شبیر سومرو

 

موبائل فون نے ’’آدھی ملاقات‘‘ کا پورا لطف غارت کردیا

بہت سارے لوگ روزانہ خط کی امید میں ڈاکیے کا انتظار کرتے تھے 

خط لکھنے لکھانے اور چٹھیاں بھجوانے کا روایتی سلسلہ تقریباً ختم ہوگیا 

 اب روایتی خط کی جگہ ای میل کو قابلِ اعتماد ذریعہ سمجھاجانے لگا ہے

ڈاک خانے اب آن لائن کاروبار میں مدد دینے کے ساتھ مالیاتی خدمات فراہم کرنے لگے ہیں

 

شبیر سومرو

 

خطوط نویس نثاراحمد بھی گذشتہ ماہ مرگیا۔اس سے پہلے کراچی صدر کے جی پی او کے سامنے اَن پڑھ افراد کے لیے، خطوط لکھنے کا کام کرنے والے محمد شریف ، اعظم بھٹی، اکرم قریشی اور دوسرے ’منشیوں‘ کے گذرجانے سے، خطوط نویسی کے روایتی عہد کا خاتمہ تقریباً ہوچکاتھا۔ہم نے یہاں لفظ ’تقریباً‘اس لیے کہا کہ ابھی سب سے پرانے محمد بشیر اور دو تین دانے صدر ڈاکخانے کے سامنے فٹ پاتھ پر بیٹھے نظر آجاتے ہیں، جو اپنے آگے چھوٹے سے اسٹول، چوکی یا پھر لکڑی کی پیٹی پر لفافے، منی آرڈر فارم، ڈاک ٹکٹ اور سادہ کاغذات رکھے گاہکوں کے منتظر نظر ہوتے ہیں۔مگر اب یہ نظارہ کم کم دِکھتا ہے کہ خط لکھنا اوربقولِ غالبؔ اسے بامِ یار تک پہنچانے کے بہت ہی پیارے اور جمالیاتی مراحل کے مابین، موبائل فون، ٹیکسٹ میسیجز ، سوشل میڈیااور دیگر جدید رابطوں کی ’قینچیاں‘حائل ہو چکی ہیں۔   

خط کبوتر کس طرح لے جائے بامِ یار پر؟

پر کترنے کو لگی ہیں قینچیاں دیوار پر

صدر ڈاکخانے کے سامنے بیٹھنے والے سب سے پرانے منشی محمد بشیر سے کل پندرہ سال بعد ایک بار پھر کچہری ہوئی۔جب میں انھیں بتایا کہ پچھلی بار(یعنی آج سے سولہ سال پہلے!) کیا کیا اُن سے ’’گَل بات‘‘ ہوئی تھی تو لجاجت سے کہنے لگے:

’’بھائی! اب میرا دماغ اتنا کام نہیں کرتا کہ اتنی پرانی باتیں یاد رہیں۔ معذرت چاہتا ہوں ،آپ کسی اور بھائی سے بات کرلیں‘‘۔

’’ آپ کے علاوہ یہاں موجود دوسرے دونوں’ منشی صاحبان‘ نئے لگتے ہیں، ان کو کیا پتا کہ خط لکھنے، پھر اس کے جواب کا انتظار کرنے اور جواب آجانے پر آدمی کو کیا خوشی ملتی تھی؟اب تو موبائل کا دور ہے۔ ویسے آپ کو یہاںکتنا عرصہ ہوگیا؟‘‘۔

میں نے انھیں راہ پہ لانے کی کوشش کی۔ کہنے لگے:

’’ میں اصل میں دیکھا جائے تو 1963 ء میں یہاں ڈاکخانے میں ’پیون‘بھرتی ہوا تھا۔ پھر اللہ کے کرم سے ترقی کر کے کلرک ہوگیا تھا۔ اسی پوسٹ سے 1995ء میں ریٹائر ہوگیامگر اس جگہ کی محبت ایسی تھی کہ ریٹائر ہو کے بھی ادھر سے جانے کو دل نہیں مانا۔اس لیے پھر منشی بن کے ادھر سامنے بیٹھ گیا اور لوگوں کے خط اور چٹھیاں لکھنے لگ گیا۔ اللہ کا شکر ہے کہ آج تک چلا رہا ہے‘‘۔

