستان میں ہر طرح کی لوٹ مار ، ناجائز الاٹمنٹس اور لینڈ مافیا کے قبضے ہر صورت بند ہونے چاہئیں۔