اردو زبان کا محاورہ ہے۔چھاج بولے سو بولے چھلنی بھی بولے جس میں سو چھید۔ پاکستان میں اس کی مثال کچھ یوں دی جاسکتی ہے کہ مثلاآپ کراچی کے بیمبینو سینما میں ٹکٹ بلیک کرنے کے باعزت کاروبار سے وابستہ ہوں اور خوبی قسمت سے خاتون وزیر اعظم کے مرد اول بن کر مسٹر ٹین پرسنٹ کہلائیں اور پھر ملک کے مطلق العنان صدر کے عہدے پہ فائز ہوجائیں ، پھر ایک دن اچانک انتہائی طیش کے عالم میں، بلکہ کسی نامعلوم قسم کی شدید تکلیف کے زیر اثر پاکستان میں بائیس سالہ سیاسی جدوجہد کے بعد بالآخر وزیر اعظم بننے والے کسی ناتجربہ کار، طفل مکتب قسم کے ہینڈسم کے خلاف پریس کانفرنس کرکے غیض و غضب کا مظاہرہ کریں تو یہ محاورہ بنا ہی ایسے موقع کے لئے ہے۔ غصہ کس بات کا ہے صاحب؟ سندھ میں آپ بلاشرکت غیرے ہر بار حکومت کرتے رہے۔آج بھی کوئی یاد دلائے تو وہاںآپ ہی کی حکومت ہے۔اس وقت بھی جب بقول آپ کے غریب پتھارے داروں کو ان کے جائے کاروبار یعنی ناجائز تجاوزات سے بے دخل کرکے ان کے بچوں کے منہ سے روٹی چھینی جارہی تھی۔کس نے روکا تھا، آپ ڈٹ کر حکومت کے خلاف اٹھ کھڑے ہوتے۔لیکن کیوں؟اربوں کے کاروبار ان پتھاروں پہ ہوتے رہے اور ٹیکس کے نام پہ پولیس اور ایم کیو ایم کو بھتہ دیا جاتا رہا۔کہیں کہیں آپ کو بھی۔ مظفر اویس ٹپی جو آپ کے منہ بولے بھائی ہیں ، سندھ کے عملا حکمران رہے۔ قائم علی شاہ کو دوبارہ وزیر اعلی بنانے پہ آپ کی پارٹی کے ارکان آپ سے ناراض رہے لیکن آپ کو چنداں پروا نہ تھی۔ وجہ یہی پیارا راج دلارا بھائی اویس ٹپی جو قائم علی شاہ کے پردے کے پیچھے صوبے کا حقیقی وزیر اعلی تھا کیونکہ سائیں کو تو اپنی خبر نہیں ہوتی تھی۔یہ آپ ہی کا فیضان تھا جس نے لیاری میں ٹرانسپورٹر فیض محمد عرف فیضو ماما کے بیٹے عزیر کو عزیر بلوچ بنایا۔پیپلز امن کمیٹی نے لیاری میں مجرموں کی سرپرستی کی اور لیاری کو منشیات اور گینگ وار کا گڑھ بنادیا۔عزیر بلوچ جو بھتہ خوری ، قبضہ گیری، منشیات فروشی اور دہشت گردی کا سرخیل تھا 2012ء تک اویس مظفر ٹپی کا چہیتا رہا۔جب وہ حد سے گزرنے لگا حتی کہ اپنے ساتھیوں کے لئے پارٹی ٹکٹ مانگ لئے تو آپریشن ناگزیر ہوگیا۔جس کے مقاصد مکمل طور پہ سیاسی تھے، کسی کو لیاری یا اس کے امن وامان سے دلچسپی نہیں تھی۔ عزیر بلوچ کے اعترافی بیانات کی گونج ابھی کم تو نہیں ہوئی اور اہلیان لیاری نے ایسے ہی تو بھٹو کے نواسے کے جلسے سے پشت نہیں پھیر لی تھی بلکہ بلاول بھٹو کی انتخابی ریلی پہ پتھرائو بھی کیا تھا۔ڈاکٹر عاصم کے ہوشربا انکشافات ابھی ہوا میں تیر رہے ہیں۔ فرماتے ہیں ذوالفقار مرزا اور اویس ٹپی لیاری گینگ وار اور ایم کیو ایم کے درمیان تصادم کے لئے اسلحہ فراہم کیا کرتے تھے اور لیاری گینگ وار کے ملزم شہر میں بھتہ خوری کیا کرتے تھے۔ایم کیو ایم سے خوشگوار تعلقات رکھنا بھی ان کی ذمہ داری تھی تاکہ اپنے اپنے علاقوں میں مل بانٹ کر کھایا جاسکے۔تو یہ سب جناب عالی آپ کے اس دور زریں میں ہوتا رہا جس کے پہلے سو دنوں کا آپ حوالہ دے رہے ہیں ۔ عمران خان کو نواز شریف کی طرح اسٹیبلشمنٹ کا پروردہ ہونے کا طعنہ دینے والے کا اپنا سیاسی پس منظر اس کے سوا کیا تھا کہ وہ حاکم علی زرداری کا بیٹا تھا۔ساری جوانی دادو میں داد عیش دینے ، سینما کے ٹکٹ بلیک کرنے حتی کہ ایک فلم میں اداکاری کا شوق پورا کرنے کے بعد بھٹو کی بیٹی سے شادی ہی واحد سیاسی دائو تھا جو واقعی سب پہ بھاری رہا۔