’’مگر اب تو خط لکھنے لکھانے کا دور ہی نہیں رہا تو پھر کیسے گذارہ کرتے ہیں؟‘‘۔

’’پینشن ملتی ہے، پھر ایک بیٹا اسی ڈاکخانے میں ملازم ہوگیا ہے۔وہ تو کہتا ہے کہ ابا! آپ اب گھر بیٹھ جائیں، مگر میں کہتا ہوں کہ اگر ایک بار بیٹھ گیا تو پھر بیٹھ ہی جائوں گا۔ اس لیے جب تک ہاتھ پائوں چلتے ہیں، تب تک کام کرنا چاہیے‘‘۔

’’بالکل درست سوچ ہے۔ یہ بتائیں کہ اب کس طرح کے گاہک آتے ہیں؟‘‘۔

اب یہ ہے کہ خط لکھوانے والے تو کم آتے ہیں۔ منی آرڈر بھروانے والے آتے ہیں۔ لفافے، پین، کاغذ وغیرہ خریدنے والے بندے آتے ہیں۔ابھی بھی ملک کے ہزاروں گراں گوٹھ ایسے ہیں، جہاں موبائل کے ’سنگل‘نہیں آتے اور نیٹ بھی نہیں چلتا۔ وہاں کے لوگ اب بھی ڈاک کے منتظر ہوتے ہیں‘‘۔

’’پچھلے دور میں تو ان پڑھ نوجوان بھی آپ سے خط لکھوانے آتے ہونگے؟‘‘۔

’’ہاں مگر میں’ ایسے ویسے عاشقی معشوقی والے‘خط نہیں لکھتا تھا۔میں تو مزدوروں، ہوٹلوں میں کام کرنے والے بیروںاور دوسرے بچارے چِٹے ان پڑھوں کے لیے ان کے گھر والوں کو خط لکھ کے دیتاتھا، جن میں ماں باپ کی صحت کا پوچھتے تھے، پیسے بھیجنے کا بتاتے تھے اور ایسا ضروری حوال ہوتا تھا ان خطوں میں جو میں لکھ کے دیتا تھا‘‘۔

ایک اور منشی محمدمنظور کہتے ہیں کہ اب یہ کام ختم ہورہاہے:

 ’’ہم صبح ڈاکخانہ کھلنے سے بھی آدھا گھنٹہ پہلے یہاں پہنچ کر اپنے ٹھیّے والی جگہ صاف کر کے ،ابھی سامان کھول کر بیٹھتے ہی نہیں تھے کہ ہمارے گاہک آجاتے تھے۔بلکہ کئی مرتبہ تو ہمارے آنے سے بھی پہلے وہ ہمارے انتظار میں یہاں جی پی او کے سامنے کھڑے ٹہل رہے ہوتے تھے۔دن بھر ہم خط لکھتے  اور منی آرڈر فارم بھرتے رہتے تھے اور ہمیں دوپہر کے کھانے کا وقت بھی نہیں ملتا تھا۔ لیکن اب ہمارا کام بہت ہی کم ہو گیا ہے۔یہ ساری کارروائی موبائل فون کی ہے، جس کی وجہ سے ہمارے جیسے لوگ بے روزگار ہو گئے ہیں‘‘۔

 محمدمنظور نے دوسروں کے لیے معمولی اجرت کے عیوض خط لکھنے کا پیشہ برسوں پہلے اختیارکیا تھا۔ اس وقت وہ نوجوان تھے اور پنجاب کے قصبے میاں چنوں کے ایک قریبی علاقے سے کراچی کمانے آئے تھے۔ ان کے والد کا انتقال ہوچکا تھا اور بڑے بھائی نے انھیں میٹرک سے آگے پڑھانے سے معذوری ظاہر کر دی تھی۔اس لیے محمدمنظورقسمت آزمانے کراچی آگئے تھے، جہاں ان کے کئی دوست پہلے ہی مختلف کارخانوں اور ہوٹلوں میں محنت مزدوری کر کے نہ صرف اپناپیٹ پال رہے تھے بلکہ ہر ماہ تنخواہ میں سے سیکڑوں روپے اپنے اہلِ خانہ کو پنجاب بھجوا بھی رہے تھے۔محمدمنظور اس زمانے کی باتیں بتاتے ہوئے کہیں کھوجاتے ہیں:

 ’’سستا زمانہ تھا جی، ہم ملباری کے ہوٹل سے چار روپے میں سالنا اور دو نان لے کر پیٹ بھر لیتے تھے۔ صبح کو سویرے ایک پراٹھا اور ایک مگا چائے کا ٹوٹل تین روپے میں مل جاتا تھا۔ کمائی بھی اس دور میں ویسی ہی تھی نا! یوں سمجھیں کہ دن بھر کی محنت کر کے کوئی بیس پچیس روپیے ہی بن پاتے تھے۔ہم تو اس پر بھی اپنے سوہنے رب کا شکر ادا کرتے تھے کہ بہت سوں سے اچھا رکھا ہے اس نے ہمیں۔ کسی کے محتاج نہیں ہیں، اپنا کھاتے کماتے ہیں۔ حلال کا رزق ملتا ہے اور گھر والوں کو بھی ہر مہینے خرچہ بھیج رہے ہیں۔ بندے کو اور کیا چاہیے بھلا؟‘‘۔ 

 کراچی کے صدرڈاکخانے کے سامنے اب بھی دو تین خطوط نویس یا منشی بیٹھے نظر آتے ہیںلیکن اب ان کی تعداد کم ہو گئی ہے اور اب ان کا کام بھی دفتری اور سرکاری نوعیت کے فارمز بھرنے تک محدود ہو کر رہ گیا ہے۔ان کے مطابق گذشتہ دو عشروں میں خط لکھنے لکھانے اور چٹھیاں بھجوانے کا روایتی سلسلہ تقریباً ختم ہوچکا ہے۔ ایک دوسرے سے رابطہ کرنے کے طریقے مکمل طور پر تبدیل ہو چکے ہیں۔ موبائل فون کے انقلاب نے ان پڑھ اور پڑھے لکھے فرد کا فرق مٹا دیا ہے۔اس سے آگے یہ ہوا ہے کہ ڈاکیے کا روایتی کرداربھی تبدیل ہوگیا ہے۔اب تو منی آرڈر کے ذریعے ماہ بہ ماہ گھر رقم بھیجنے کی ضرورت بھی موبائل کی پیسہ سروس اور بنکوں کی تیز رفتار سہولت نے آسان کر دی ہے۔ڈاک خانے آکر منی آرڈر کے ذریعے جو رقم بھجوائی جاتی تھی، وہ کئی دن بعد جاکر وصول ہوتی تھی۔ اب تو آج اور ابھی کا زمانہ آگیا ہے۔ 

پیشہ ور خط نویسوں کی کامیابی کی ایک وجہ یہ بھی ہوتی تھی کہ وہ ہر ایک کے راز کو خفیہ رکھتے تھے۔انھیں ہر بات صیغہ راز میں رکھنا ہوتی تھی، یہ صرف اور صرف اعتماد کا معاملہ ہوتاتھا۔ اگر خط نویس اپنے گاہک کے راز نہ چھپائے تو گاہک کااعتماد اٹھ جائے۔اس لیے یہ لوگ بہت کامیاب رہتے تھے۔مگر وہ ایک اور زمانہ تھا، جب ہاتھ سے خط لکھے جاتے تھے اور خطوط نویسی ایک باقاعدہ فن کی حیثیت رکھتی تھی لیکن آج انٹرنیٹ اور ذرائع ابلاغ نے دنیا کی مسافت کو سمیٹ کر رکھ دیا ہے، اب روایتی خط کتابت کی جگہ ای میل قابلِ اعتماد ذریعہ سمجھاجانے لگا ہے۔ رفتہ رفتہ لوگ ہاتھ سے خط لکھنا بھولتے جا رہے ہیں اور خطوط نویسی کی روایت بھی بعض پرانی قدروں کی طرح ماضی کا قصہ بنتی جا رہی ہے۔

معروف شاعر، صحافی اور لکھاری توقیر چغتائی خط لکھنے اور پڑھنے کے لطف و مسّرت کو آج بھی یاد رکھے ہوئے ہیں اور کہتے ہیں:

