بھٹو صاحب کمال کی عملی ذہانت رکھتے تھے۔ سندھ میں پیپلز پارٹی کی حکومت تھی۔ جام صادق بھی وزیر بلدیات تھے اور خاصے منظور نظر تھے۔ ان کی شہرت تھی کہ پلاٹوں کی بندربانٹ میں بڑے فیاض تھے۔ بلدیات ان کا محکمہ تھا۔ بھٹو صاحب نے ہنستے ہوئے بہت سوں کی موجودگی میں کہا‘ بھئی‘ جام صاحب ہر پلاٹ الاٹ کر دینا سوائے مزار قائد اعظم اور 70کلفٹن کے۔ ظاہر ہے 70کلفٹن بھٹو صاحب کا اپنا گھر تھا۔ آج میں نے جب ایک خبر دیکھی تو بھٹو صاحب بہت یاد آئے۔ ہمارے نیب کے چیئرمین جسٹس جاوید اقبال نے نوٹس لے لیا ہے کہ قائد اعظم کے مزار کے اردگرد چائنا کٹنگ ہو رہی ہے۔ اس کا تدارک کیا جائے۔ جانے اتنے برسوں میں کتنے جام صادقوں نے یہ کام دکھایا ہو گا۔ پھر تو کراچی میں کوئی حد نہ رہی تھی۔ ماشاء اللہ جام صاحب کی یہ شہرت اس وقت بھی باقی رہی جب وزیر اعلیٰ کے منصب تک جا پہنچے۔ تب انہیں پیپلز پارٹی کی مخالفت میں لانچ کیا گیا تھا۔ تاہم کراچی کو میں نے چائنا کٹنگ کے زمانے سے پہلے بھی کٹتا بٹتا دیکھا ہے۔ یہ کہنا تو مناسب نہ ہو گا‘ مگر اتنا غلط بھی نہ ہو گا کہ اس شہر کی انسانی ہمددی کی بنیاد پر بندر بانٹ اول دن ہی سے ہونے لگی تھی۔ بہت سے نامور بیورو کریٹ تھے جنہوں نے یہ شہر بسایا ہے۔ بستی بسانا کھیل نہیں ہے‘ بستے بستے بستی ہے۔ کراچی ہی کی محبت میں ایک بار کہا تھا کہ شہر اینٹ اور پتھر کی دیواروں کا نام نہیں ہے۔ یہ اس کی رگوں میں دوڑتا وہ خون اور گودا ہے جو اس تہذیب کی علامت ہوتا ہے۔ یہ چائنا کٹنگ والا شہر تو اینٹ اور پتھر کی دیواریں ہوا کرتا ہے۔ وہ شہر ایسے ہی بنا۔ بنتے بنتے بنتا گیا۔ ان دنوں کراچی میں چیف کمشنر ہوا کرتا تھا۔ کچھ اور بااختیار لوگ بھی ہوتے تھے ۔ ہمارے زمانے میں کے ڈی اے کا ڈی جی ہوتا تھا۔ کیا کیا تھا ‘ کیا کیا ٹھاٹھ تھے ان عہدوں کے۔ اپنے ’احسانوں‘ کی وجہ سے ’’نیک نام‘‘ بھی ہو جاتے تھے۔ یہ سلسلہ پھر جانے کہاں تک پہنچا۔ چھوڑیے ان باتوں کو۔ جب قائد کا انتقال ہوا تو مزار قائد کے لئے موجودہ جگہ کا انتخاب کیا گیا ۔ میں نے ان دنوں کا ایک مضمون دیکھا ہے جس میں شکایت کی گئی ہے کہ ایک بیورو کریٹ نے بابائے قوم کو شہر سے باہر ایک ویران ٹیلے پر دفن کر دیا۔ جنہوں نے کراچی دیکھا ہے‘ وہ اندازہ کر سکتے ہیں کہ اب تو اسے مرکز بھی نہیں کہہ سکتے۔ یہ تو شہر کی ایک طرح سے ابتدا ہے۔ ان دنوں کراچی کا تصور ذرا مختلف تھا۔ ایک لیڈر کو جب چوائس دی گئی کہ وہ اپنی کمیونٹی کے لئے کسی جگہ کا انتخاب کرے تو انہوں نے بندرگاہ ‘ریلوے اسٹیشن ‘ مین مارکیٹ وغیرہ کے قرب کی وجہ سے بہار کالونی کے لئے جس جگہ کا انتخاب کیا۔ وہ کراچی کا ایک ایسا علاقہ ہے جہاں کھو ے سے کھو اچھلتا ہے اور آج اسے رہائش کے لئے بے کار جگہ سمجھا جاتا ہے۔ دور تک سوچنا خاصا مشکل ہوتاہے۔ مشرق پاکستان سے آنے والوں کو دوسری بار آباد ہوتے میں نے ستر کے عشرے میں دیکھا ہے۔ اورنگی کی بستی اس طرح بس رہی تھی کہ خالی میدانوں‘ کھیتوں کو کوئی کارندے غیر قانونی طور پر بیچ دیتے۔ کوئی منصوبہ بندی نہ تھی۔ بتایا جاتا‘ یہ جام صاحب کے لوگ ہیں۔ مجھے ایک آدھ کا نام بھی یاد ہے۔ دیکھتے ہی دیکھتے اورنگی کی بستی آباد ہو گئی۔ ایشیا کی سب سے بڑی کچی آبادی۔ اس بستی میں لاکھوں کی آبادی ہو گئی تو جونیجو صاحب نے کچی آبادیوں کو باضابطہ طور پر قانونی ڈیکلیر کیا۔ یہ کٹی پہاڑی اسی طرح بنی تھی۔ مجھے یاد ہے کہ جب یہ پلاٹ بک رہے تھے اور گھر بن رہے تھے تو میں اس علاقے میں اپنی موٹر سائیکل پر گھوما کرتا کہ تلاش کر سکوں کہ کہاں کہاں بے ایمانی ہوئی ہے۔ ان دنوں ایسی ہی خبریں ہوتی تھیں۔ بڑا میدان مارا تو یہ معلوم کر لیا کہ 70کلفٹن کے ساتھ 71کلفٹن بھٹو صاحب نے کس سے کتنے میں اونے پونے داموں خریدا تھا۔ یہ تو خیر اچھے دنوں کی باتیں ہیں۔ پھر تو یہ ہوا کہ کراچی کی سرکلر ریلوے کی میلوں لمبی پٹی پر تعمیرات کھڑی کر دی گئیں۔ یہ ریلوے لائن کوئی پرانی بات نہیں ہے۔ مجھے یاد ہے کہ آٹھویں عشرے میں کراچی کا نظارہ کرنے کے لئے ہم کبھی کبھی اس لائن پر ریلوے کالز کیا کرتے تھے۔ جگہ جگہ پھاٹک تک بنے ہوتے تھے۔ بعد میں ان پھاٹکوں کو اکھاڑڈالا گیا اور ریلوے لائن بھی ادھیڑ کر وہاں کئی سڑکیں بنا دی گئیں۔ بعد میں ایسا بھی ہوا کہ فلائی اوور بنے تو ریلوے لائن کے لئے رستہ چھوڑا گیا۔ معلوم ہوا اب یہ ریلوے ہے ہی نہیں۔ اب جو میٹرو بن رہی ہے اس نے غالباً ایسا ایک آدھ پل بھی ختم کر دیا کہ اب اس کی کیا ضرورت ہے۔ گزشتہ دنوں ہمارے موجودہ چیف جسٹس نے تجاوزات کے نام پر بڑی صفائی کرائی ہے۔ مگر شیخ رسید کہتے ہیں کہ ریلوے کے پاس اسے سنبھالنے کا بندوبست نہیں ہے۔ جس طرح کراچی کو تباہ کیا گیا‘ اس کا یقین نہیں آتا۔ شہر بستے تھے پھر برسوں قائم رہتے‘ آگے بڑھنے‘ پھلتے پھولتے‘ کراچی ایک ایسا شہر ہے کہ دیکھتے دیکھتے بنتا گیا اور دیکھتے دیکھتے بگڑتا گیا۔ اس وقت ماس ٹرانزٹ کے کئی منصوبے بن چکے ہیں‘ ایک پر عمل نہ ہو سکا۔ اب یہ گرین لائن بڑی مشکل سے بنی ہے۔ اب صوبہ کہتا ہے ہمارے پاس بسیں خریدنے کو پیسہ نہیں ہے۔ وفاق پیسہ دے۔ عجیب لوٹ مار ہے۔ جس تیزی کے ساتھ یہ شہر بنا ہے‘ وہ اپنی مثال آپ ہے۔ پاکستان بنتے وقت جو تین لاکھ افراد کی بستی تھی۔ اب 3کروڑ افراد کو سموئے ہوئے ہے۔ مسئلہ صرف یہ ہے کہ جگہ جگہ ’’چائناکٹنگ‘‘ ہے۔ ہم نے اچھے اچھے منصوبوں کا ستیا ناس کر دیا ہے۔ بندرگاہ ہے۔ یہاں سے سدرن بائی پاس اور نادرن بائی پاس کے کیا منصوبے تھے۔ لیاری ایکسپریس کتنے زوروں سے بنایا تھا۔ ہاکس بے کی طرف جانے والے راستوںپر کیا کیا بستیاں ہوتی تھیں۔ سمندر سے راستے نکلنا تھا۔ یہاں یہ حال ہے کہ ایک میٹرو کے لئے بسیں خریدنے کے لئے پیسے مانگ رہے ہیں۔ میں نے کہا کہ ایک اینٹ اور پتھر کے شہر ہوتے ہیں تو دوسرے تہذیب کا مرکز۔ جنہوں نے کراچی کو تہذیبی مرکز کے طور پر ابھرتے دیکھا ہے وہ جان سکتے ہیں کہ یہاں آنے والوں نے کیسے اس شہر کا ناک نقشہ سنوارا۔اس وقت یہ دنیا کے تہذیبی نقشے پر ایک تخلیقی ذہن کا نمائندہ ہے۔ افسوس مگر اس بات کا ہے کہ ہم نے اسے دہشت گردی کی نذر کئے رکھا ہے۔ یہ چائنا کٹنگ جو چیئرمین نیب کو آج نظر آئی ہے‘ یہی وہ بنیادی عنصر ہے جس نے اس شہر کا نقشہ بگاڑ کر رکھ دیا۔ اس شہر کا وہ نقشہ بھی جو تہذیب کا مرکز ہے۔ پاکستان کا کوئی دوسرا شہر اس کا پاسنگ بھی نہ تھا۔ اب صاف دکھائی دیتاہے کہ اس میں جگہ جگہ پیوند لگے ہوئے ہیں۔ بدقسمتی یہ ہے کہ یہ اب ایک مزاج بن گیا ہے۔ اچھی بات مگر یہ ہے کہ اس شہر میں کئی لہریں اٹھتی رہتی ہیں جو اس کے پانی کو بدبو دار نہیں ہونے دیتیں۔ اس شہر کی دوسری خوبی یہ ہے کہ صنعتی اور تجارتی طور پر بھی یہ پاکستان کی جان بنا۔ جب یہ ملک بنا تھا تو یہاں کیا تھا۔ پھر سب کہنے لگے یہ پاکستان کا صنعتی دارالحکومت ہے۔ جانے اسے کس کی نظر کھا گئی۔ مگر منصوبہ سازوں کا خواب بھی یہ تھا کہ اسے مثالی شہر بنایا جائے۔ اس میںجو جو کام ہوئے وہ اپنی مثال آپ ہیں۔ تعلیم‘ تہذیب‘ صنعت و حرمت حتیٰ کہ ہم نے اپنی ایئر لائن ‘ بنک‘ تجارتی ہیڈ کوارٹر ‘کلیدی سٹیل کی صنعت سب کچھ کا آغاز یہاں سے کیا۔ یہی نہیں‘ اپنے ایٹمی پروگرام کا بھی۔ ہم نے یہاں بہت امکانات رکھے۔ چائنا کٹنگ نے سب تباہ کر دیا۔ مگر اب بھی سب کچھ نہیں بگڑا۔ اس شہر کو بہت آگے جانا ہے۔ یہاں وہ سب کچھ ہے جو پاکستان میں اور کہیں نہیں ہے۔ مجھے چھوٹی چھوٹی سی باتیں یاد آتی ہیں۔ پاکستان کی ٹیکسٹائل کا کا مرکز یہ تھا جس سے ہمارا دو تہائی زرمبادلہ آتا تھا۔ آج بھی یہ پاکستان کا صنعتی اور تجارتی دارالخلافہ ہے ۔ اسے سیاست نے مارا ہے سیاست نے۔ زیادہ چالاک بننے کے شوق میں اتنی بیوقوفیاں سرزد ہوئی ہیں کہ افسوس ہوتا ہے۔ یہ چائنا کٹنگ صرف آج کا مسئلہ نہیں‘ لگتا ہے ہمارے جینز میں شامل ہے۔ اور ‘ اور‘ یہ صرف کراچی کا معاملہ نہیں‘ پورے ملک کو کھا گیا‘ بے شکل کر گیا ہے۔ یہ چائنا کٹنگ بہت دور تک گئی ہوئی ہے۔