مولانا حسرت موہانی سے کسی نے پوچھا : "حضرت وہ آپ کا رسالہ نکالنے کا تجربہ کیسا رہا؟"فرمایا : "بھائی، انتہائی مشکل کام ہے۔ اس واقعے کا دلہن کو علم تھا اور یہ بھی علم تھا کہ اس کی خوشگوار پر سکون اور گھریلو سیاست کی تلخیوں سے بچنے کی واحد صورت یہ ہے کہ اس حقیقت کو جان لے کہ چھوٹی ساس اور بڑی ساس کی گھر میں کوئی حیثیت نہیں ہے۔گھر میں سارا شور شرابا تو یہی دو ہستیوں کے مرہون منت ہے اس سے زیادہ ان دونوں کی کوئی وقعت نہیں۔دونوں ساسوں نے اپنی اپنی باریاں لگائی ہوئی ہیں۔ایک دفعہ دلہن کو چھوٹی ساس اپنا نشانہ بناتی ہے اور دوسری بار بڑی ساس اپنا وار کرتی ہے۔دونوں ساسوں سے گھر میں ہی نہیں پورے محلے میں کوئی عزت سے پیش نہیں آتا۔سب ان دونوں کو سامنے سے آگے آتا دیکھتا کر ہنسنا شروع کر دیتے ہیں۔اگر کوئی ہنستا نہیں ہے تو زیر ِ لب مسکراتے ضرور ہیں۔اس زیر ِ لب مسکراہٹ کا دونوں ساسوں کی کوئی پرواہ نہیں تھی۔کسی نے چھوٹی ساس کے کان میں کانا پھوسی کی تھی کہ محلے کے لوگ کسی کو پھپھے کٹنی کہہ رہے تھے۔چھوٹی ساس نے فورا کہا یہی تو میں کب سے کہہ رہی ہوں کہ بڑی کو محلے کے لوگ قطعا پسند نہیں کرتے۔جب اس موضوع کو اور کھولنا چاہا تو چھوٹی ساس نے ساری بات سنی ان سنی کر دی۔چھوٹی کے لیے یہ خوشی کا مقام تو تھا ہی کسی نے بڑی ساس کو بھی بتایا کہ محلے کے لوگ کسی کو بڈھی کھوسٹ کہہ کر یاد کر رہے تھے۔بڑی فورا بولی میں تو کب سے کہہ رہی ہوں کہ چھوٹی مجھ سے محض ایک ہفتہ بعد اس گھر میں آئی تھی۔عمر اس کی مجھ سے بڑی ہے۔عمر میں میں اس سے کہیں چھوٹی ہوں۔ یہ فضول اور بیہودہ القابات مجھے مخاطب کر کے نہیں کہے گئے یہ چھوٹی کا معاملہ ہے محلہ جانے اور چھوٹی جانے۔دلہن کو اس گھر میں آنے سے پہلے ان دونوں ساسو مائوں کا پتہ تھا اس نے شادی سے بہت پہلے ساری سن گن لی تھی۔اس کی منگنی کے شگنوں میں سب خبر معلوم ہو چکی تھی۔مگر وہ خاص مشرقی دلہن تھی اسے ڈولی میں بٹھاتے وقت میکے نے کہا تھا اب سسرال ہی تمہارا گھر ہے۔تمہارا جنازہ نکلے تو نکلے تمہیں اس گھر سے نہیں نکلنا۔تمہارا اصل گھر وہی ہے۔چھوٹی اور بڑی دونوں بہت کایاں ہیں۔ اڑتی چڑیا کے پر گننا کوئی ان سے سیکھے۔اسے بتایا گیا کہ وہ دونوں ہوا کا رخ پہچاننے میں ایک دوسرے سے آگے ہیں۔دونوں میں مقابلہ خوب چلتا رہتا ہے۔کبھی ایک کا پلہ بھاری ہوتا ہے کبھی دوسری غالب آ جاتی ہے۔دونوں چونکہ بہت کایاں ہیں لہذا بڑی دیر سے اپنی اپنی حکومتیں نہ صرف بچانے میں کامیاب ہیں بلکہ اپنے آپ کو بہت مضبوط سمجھتی بھی ہیں مگر مضبوط ہر گز نہیں ہیں۔ وہ سمجھتی ہیں کہ ان کے پاس بہت اختیارات ہیں دلہن کو کیا کرنا ہے کس سے ملنا ہے اس سے کس کو نہیں ملنا ہے یہ ان دونوں کا اختیار ہے۔دلہن کا کام محض ایک شو پیس کا ہے۔اس سے زیادہ کچھ نہیں۔ دونوں ساسوں کی صحت اب بھی قابل ِ رشک تھی۔ انہوں نے قریبی رشتہ داروں سے پکی دوستی گانٹھی ہوئی تھی۔جس چیز کی انہیں طلب ہوتی دونوں ایک پل میں عنایت کر دیتیں۔وہ دونوں کھا کھا کر سانڈ بن چکی تھیں۔صبح سویرے بڑی ساس تو بادام کی سرادئی پیتی تھی چھوٹی سری پائے کا ناشتہ کرتی تھی۔دونوں ساسوں کی نوکرانیاں نوکر بھی وہی خوراک استعمال کرتے ان سب کی بھی گردنیں مفت کی کھا کھا کر موٹی ہو چکی تھیں۔آنکھوں کے آگے چربی کے پہاڑ آ گئے تھے۔ان کی آنکھیں گوشت میں چھپتی جا رہی تھیں۔ان دونوں کو کسی کی پرواہ بھی نہیں تھی۔ وہ کسی کی محتاج ہی نہیں تھیں ہر چیز ان کے پاس موجود تھی۔ دلہن ان کے رحم وکرم پر تو نہ تھی مگر وہ سیاست بازی کر کے اس کو تنگ تو سکتی تھیں۔یہی انہوں نے کرنے کا سوچا۔دلہن کو کبھی ہمت ہو نہیں سکتی کہ وہ ان کے سامنے آئے۔دلہن نے بہت سوچ سمجھ کر اور پھونک پھونک کر قدم اٹھانے کا فیصلہ کیا ہوا تھا۔ دلہن غریب بھی تھی اور کمزور بھی مگر خوبصورت بلا کی تھی۔چال ڈھال میں بھی وقار تھا چلتی تو ایک حشر بپا کر دیتی۔محلے میں آتی جاتی ساری عورتیں اس کو دیکھ کر واری جاتیں۔اس کی بلائیں لیتیں۔تمیز دار بہو تھی گویا ڈپٹی نذیر احمد کی اصغری تھی۔بات کرنے میں ٹھہرائو، فضول باتوں سے اجتناب، بڑوں کا احترام اور چھوٹوں سے شفقت نے اسے محلے کی آنکھ کا تارہ بنا دیا۔اس کہانی میں کہیں خاوند اور سسر کا ذکر نہیں ہے۔وہ گویا موجود تھے اور نہیں بھی تھے۔ان دونوں نے یہ معاملات انہی دو ساسو مائوں پر چھوڑ رکھے تھے۔خاوند کی تو اماں حضور تھیں اور سسر کی بیگم جان۔خاوند اور سسر خوش تھے چلیں جان چھوٹی۔وہ پرانے آزمودہ کلیے پر عمل پیرا تھے کہ طویلے کی بلا بندر کے سر۔ دلہن اس انتظار میں ہے کہ دونوں ساسیں روایتی ساس کے رول سے اوپر اٹھیں اور گھر کی اصل مالک کو اس کا مقام دیں۔مولانا حسرت موہانی کا ادبی پرچہ چل نکلے۔