ہم دیکھ رہے ہیں جب سے نواز شریف اور نثار علی خان کے درمیان دوریاں پیدا ہوئی ہیں نثار علی خان کی طرف سے بڑا مبہم بیانیہ سامنے آرہا ہے ۔کبھی وہ ایسا امپریشن دیتے ہیں لگتا ہے ان کی نون لیگ سے راہیں جدا ہو چکی ہیں ۔ہمیشہ کے لئے اپنا راستہ ن لیگ کے تاحیات قائد سے علیحدہ کر رہے ہیں کبھی وہ ایسی پریس کانفرنس کرتے ہیں لگتا ہے وہ نواز شریف کے ساتھ ہیں ۔وہ ایسی دلیلیں دیتے ہیں کہ میں ہمیشہ آپ کے ساتھ رہا ۔ہمیشہ آپ کے دکھ درد میں شریک رہا ۔آپ کا سیاسی بوجھ اٹھایا ۔ چند دن پہلے والی پریس کانفرنس سے ایسا لگ رہا تھا جیسے کوئی عاشق اپنے محبوب کو لئے گئے عہد و پیماں یاد کرا رہا ہے ۔ہاتھ اٹھا کر دہائیاںدے رہا ہے کہ دیکھو مجھ سے زیادہ وفا کرنے والا کوئی نہیں ہو سکتا۔ میں بڑا حیران ہو ا جب چوہدری نثار نے کہا کہ میں نے نواز شریف کو مشورہ دیا تھا کہ پانامہ کیس کو عدالت میں مت لیکر جائیں ۔اس سے بھی زیادہ حیرانگی اس وقت ہوئی جب انہوں نے کہا کہ وہ جے آئی ٹی کے سامنے پیش ہونے کے بھی خلاف تھے ۔وہ نہیں چاہتے تھے کہ ایم آئی اور آئی ایس آئی کے لوگ جے آئی ٹی کا حصہ بنیں ۔پھر سابق وزیر داخلہ اپنی دیانتداری اور اخلاص جو وہ نون لیگ کے لئے رکھتے ہیں فرماتے ہیں کہ انہوں نے نوازشریف کو بھی یہی مشورہ دیا تھاکہ احتساب عدالت کے کیسز کو طول دیتے رہیں حتی کہ الیکشن کاوقت آجائے اس کا مطلب ہے کہ نثار علی خان کو نواز شریف کی کرپشن سے کوئی سروکار نہیں ۔چوہدری صاحب کو صرف ایک چیز کا خیال ہے کہ کسی طرح مسلم لیگ ن اور نوازشریف کی سیاست بچ جائے ۔اسی بہانے ان کی منسٹری بھی چلتی رہے گی ۔چوہدری صاحب کی اس پریس کانفرنس سے لگتا ہے جیسے وہ بلک بلک کر پارٹی کے قائد کے ساتھ ملنے کی التجا کر رہے ہیں ۔ نثار علی خان کو ایک سیاسی حکمت عملی اپنانی چاہئے ۔بجائے اس کے کہ وہ اپنے جو خیر خواہ ہیں ان کو کنفیوژڈ کریں ۔ان کو اپنا واضع بیانیہ سامنے لانا چاہئے ۔وہ کہتے ہیں کہ میں پی ایم ایل این کا حصہ ہوں۔سب جانتے ہیں کہ پی ایم ایل این نواز شریف کی پارٹی ہے ۔اگر نواز شریف اور ان کی بیٹی نے یہ طے کر لیا ہے کہ نثار علی خان کا پی ایم ایل این میں کوئی لینا دینا نہیں تو دنیا کی کوئی طاقت اور کوئی بھی لیڈر یہ کام سر انجام نہیں دے سکتا۔نثار علی خان کو نون لیگ کے اندر ہنا ہے تو ان کو مریم صفدر کا کہنا ماننا پڑے گا ۔بے شک ان کو ناگوار گزرے لیکن ان کو مریم صفدر کے سامنے قطار میں کھڑا ہونا پڑے گا ۔چونکہ نوا ز شریف نے بتا دیا ہے کہ ان کی جماعت کو آگے مریم ہی لیڈ کریں گی ۔دوسری طرف ان کو پی ٹی آئی کی طرف سے دن رات دعوت مل رہی ہے ۔اس پہ ان کا کہنا ہے کہ عمران میرے بچپن کے دوست ہیں دعوت کو شکریے کے ساتھ واپس کرتا ہوں۔