’’خط لکھنے اور پڑھنے کا جو لطف ہے، اسے وہی جانتے ہیں جو خطوط کے ذریعے ایک دوسرے سے رابطہ کرتے تھے۔ ہم نے بچپن میں ایسے بہت سارے لوگ دیکھے جو روزانہ اس امید کے ساتھ ڈاکیے کا انتظار کرتے تھے کہ آنے والی ڈاک میں ان کے نام کا بھی کوئی نہ کوئی خط ضرور موجود ہو گا۔ اگر کسی کا خط آتا تو وہ اسے ایک دفعہ پڑھنے کے بعد بار بار پڑھتا اور کچھ دن گزرنے کے بعد بھی دوبارہ پڑھتا۔  ان دنوں سفری سہولتیں بہت محدود تھیں اور ہم ترقی کرتے کرتے بیل گاڑی سے صرف تانگے تک ہی پہنچے تھے۔اگر کہیں آنا جانا ہو تو بڑے سے بڑے روٹ پر بھی بسوں کا گھنٹوں انتظار کیا جاتا تھا۔ شاید اسی لیے یہ محاورہ اکثرسننے کو ملتا کہ ’’ خط سے آدھی ملاقات ہو جاتی ہے‘‘۔ ہم اس محاورے کو اس وقت سچ ہوتے ہوئے دیکھتے، جب کچھ لوگ خط پڑھنے کے دوران کبھی ہنستے، کبھی روہانسے ہو جاتے اور کبھی ٹھنڈی سانسیں بھرنے لگتے۔ کچھ نوجوان خط کے ذریعے اظہارِ محبت کی کوشش بھی کرتے مگر ایسے زیادہ ترخط عموماً پکڑے جاتے تھے۔ اس کے باوجود ،وہ باز نہ آ تے اور دوبارہ یہی حرکت کرتے۔ غالب نے شاید ایسے ہی نوجوانوں کے لیے یہ شعر کہا تھا:

 خط لکھیں گے گرچہ مطلب کچھ نہ ہو

ہم تو عاشق ہیں تمہارے نام کے

خط لکھنے کی روایت اور مشغلہ جتنا مفید ہے، کسی ’نازک‘خط کے پکڑے جانے کی داستانیں بھی اتنی ہی دلچسپ ہیں۔ موبائل کی وبا پھیلنے کے بعد ایس ایم ایس کی بدعت نے جنم لیا۔ یوں قلمی دوستی اور خطوط نویسی کی روایت دم توڑ گئی۔ یہ الگ بات کہ آج بھی خط کے معاملات پر ملکی عدلیہ متحرک ہو جاتی ہے اور لوگوں سے وزارت عظمی تک چھن جاتی ہے۔

بہر حال جی چاہتا ہے کہ قلمی دوستی اور خطوط نویسی والی بزرگوں کی سنت کوایک بار پھر زندہ کیا جائے۔زمانہ ترقی کرتے کرتے بہت دور نکل گیا۔ اتنا دور کہ تہذیب وثقافت ، رکھ رکھاؤ اور میل جول کے سارے طریقے بہت پیچھے رہ گئے۔ اب کسی ڈاکیے کے بغیر، ہمیں روزانہ سیکڑوں خطوط (ای  میلز)موصول تو ہوتے ہیں، مگر ان میں وہ چاشنی نہیں ہوتی جو کاغذ پر لکھے دنوںاور ہفتوں بعد پہنچنے والے خط کے الفاظ میں ہوتی تھی۔کچھ لوگوں نے اب تک وہ خط سنبھال کر رکھے ہوئے ہیں جو کئی برس پہلے ان کے دوستوں رشتہ داروں اور محبت کرنے والوں نے انہیں لکھے تھے اور انہیں ان خطوط سے اب بھی گزرے ہوئے وقت کی آہٹ سنائی دیتی ہے۔

اختر شیرانی نے شاید ایسے ہی خطوں کے لیے کہا تھا:

مٹ چلے میری امیدوں کی طرح حرف مگر

آج تک تیرخطوں سے تری خوشبو نہ گئی‘‘۔