اس شادی کے بعد آپ نے ہی اہلیان پاکستان کو ایک نئی اصطلاح مسٹر ٹین پرسنٹ سے متعارف کروایا۔بے نظیر بھٹو کی اندوہناک شہادت کے بعد جو پراسرار وصیت آپ منصہ شہود پہ لائے اس کے مطابق جمہوریہ پاکستان کی سب سے بڑی جمہوری عوامی پارٹی کو ایک تین رکنی کمیٹی نے جس کے ایک رکن خود آپ یعنی محترمہ کے شوہر تھے، اس وقت تک چلانا تھا جب تک آپ دونوں کا بیٹا بلاول بالغ نہ ہوجائے۔ اس کے بعد وہ پارٹی کا تاحیات چئیرپرسن ہوگا اور بدیہی طور پہ یہ منصب اپنے بچوں کو منتقل کردے گا یوں ملک کی سب سے بڑی پارٹی کسی بادشاہت کی طرح چلائی جائے گی۔ اس وصیت کے خلاف طارق علی نے جو بے حد زیرک، پڑھے لکھے اور وسیع المطالعہ شخص اور کئی کتابوں کے مصنف اور بے نظیر کے قریبی ساتھی تھے اور انہیں مشورے دیا کرتے تھے جن میں سے اکثر پہ وہ کان نہیں دھرتی تھیں، برطانوی جریدے انڈیپنڈنٹ میں ایسا شدید تنقیدی مضمون لکھا جو پاکستان میں شائع نہیں ہوسکا۔انہوں نے لکھا کہ پیپلز پارٹی کو ایک خاندانی ورثے کے طور پہ استعمال کیا جارہا ہے یا ایسی جائداد کے طور پہ جس کا سرپرست اس کے ساتھ کوئی بھی سلوک کرسکتا ہے۔دیکھا جائے تو پیپلز پارٹی کے ساتھ یہی سلوک خود بھٹو صاحب نے بھی کیا جب انہوں نے پارٹی کے سینیئر رہنماوں پہ اپنی بیٹی کو فوقیت دی۔ اگرچہ انہیں قسمت اور ضیاالحق نے مہلت نہیں دی لیکن وہ اپنی زندگی میں ہی بے نظیر کو پارٹی ہی نہیںملک کی قیادت کے لئے تیار کرچکے تھے۔اس تناظر میں آصف زرداری نے سینیئر پارٹی رہنماوں کے ساتھ کچھ نیا نہیں کیا۔وہ پہلے پارٹی اجلاسوں میں انکل کہنے والی بے نظیر کو کرسی صدارت پہ دیکھتے تھے تو بلاول بھی آکسفورڈ کا پڑھا ہوا ہی تھا اور کسی کو انکل بھی نہیں کہتا تھا۔جب تک آپ مرد حر و مرد اول رہے،دنیا بھر کے اخبارات آپ کی بدعنوانیوں کے قصے شائع کرتے رہے۔ پہلے سرے محل کی ملکیت سے انکاری رہے پھر اس کی ضبطگی کے عدالتی حکم پہ اسے قبول کرلیا۔ ہمیں کوئی وقت پڑنے پہ ادھار نہیں دیتا، آپ کو قیمتی بلاول ہاوس تحفے میں ملتے رہے۔ آپ کے دور حکومت میں بے شک ایک آمر اپنے گھر گیا لیکن معاف کیجیے گا ایک این آر او دے کر اور گارڈ آف آنر لے کر گیا۔آپ کے دور زریں میں اس ملک نے بدترین بائیس گھنٹے کی لوڈ شیڈنگ برداشت کی۔ اس بحران پہ قابو پانے کے لئے ایک مرد بحران نے اپنی نوعیت کا انوکھا حل نکالا اورکرائے کے بجلی گھر وں کی لائن لگا دی اور سنگین بدعنوانیوں کے الزامات اور راجہ رینٹل کی عرفیت سے معروف ہونے کے باوجود منصب وزرات عظمی پہ فائز ہوا۔ آپ نے گو صوبائی اختیارات صوبوں کو منتقل کئے لیکن کون نہیں جانتا کہ حکومت کس کی تھی؟ صدر زرداری کے بغیر کس وزیر اعظم کی مجال تھی کہ وہ وزیر اعظم کہلاتا۔ آپ نے تو ایک خط کے پیچھے ایک وزیراعظم قربان کیا اور دوسرے کو سولی پہ ٹانگے رکھا۔آپ کے دور حکومت میں پاکستان کرپٹ ترین ممالک کی عالمی رینکنگ میں سینتالیس سے پینتیسویں نمبر پہ آگیا۔ قومی خزانے کو اسی کھرب روپے کا نقصان ہوا۔نوے ارب سے زائد بجلی چوری اور 872 روپے کے گردشی قرضے اس کے علاوہ ہیں۔آج چھاج بولے یا چھلنی، کس کو خبر نہیں کہ ان سوراخوں میں جعلی اکاونٹس اٹک گئے ہیں۔ یہ ایک پریس کانفرنس کے بس کی بات نہیں۔