چوہدری نثار جو کہ ایک دبنگ سیاست دان کے طور پہ جانے جاتے ہیں اس سے انکے سیاسی کردار پہ اثر پڑے گا ۔پھر وہ کہتے ہیں کہ میں الیکشن لڑوں گا ۔اگر جماعت ٹکٹ نہ دے تو کیسے الیکشن لڑیں گے ؟کیا وہ آزاد حیثیت میں الیکشن لڑیں گے ؟ایک چیز تو طے ہے کہ آئندہ الیکشن میں پی ٹی آئی اور نون لیگ میں مقابلہ ہوگا۔اگر نثار علی خان آنے والے دنوں میں قومی سیاست کا حصہ رہنا چاہتے ہیں تو ا ن کو ایک کام کرنا ہوگا۔یا تو مریم صفدر کی جی حضوری یا پی ٹی آئی کا حصہ بننا ہوگا ۔یہ مشکل فیصلہ نثار علی خان نے کرنا ہے ۔ان کے پاس وقت کم ہے ۔ میرے خیال میں پاکستان کی سیاست آنے والے دنوں میں اختلافات شکار ہو جائے گی ۔پی ٹی آئی اور نون لیگ کے درمیان لڑائی بڑھے گی ۔اس لڑائی میں نثار علی خان کو ایک جانب کھڑا ہونا پڑے گا ۔درمیا ن کا راستہ مشکل نظر آتا ہے ۔ایک اور بات نثار علی خان کو سوچنا چاہئے کہ زمانہ بدل چکا ہے ۔زبان سے نکلا ہوا ایک ایک حرف نا صرف ریکارڈ ہوتا ہے بلکہ روزانہ کی بنیاد پہ چلایا جاتا ہے ۔یہ 2018ئہے اگر آپ سمجھتے ہیں کہ نواز شریف اور انکی بیٹی حق سچ کی بات کر رہے ہیں تو آپ کو ان کے ساتھ کھڑا ہونا چاہئے ۔بصورت دیگر ان کی کھل کر مخالفت کریں۔کڑوا کڑوا تھو تھو میٹھا میٹھا ہپ ہپ کے زمانے گئے ۔ اگر نثار علی خان کہتے ہیں کہ ان کے پاس 45لوگ تھے جو ان کی رہنمائی میں آنا چاہتے ہیں ۔ توآپ کو ان کے نام بھی بتانے چاہئیں ۔اس بات کا کہیں یہ مطلب تو نہیں کہ نثار علی خان پارٹی کو وارننگ دے رہے ہیں کہ اگر آپ نے مجھے نہ لیا تو میں ان کے سمیت الگ ہو جاوں گا ۔یا پھر یہ کہ آپ سے لوگ خفا ہیں آپ اداروں پہ ہاتھ ہلکا رکھیں ۔پی ایم ایل این کے قریبی ذرائع کے مطابق تین بار راضی نامے کی کوشش کی گئی لیکن نواز شریف اور ان کی بیٹی نے دوٹوک الفاظ میں نثار علی خان کی واپسی کو مستر د کر دیا ۔یہ کوشش کسی ادارے نے نہیں بلکہ شہباز شریف نے خود کی ۔ مریم صفدر اور نواز شریف کابیانیہ آجکل امریکہ سے ملتا ہے کہ یا آپ ہمارے ساتھ ہیں یا خلاف ۔کہ وہ لوگ جو انکی ووٹ کو عزت دو کی تحریک کا حصہ ہیں پارٹی ان کو عزت دے گی اور ٹکٹ بھی ۔وہ جو اس بیانیے کی مخالفت کرے گا اس کا نون لیگ کے ساتھ کوئی لینا دینا نہیں ۔جس طرح نواز شریف اور ان کی بیٹی کے لہجے میں شدت آرہی ہے وہ دونوں باپ بیٹی لڑائی کی آخری حد تک جانے کو تیار ہیں ۔نثار علی خان کو اس لڑائی میں یا تو نون لیگ کا حصہ بننا ہے یا پھر اپنی راہیں جدا کرنی ہیں ۔نثار علی خان کے پاس وقت کم ہے ۔ان کو جو بھی کرنا ہے اسی وقت کرنا ہے ۔ورنہ شیخ رشید کی پشین گوئی کہ نثار ٹرین مس کر چکے ہیں سچ ہی ثابت نہ ہو جائے ۔