وزیر اعلیٰ پنجاب چودھری پرویز الٰہی نے چولستان کو آباد کرنے کیلئے بیس ہزار خاندانوں کو چولستان میں زمین دینے کا اعلان کیا ہے۔ وزیر اعلیٰ کا کہنا ہے کہ اس منصوبے سے معاشی سرگرمیوں میں اضافہ ہو گا اور خوشحالی آئے گی لیکن سوال یہ ہے کہ زمینیں آباد کرنے کیلئے پانی کہاں سے آئے گا؟ وسیب میں صورتحال یہ ہے کہ قابل کاشت رقبہ تو اپنی جگہ رہا۔ زیر کاشت رقبہ کیلئے بھی پانی نہیں ہے۔ پانی کی قلت ہے، نئے ڈیمز نہیں بن رہے۔ دریائے ستلج کی بندش کے بعد ایک نیا چولستان وجود میں آرہا ہے۔ سندھ طاس معاہدے کے موقع پر کہا گیا تھا کہ کالا باغ سمیت نئے ڈیمز کی تعمیر سے سب کو حصہ ملے گا۔ کالا باغ ڈیم سے وسیب کو پانی کا حصہ ملنا تھا مگر وہ ابھی تک سیاست کی نظر ہے۔چولستان میں پہلے بھی بہت زیادہ ناجائز الاٹمنٹیں ہو چکی ہیں۔ سرائیکی رہنمائوں رانا محمد فراز نون، ملک جاوید چنڑ اور شریف خان لاشاری نے کہا کہ جب تک صوبہ نہیں بنتا ہر طرح کی الاٹمنٹیں بند کی جائیں۔ چولستان میں آبادکاری حساس مسئلہ رہا ہے۔ نیا منصوبہ شروع کرنے سے پہلے زمینی حقائق کو سامنے رکھنا ہو گا تاکہ یہ منصوبہ تنازعات کا باعث نہ بنے۔ چولستان میں پانی کی قلت مستقل مسئلہ ہے۔ چولستان کے مسائل کے حل کیلئے اس کے جغرافیائی پس منظر کا ادراک ضروری ہے۔ چولستان دنیا کے بڑے صحراؤں میں شمار ہوتا ہے ، یہ صحرا ہزاروں مربع میل پر پھیلا ہوا ہے ۔ محققین بتاتے ہیں کہ ہزاروں سال پہلے یہ دریاؤں کا علاقہ تھا ، دریائے گھاگھرا، دریائے ہاکڑہ ، سرسوتی مختلف نام آتے ہیں ۔ کہا جاتا ہے کہ اس علاقے کی خوبصورتی شادابی اور زرخیزی کی بناء پر حملہ آور اس علاقے آتے رہے ۔ سکندر اعظم کے یہاں آنے اور خونریزی کرنے کا ذکر ملتا ہے ۔چولستان کے لوگ بہت سادہ اور دلنواز ہیں ، وہ اپنی دھرتی ، اپنی مٹی اور وسیب سے اس قدر محبت کرتے ہیں کہ انسانی زندگی کی کوئی بھی سہولت نہ ہونے کے باوجود بھی وہ صدیوں سے چولستان سے وابستہ ہیں اور وہ ایک پل کیلئے بھی اسے چھوڑنے کیلئے تیار نہیں ۔ وہ نسل در نسل ایک آس پر زندگی گزار رہے ہیں ، چولستان کے جس باشندے سے آپ پوچھیں ، وہ کہے گا کہ ’’ ہاکڑہ ول واہسی ‘‘ یعنی دریائے ہاکڑہ ایک بار پھر آئے گا اور ہم صحرا سے دریا میں تبدیل ہو جائیں گے۔ چولستان کے گمشدہ دریا کا قصہ ہر زبان پر ہے۔ چولستان میں خوبصورت تہذیب کے عظیم ترین خزانے دفن ہیں ۔ مدفون خزانوں میں تہذیبی آثار اور ثقافتی علامات تو نظر آئی ہیں مگر ہتھیار نہیں ملے ۔ معروف تاریخ دان پروفیسر جاوید عثمان شامی اپنی کتاب ’’ چولستان کی تاریخ و ثقافت ‘‘ میں لکھتے ہیں کہ ’’ محمود غزنوی نے 1000 ء سے 1036ء تک ہندوستان پر سترہ حملے کئے ، ان حملوں کا مقصد لوٹ مار اور مال غنیمت سمیٹنا تھا ۔ ‘‘ وہ مزید لکھتے ہیں کہ ’’ ان کے حملوں سے مسلمانوں کی مرکزی حکومت کو شدید نقصان پہنچا اور بہت سی چھوٹی چھوٹی خودمختار مسلم ریاستیں بھی لوٹ مار کی زد میں آئیں اور کہا جاتا ہے کہ غزنی ان دنوں دنیا کی امیر ترین ریاست بن گئی تھی کہ وہاں بہت زیادہ لوٹ مار کا مال جمع ہوا ۔ محمود غزنوی نے اوچ اور چولستان پر بھی حملہ کیا ، یہ علاقے اس وقت ریاست ملتان کا حصہ تھے اور محمود غزنوی نے ملتان میں ظلم اور بربریت کی انتہا کر دی ۔ ‘‘ اب چولستان میں پیاس کے علاوہ لینڈ مافیا عرب شیوخ کو فارمنگ کے نام پر زمینوں کی فراہمی اور جیسا کہ میں نے پہلے کہا کہ لمپی سکن کی بیماری بہت خوفناک وباء کی صورت میں موجود ہے۔ ان مسائل کے حل کیلئے اقدامات ہونے چاہئیں اور کمیونٹی تجاویز کی ضرورت ہے۔ میرے خیال کے مطابق چولستان کیلئے ایک کمیشن بنایا جائے جو نقصانات کا تعین کرے اور مرنے والے جانوروں کے مالکان کو حکومت معاوضہ دے۔ چولستان بہت بڑا صحرا ہے چولستان کو مختلف زونز میں تقسیم کرکے پانی اور دیگر امداد پہنچائی جائے۔ دیکھنے میں یہ آیا ہے کہ کوئی سماجی ادارے امداد کیلئے وہاں پہنچے تو ان کی حوصلہ شکنی ہوئی جبکہ ضرورت اس بات کی ہے کہ حکومتی سطح پر امدادی کام کرنیوالوں کی حوصلہ افزائی کی جائے۔ چولستان سے ملحقہ نہروں کو پورا پانی فراہم کیا جائے۔ انڈیا سے مذاکرات کرکے سندھ طاس معاہدے پر نظر ثانی کرائی جائے اور ستلج، راوی اور بیاس کیلئے پانی حاصل کیا جائے تاکہ ان دریائوں کی تہذیب مرنے سے بچ سکے۔ سابق ریاست بہاولپور میں تین نئے اضلاع اور ایک نئے ڈویژن کا قیام عمل میں لایا جائے۔ ایک ڈویژنل ہیڈ کوارٹر کا نام چولستان ہونا چاہئے۔ چولستان میں تعلیم، صحت اور روزگار کے مواقع مہیا کرنے کے ساتھ ایک بڑی اور عالمی سطح کی یونیورسٹی چولستان کے نام سے قائم کی جائے جس کا رقبہ کم از کم پانچ لاکھ ایکڑ ہو۔ اس یونیورسٹی میں ایگری کلچرل، میڈیکل، انجینئرنگ کالج و دیگر ذیلی ادارے موجود ہوں۔ پوری دنیا کے طالب علم اس میں داخلہ لیں گے اور چولستان ناجائز الاٹمنٹوں اور لینڈ مافیا کے عذابوں سے بچ جائے گا۔ صحرائے چولستان بھارت کا ملحقہ علاقہ ہے ۔ اگر بھارت کے صحرا راجستھا ن میں چولستان کے مقابلے میں کم سہولتیں ہونگی تو احساس محرومی کا پیدا ہونا لازمی امر ہے ۔ چولستان عظیم تہذیبی و ثقافتی صحرا ہے ، وہاں بسنے والوں کی الگ دنیا ہے، الگ رسم و رواج ہیں ، وہاں کی شادیاں دیکھنے سے تعلق رکھتی ہیں ۔ چولستان کے لوگوں کے خوبصورت لباس ان کی خوبصورت تہذیب کو ظاہر کرتے ہیں ۔ چولستان کے نباتات پر تحقیق کی جائے تو وہ بہت سی بیماریوں کا علاج ہیں ایک خود رو خوشبو دار پودے قطرن سے کشید کی جانیوالی خوشبو فرانس کی خوشبو سے اعلیٰ ہے ۔ پہناوے کے ساتھ چولستانیوں کے زیورات بھی الگ ہیں ۔ چولستان کے فنکاروں کی موسیقی دل موہ لینے والی ہے ۔ وہاں پیدا ہونے والا قدیم و جدید ادب اپنی مثال آپ ہے ۔ چولستان میں جھوک کے نام سے عارضی ٹھکانے ہیں، وہاں خانہ بدوش بھی ہیں جن کو مقامی زبان میں پکھی واس کہاجاتا ہے ۔ چولستان میں قدیم درگاہیں ہیں اور قلعے اس علاقے کی عظمت کو ظاہر کرتے ہیں ۔ چولستان کے اصل حسن کو بحال کرنے کی ضرورت ہے۔