کسی سیانے کا قول ہے ، چھین کر کھانے والے کا کبھی پیٹ نہیں بھرتا، بانٹ کر کھانے والا کبھی بھوکا نہیں مرتاــ، بانٹ کر کھانے والے کو آسانیاں اور سکون میسر رہتا ہے کیونکہ اس نے کبھی کسی کا حق مارنے کے بارے میں نہیں سوچنا ہوتا جبکہ چھین کر کھانے والے کی نظر ہر وقت دوسرے کے مال پر ہوتی ہے۔فراعین مصر سے لیکر آج کے دور تک چھین کر کھانے والوں کی ہزاروں مثالیں موجود ہیں۔ انکی لالچ اور ہوس کی کوئی انتہاء نہیں ہوتی جس کے نتیجے میں صلہ رحمی، گداز، انسانیت ایسی اصطلاحات سے ہمیشہ نا بلد رہتے ہیں بلکہ ظلم، حق تلفی ،سنگدلی ، مال و دولت جمع کرنے کی لگن ، حرص وغیرہ انکے اندر کوٹ کوٹ کر بھری ہوتی ہے۔ غرضیکہ وہ ان تمام انسانی خصائل سے محروم ہوتے ہیں جو معاشرے کی بہترین اقدار کی بنیاد ہوتے ہیں۔ ایسے لوگ کے ہاتھ میں جب کسی بھی قسم کا اختیارہو تو معاشرے کی ابتری کو کوئی نہیں روک سکتا۔ان کے مفادات پر جب زد پڑتی ہے تو وہ اسکے دفاع کے لئے کسی حد تک چلے جاتے ہیں۔ انکے لئے انصاف کے تقاضے اس وقت پورے ہوتے ہیں جب انصاف کا پورا عمل انکی مرضی اور منشا کے مطابق ہو اور فیصلہ بھی انکے حق میں ہو۔ ان سے سوال کرنے کی جرات کسی کو نہیں ہونی چاہئے ، چاہے سوال کتنے ہی جائز کیوں نہ ہوں۔وہ جو جواب دیں اسکو تسلیم کیا جائے اور فیصلہ ایسا ہو جو انہیں فرشتہ ثابت کر دے۔ ہمارے ہاں بھی عرصہ دراز سے اس قسم کی با اثر اشرافیہ موجود ہے۔ انصاف انکے گھر کی لونڈی رہی ہے ایک فون پر اپنی مرضی کا فیصلہ لے لیتے ہیں۔ حکومتی مشینری انکی جنبش ابرو کی منتظر رہتی ہے، کس کو کھڈے لائن لگانا ہے، کس کی مستقل چھٹی کرانی ہے، کس کی پگڑی اچھالنی ہے، کس کو صرف دھمکی دینی ہے اور کس کو منظر سے ہی غائب کر دینا ہے۔ ایک صدی قبل دنیا میں ایسے اثرو رسوخ اور طاقت رکھنے والے گروہوں کو مافیا کہا جاتا تھا۔ اصطلاح تو یہ اب بھی مستعمل ہے لیکن اب لوگ اس ٹائٹل کا برا مناتے ہیں۔ ایسے کام کرنے والوں کو شرفاء بھی نہیں کہا جا سکتا، کہیں اسکو طنز کے زمرے میں نہ لے لیا جائے۔ حتی کہ سپریم کورٹ کے جج صاحبان نے بھی گاڈ فادر اور مافیا کے حوالے کو موازنے کے طور پر ضرور استعمال کیا تھالیکن براہ راست قرار دینے سے گریز کیا۔ انیسویں صدی میں جب اٹلی نے سسلی کو اپنا حصہ بنایا اور وہاں فیوڈ ل ازم کا خاتمہ کیا تو ایک مافیا وجود میں آیا جو چھوٹے لیکن بے بس زمینداروں کی تعداد میں بے تحاشا اضافے کے نتیجے میں بنا۔ چھوٹے زمیندار اپنی زمینوں قبضہ قائم رکھنے کی تگ ودو میں تھے جبکہ تجارت میں اضافے کی وجہ سے بہت سے تگڑے لوگ ان زمینوں پر قبضہ کرنے کے درپے تھے۔ ان لاچار لوگوں کی مدد کو اس وقت سرکاری کارندے موجود تھے لیکن بہت ہی کم تعداد میں۔ ایسے میں پرایئویٹ لوگوں کے مصلح جتھے ان لوگوں کی مدد کو آئے جو انکو تحفظ فراہم کرتے تھے ۔ یہ کوئی ہمدرد لوگ نہیں تھے بلکہ انکے اپنے کچھ عزائم تھے۔ تجارت کی آڑ میں سمگلنگ اور بعد میں منشیات کا کاروبار کرنے والے یہ جتھے مافیا کہلانے لگے۔ جو ماضی قریب تک خاصے فعال تھے قانون ،انصاف کوئی ضابطہ انکی راہ میں رکاوٹ نہیں تھا۔ پولیس سے لیکر عدلیہ اور بیوروکریسی کے کرتا دھرتا یا تو ان سے تعاون کرتے یا پھر اپنے انجام کو پہنچ جاتے تھے۔ مافیا سے ٹکر لینے والوں کے بچے اور خاندان بھی محفوظ نہیں تھے۔ ایسے دل دہلا دینے والے واقعات اس مافیا کی کارروائی کے حوالہ سے بیان کئے جاتے ہیں کہ روح کانپ اٹھتی ہے۔ماضی قریب کا واقعہ جسے کولمبیا کے ڈرگ مافیا کے سر دھرا جا رہا ہے ، جولائی 1994 میں پیش آیا جب ورلڈکپ فٹبال کے ایک میچ میں امریکہ کے مقابلے میں کولمبیا کو ایک کے مقابلے میں دو گول سے شکست ہوئی۔ جس گول کی بابت امریکہ جیتا وہ کولمبیا کے ستائیس سالہ کھلاڑی آندرے ایسکوبار نے غلطی سے اپنے ہی گول میں بال پھینک کر کیا۔ اس کھلاڑی کو کچھ دنوں بعد قتل کر دیا گیا ۔ جبکہ اس گیم کے آغاز سے پہلے کولمبیا کی ٹیم کو ہارنے کی صورت میں سنگین نتائج کی دھمکی مل چکی تھی۔ تحقیقات میں اس بات کے اشارے ملے کہ کولمبیا کے سرکردہ ڈرگ کارٹل نے کولمبیا کی فتح پر بھاری رقم شرط پر لگا رکھی تھی۔ شکست سے انکا جو نقصان ہوا اسکا غصہ انہوں نے ایسکو بار کو قتل کر کے ٹھنڈا کیا۔ اس طرح کے بیشمار واقعات ہیں۔ ان باتوں کا تذکرہ کرنے کا مطلب یہ ثابت کرنا نہیں کہ ہمارے ہاں بھی اس جدید دور میں خدانخواستہ ایسی کاروائی کرنے والے مافیا موجود ہیں۔ لیکن بحر حال اپنے مفاد کے لئے تگڑے اور با اثر افراد جس طرح سے دھمکیاں لگاتے ہیں تو کسی حد تک مافیا کی یاد تازہ ہو جاتی ہے۔ حال ہی میں اسی طرح کے ایک خود ساختہ مافیا کے بارے میں پتہ چلا جو وفاقی دارالحکومت میں ریاست مدینہ کے داعی وزیر اعظم عمران خان کی ناک کے عین نیچے دندناتا پھر رہا ہے۔ایسی صورتحال کے لئے شیخ رشیدکا قول ذرا ترمیم کے ساتھ پیش ہے کہ ’’حکومت انکے ہاتھ کی چھڑی اور پولیس جیب کی گھڑی ہے‘‘۔ حقداروں کا حق مارنا، فراڈ کے ذریعے لوگوں لو ٹنا اور پھر پولیس کی ملی بھگت سے مدعی کو ملزم ثابت کرنا انکے بائیں ہاتھ کا کھیل ہے۔انکی مدد کرنے کو ملک کے طاقتور ترین لوگ ہر وقت تیار ہوتے ہیں کیونکہ یہی لوگ انکے فرنٹ مین کا کردار ادا لرتے ہیں اور جہاں انکو اپنی ساکھ کا خطرہ ہو وہ انہی صالحوں کے ذریعے اپنی صفائی پیش کرتے ہیں اور یہی لوگ چند ٹکوں کی خاطر انکے لئے بیانیہ بھی تیار کرتے ہیں۔یہ لوگ اپنے لالچ میں لوگوں کو مبارک حدیثوں کے حوالے سنا تے ہوئے یہ بھول جاتے ہیں کہ کفن کی جیبیں نہیں ہوتیں۔ یہ سب کچھ یہیں رہ جانا ہے اور نالائق اولاد کے ہوتے ہوئے ،اس رقم کے انبار سے بھی انکی کچھ بہتری نہیں ہو سکتی۔اور بالآخر ان چھوٹے چھوٹے فرعونوں کاجو انجام ہوتا ہے اس بارے میں افتخار عارف نے کیا خوب کہا ہے۔ یہ وقت کس کی رعونت پہ خاک ڈال گیا یہ کون بول رہا تھا خدا کے لہجے میں