قدیم پنجابی کے اکھان اور لوک گیتوںمیں بابا ٹلّ کا ذکر آیا ہے ۔ ایک اکھانؔ (ضرب اُلمِثل) میں کسی بھوکے نے اونچے سُروں میں بابا ٹلّ کو پکارتے ہُوئے کہا تھا کہ ’’ بابا ٹلّ پکی پکائی گھل‘‘ (یعنی ۔ اے بابا ٹلّ ! مَیں بھوکا ہُوں ، آپ مجھے پکی پکائی روٹی بھجوا دیں) ۔ معزز قارئین!۔ آپ نے پنجاب کی کسی الہڑ مٹیار کو اپنے محبوب / شوہر کو مخاطب کرتے ہُوئے اُس سے پنجابی لوک گیت کا یہ مُکھڑا (مطلع) ضرور سُنا ہوگا کہ … جدوں آوے گا ، بابا ٹلّ وے! سارے مسئلے کرو گا، حل وے! مَیں نے اپنے قارئین کو اپنے خوابوں میں آنے والے (کینیڈین شیخ اُلاسلام ، علاّمہ طاہر اُلقادری کے لڑکپن کے جھنگوی دوست ) بابا ٹل ّ سے اپنے 27 اگست 2014ء کے ’’ نوائے وقت‘‘ میں اپنے کالم پہلی مرتبہ متعارف کرایا تھا ۔ پھرکئی کالم لکھے ۔روزنامہ ’’ 92 نیوز‘‘ میں صِرف ایک کالم 9 مئی 2017ء کو لِکھا اور جب بعد مدؔت ۔ بابا ٹلّ میرے خواب میں تشریف لائے تو مَیں نے اُن سے یہ بھی پوچھا تھا کہ … بعد مُدّت کے ، لائے ہو، تشریف! خُوش تو ہیں ، آپ کے ،مزاج شریف! معزز قارئین!۔ پرسوں رات (29 جنوری کو ) میرے خواب میں بابا ٹلّ آئے اُن کے ساتھ میرے دیرینہ دوست ’’شاعرِ سیاست‘‘ بھی تھے ۔ بابا ٹلّ اپنے گلے میں لٹکا ٹلّ بجا کر میرے ڈرائنگ روم میں اپنے مخصوص صوفے پر بیٹھ گئے اور اُن کے بغلی صوفے پر ’’ شاعرِ سیاست‘‘۔ بلا تمہید بابا ٹلّ نے مجھ سے کہا کہ ’’ اثر چوہان بھائی ! ۔ معذرت چاہتا ہُوں کہ ،مَیں بڑی مدّت بعد آپ کے خواب میں آیا ہُوں، اپنے پیارے پاکستان اور عوام کے مسائل پر تبادلہ خیال کرنے کے لئے ۔ آپ چونکہ میری گفتگو کو اپنے کالم کا موضوع بھی بناتے ہیں اِس لئے مَیں آج آپ کے اوراپنے مشترکہ دوست ’’ شاعرِ سیاست‘‘ کو بھی ساتھ لایا ہُوں ۔ آپ سوال کریں گے اور ہم دونوں باری باری جواب دیں گے یا پھر مَیں آپ سے اور ’’ شاعرِ سیاست‘‘ سے سوال و جواب کروں گا ۔ میرا وقت بھی بہت قیمتی ہے اور جنابِ فیض احمد فیض نے تو پہلے ہی کہہ دِیا تھا کہ… اور بھی دکھ ہیں ، زمانے میں محبت کے سِوا! میرا آپ سے پہلا سوال یہ ہے کہ ’’ویزا پالیسی کو مزید ’’کُھلا ڈُھلا ‘‘ کرنے کے بعد وزیراعظم جناب عمران خان نے پاکستان اور افغانستان میں سیاست اور تجارت کو فروغ دینے کے لئے مختلف اداروں کو ’’ طور خم بارڈر‘‘ 24 گھنٹے کُھلا رکھنے کی ہدایات جاری کردی ہیں ۔ لیکن ، مَیں تو برادر ؔملک افغانستان کے ساتھ اتنی زیادہ محبت کی پینگیں بڑھانے کے حق میں نہیں ہُوں‘‘۔ مَیں ۔ بابا ٹلّ جی!۔ آپ کو یاد ہوگا کہ بعد ازاں سپریم کورٹ کی طرف سے نااہل کئے جانے والے وزیر اعظم میاں نواز شریف کے دَور میں ’’ افغان سرحدی فورس‘‘ کی درخواست پر چمنؔ کی سرحد پر "Gate of Friendship" (بابِ دوستی) کھولا گیا تھا لیکن 20 اگست 2016ء کو پاک افغان سکیورٹی حکام کی چار روزہ منعقدہ "Flag Meeting" (اجلاسِ پرچم) کے بارے میں کہا گیا تھا کہ ’’ اجلاس "Fruitless" رہا؟۔ بابا ٹلّ۔ ’’ جی ہاں!۔ مجھے یاد آیا کہ ’’23 اگست کو آپ کے کالم کا عنوان تھا ’’ بابِ دوستی اور اربابِ دوستی‘‘ ۔ مَیں۔ مَیں نے لکھا تھا کہ ’’ افغانستان سے آنے والے لوگوں (مہاجروں اور تاجروں) کے ماتھے پر تو نہیں لکھا ہوتا کہ کون مہاجر یا تاجر ہے اور کون دہشت گرد؟۔ شاعرِ سیاست۔ ’’مرزا غالب ؔنے بھی ہر شخص کے لئے ’’ بابِ دِل ‘‘ کے ذریعے ’’ باب ِ دوستی‘‘ کھول رکھا تھا لیکن، نہ جانے اُنہوں نے کِس دوستؔ سے مخاطب ہو کر کہا تھا کہ … ہُوئے تُم دوست جس کے، دُشمن اُس کا آسماں کیوں ہو؟ بابا ٹلّ۔ ’’ شاعرِ سیاست صاحب!۔ وزیراعظم کے مشیر برائے تجارت، صنعت ،پیداوار و سرمایہ کاری جناب عبداُلرزاق دائود ؔنے ’’ لحن دوستی ‘‘ کا مظاہرہ کرنے کے بجائے پاکستان کے غریب عوام کو یہ مایوس کُن خبر سُنائی ہے کہ ’’ وزیراعظم عمران خان کے لئے عوام ( غریبوں) کو فوری طور پر "Relief" ( پریشانی سے نجات) نہیں دی جا سکتی ، وزیراعظم صاحب کے "Fan" (دلدادہ) کی حیثیت سے آپ کیا کہتے ہیں؟۔ شاعرِ سیاست۔ ’’عرض کرتا ہُوں… ہمارے جیتے جی، انصاف کا ،سُورج چمک اُٹھا! اندھیروں ہی سے پھوٹی ہے ، سحر، آہستہ آہستہ! …O… ابھی تو اہلِ ثروؔت کے مسائل ،ہو رہے ہیں حل! غریبوں کا بھلا ہو ؔگا ، مگر ، آہستہ ، آہستہ! مَیں ۔ بابا ٹلّ جی! ۔ ’’ جناب ذوالفقار علی بھٹو ، محترمہ بے نظیر بھٹو اور علاّمہ طاہر اُلقادری سمیت پاکستان کے بہت سے سیاستدان، حکومتِ وقت کا تختہ اُلٹنے کے لئے کئی بار "Long March" کی دھمکی دے چکے ہیں اور اب اپنے باباؔ سائیں، جناب آصف زرداری اور پھوپھی صاحبہ فریال تالپور کے خلاف مختلف نوعیت کے مقدمات کی واپسی کے لئے نواسۂ بھٹوؔبلاول بھٹو زرداری ، وزیراعظم عمران خان کی حکومت کو لانگ مارچ کی دھمکی دے رہے ہیں؟۔ بابا ٹلّ۔ ’’ بھائی اثر چوہان !۔ آپ نے بھی پڑھا ہوگا کہ عوامی جمہوریہ چین کے بانی چیئرمین مائوزے تنگ کی قیادت میں (1934ء ۔1935ئ) میںکئے جانے والے لانگ مارچ میں ( بقول چیئرمین مائوزے تنگ) اُن کے ساتھ نظریات سے مسلح اور گوریلا جنگ میں تربیت یافتہ سُرخ فوج کے جوان اور معمر لوگ بھی چل رہے تھے۔ چیئرمین مائوزے تنگ کا جب انتقال ہُوا تو اُنہوں نے ترکے میں چھ جوڑے کپڑے (Uniforms) ۔ایک لائبریری اوربنک میں ایک ہزار سے بھی کم ڈالر چھوڑے تھے۔ ارب پتی اور کھرب پتی سیاستدانوں کی اولاد کیا لانگ مارچ کرے گی؟۔‘‘ شاعرِ سیاست۔ ’’ایک پنجابی فلم میں ہیروئن اور گلوکارہ مُسرت نذیر صاحبہ نے ایک لوک گیت میں اپنے محبوب (ہیرو) سے مخاطب ہو کر کہا تھا کہ … پِچھے پِچھے آئوندا ، میری چال ویہندا آئیں! چیرے والیا ،ویکھدا آئیں وے، میرا لونگ ،گواچا؟ مَیں ۔ مَیں نے 1992ء میں اپنے ایک کالم میں وزیراعظم نواز شریف کی حکومت کا ’’ تختہ اُلٹنے کے لئے محترمہ بے نظیر بھٹو اور اُن کا پیپلز پارٹی کے لونگ مارچ کو ’’ اقتدار کا لونگ گواچا مارچ‘‘ قرار دِیا تھا ۔ مائوزے تنگ کی قیادت کے نظریات سے مسلّح سرخ فوج غریبوں کے حق میں انقلاب لے آئی تھی۔ چیئرمین مائوزے تنگ نے 1927ء میں ’’ھونان کی کسان تحریک کے بارے میں تحقیقی رپورٹ‘‘ میں انقلاب کے حوالے سے لکھا تھا کہ ’’ انقلاب کوئی دعوتِ طُعام ،مضمون نویسی ، مصّوری یا کشیدہ کاری نہیں ، یہ اِتنا پُر سکون اور کریم اُلنفس ، اتنا مُعتدل ، رحم دِل، مہذب ، محتاط اور عالی ظرف بھی نہیں ہوسکتا، انقلاب تو ایک بغاوت کا نام ہے ، ایک ایسی تشدد آمیز کارروائی ، جس کے ذریعے ایک طبقہ دوسرے طبقے کا تختہ اُلٹ دیتا ہے ۔ جس کے ذریعے کسان طبقہ جاگیرداروں کے مستحکم طبقے کا تختہ اُلٹ کر خُود اقتدار پر قبضہ کرلیتا ہے‘‘ ۔ بابا ٹلّ۔ ’’شاعرِ سیاست جی! آپ نے وہ خبر پڑھی ہوگی کہ جنابِ آصف زرداری کے ایک مُرید خاص جناب منظورؔ وسّان نے اپنا ایک خواب بیان کِیا ہے کہ "Twenty Twenty" ( یعنی۔ 2020ئ) میں وزیراعظم عمران خان کی حکومت ختم ہو جائے گی۔ کیا آصف زرداری ’’ قائدِ انقلاب‘‘ ہو ں گے؟ ‘‘۔ شاعرِ سیاست۔ ’’عرض کرتا ہُوں… آیا پھر منظور وسّاؔں کو، یہ خوابِ مُک مُکا! ہوگا ٹونٹی ٹوؔنٹی میں ، پھر انتخاب مُک مُکا! …O… دونوں نے مل کر ،اُتارا ہے ، حجابِ مُک مُکا! بابا سائیں اور بلاولؔ ہم رکابِ مُک مُکا! مَیں۔ بابا ٹلّ جی !۔ کیا آپ کبھی میرے دوست گلاسگو کے’’ بابائے امن‘‘ ملک غلام ربانی کے خواب میں بھی کبھی گئے ہیں؟۔ بابا ٹلّ ۔’’ مجھے نہیں معلوم؟ کہ اللہ تعالیٰ نے ’’ بابائے امن‘‘ کو کس مٹی سے بنایا ہے ؟ وہ، تو مجھے اپنے خواب میں داخل ہی نہیں ہونے دیتے‘‘۔ پھر کیا ہُوا معزز قارئین!۔ بابا ٹلّ نے ہتھوڑی سے اپنے گلے میں لٹکے ٹلّ کو بجایا اور میری آنکھ کُھل گئی۔